حسد، اعتراف
حضرت یوسف علیہ السلام کے سوتیلے بھائیوں نے ابتدا میں یہ کیا کہ آپ کو کنویں میں ڈال دیا ۔مگر اللہ تعالٰی نے آپ کی مدد کی۔ آپ کو نبوت عطا ہوئی اور آپ کو مصر کے اعلیٰ سیاسی عہدہ پر پہنچا دیا گیا۔ آپ کے بھائی پہلے اس معاملہ سے بے خبر تھے۔ مگر جب ان پر حقیقت کھلی تو وہ کہہ پڑے : تَٱللَّهِ لَقَدۡ ءَاثَرَكَ ٱللَّهُ عَلَيۡنَا [يوسف: ۹۱] (خدا کی قسم ، اللہ نے تم کو ہمارے اوپر فضیلت دے دی)
اس کے برعکس مثال بنی اسرائیل کی ہے۔ بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل دو بھائیوں کی اولاد تھے۔ ابتداءً زیادہ ترپیغمبر بنی اسرائیل میں آئے مگر آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم بنی اسماعیل میں پیدا ہوئے۔ بنی اسرائیل آپ کے مخالف ہو گئے۔ انھوں نے آپ کو پیغمبر ماننے سے انکار کر دیا( النسا ء : ۵۴)
یہ دو مختلف مثالیں ہیں۔ پہلی مثال اعتراف کی مثال ہے اور دوسری مثال انکار اور حسد کی مثال۔ یہی اس دنیا میں سب سے بڑا امتحان ہے، اور یہ امتحان آغازِ حیات سے لے کر قیامت تک جاری رہے گا، یہاں تک کہ خدا ظاہر ہو کر تمام حقیقتوں کا آخری اعلان کر دے، اور اس کے بعد کسی کے لیے انکار اور حسد کاموقع ہی باقی نہ رہے۔
یہ امتحان سب سے پہلے آدم کی پیدائش کے وقت ہوا جب کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو اور ابلیس کو آدم کے آگے جھکنے کا حکم دیا۔ اس وقت فرشتوں نے اعتراف کا طریقہ اختیار کیا اور ابلیس نے حسد اور انکار کا۔ اس کے بعد یہی معاملہ آدم کے بیٹے ہابیل اور قابیل کی زندگی میں پیش آیا۔ ہابیل کی قربانی اللہ نے قبول کی اور قابیل کی قربانی قبول نہیں ہوئی۔ اس کے بعد ہابیل نے عجز اور اعتراف کا انداز اختیار کیا اور قابیل حسد اور انکار کا طریقہ اختیار کر کے خسران میں پڑ گیا (المائدہ: ۳۰)
اس دنیا میں جو شخص بھی پیدا ہوتا ہے ، ہر ایک کو اس امتحان میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ ہر آدمی کے سامنے کسی نہ کسی اعتبار سے یہ صورت حال آتی ہے کہ اس کے لیے ایک روش اعتراف کی ہوتی ہے اور دوسری روش حسد اور انکار کی۔ جو لوگ اعتراف کا طریقہ اختیار کریں وہ امتحان میں پورے اترے۔ اور جو لوگ حسد اور انکار کا طریقہ اختیار کریں وہ امتحان میں ناکام ہو گئے ۔ اعتراف نہ کر ناخدا کے فیصلہ پر راضی نہ ہونا ہے، اور اس سے بڑا مجرم کون ہے جو خدا کے فیصلہ پر راضی نہ ہو۔