ارکان اسلام

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قال:

قال رسول الله صلى الله عليه وَسَلَّمَ: (‌بُنِيَ ‌الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالْحَجِّ، وَصَوْمِ رمضان) (صحیح بخاری،حدیث نمبر۸صحیح مسلم،حدیث نمبر۱۶)

حضرت عبد اللہ بن عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے۔ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اور نماز قائم کرنا اور زکوۃ دینا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔

اس حدیث کے مطابق، اسلام میں پانچ چیزیں ستون (pillars) کی حیثیت رکھتی ہیں۔ جس طرح عمارت کچھ ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے، اسی طرح اسلامی زندگی پانچ ارکان پر قائم ہوتی ہے۔ یہ پانچ ارکان بظا ہر پانچ شکلی چیزوں کے نام ہیں۔ یعنی کلمۂ ایمان کے الفاظ کو دہرانا۔ صلاۃ کے ڈھانچہ کوقائم کرنا ، زکوۃ کی مقررہ رقم نکالنا ، حج کے مراسم کو اد اکرنا، رمضان کے صوم کا اہتمام کرنا ۔ مگر اس کا مطلب شکل برائے شکل نہیں بلکہ شکل برائے اسپرٹ ہے۔ یعنی ان شکلی احکام کی ایک حقیقت ہے اور ان کی وہی ادائگی معتبر ہے جس میں اس کی حقیقت پائی جائے۔

 اس دنیا میں ہر چیز کا معاملہ یہی ہے ۔ مثلاً ٹیلیفون کو لیجیے ۔ جیسا کہ معلوم ہے ، ٹیلیفون کی ایک ظاہری صورت ہوتی ہے۔ مگر یہی ظاہری صورت وہ چیز نہیں ہے جو اصلاً  ٹیلیفون سے مطلوب ہو۔ ٹیلیفون برائے ٹیلیفون مطلوب نہیں ہوتا بلکہ ٹیلیفون برائے رابطہ مطلوب ہوتا ہے۔ اگر آپ کہیں کہ میرے پاس ٹیلیفون ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہو گا کہ ٹیلیفون کی صورت آپ کے پاس موجود ہے اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ٹیلیفون کی حقیقت آپ کے پاس موجود ہے۔ یعنی ایک ایسی مشین جس کے ذریعہ دنیا کے ہر حصہ سے ربط قائم کیا جاسکے۔ جس کے ذریعہ دور کے لوگوں سے گفتگو کی جاسکے۔

یہی معاملہ اسلام کے مذکور ہ پانچ ارکان کا بھی ہے ۔ یہ ارکان اسی وقت ارکان اسلام ہیں جب کہ ان کو اس طرح اختیار کیا جائے کہ ان کی شکل کے ساتھ ان کی معنوی روح بھی آدمی کے اندرپائی جارہی ہو روح کو جدا کرنے کے بعد شکل کا موجود ہونا ایسا ہی ہے جیسے اس کا موجود نہ ہونا۔

ایمان اسپرٹ ––––––   سب سے پہلا رکن ایمان ہے ۔ اس کی ظاہری صورت کلمۂ اسلام کی زبان سے ادائیگی ہے۔ اور اس کی معنوی اسپرٹ اعتراف ہے۔ اس کلمہ کے ذریعہ ایک انسان خدا کا اس کے تمام صفات کمال کے ساتھ اعتراف کرتا ہے۔ وہ محمد عربی کی اس حیثیت کا اعتراف کرتا ہے کہ خدا نے ان کو میرے لیے اور تمام انسانوں کے لیے ابدی رہنما بنایا۔ یہ حقیقت جس کے دل میں اتر جائے وہ اس کی پوری نفسیات میں شامل ہو جاتی ہے۔ ایسے آدمی کا سینہ سچائی کے اعتراف کے لیے کھل جاتا ہے۔ وہ ایک ایسا انسان بن جاتا ہے جس کے لیے کوئی بھی چیز کبھی حق کے اعتراف میں رکاوٹ نہ بن سکے۔

صلاۃ اسپرٹ  ––––––   صلاۃ کی ظاہری صورت پنج وقتہ عبادت ہے اور اس کی معنوی اسپرٹ تواضع ہے۔ صلاۃ کا عمل کرنے والا آدمی اپنے رب کے آگے جھکتا ہے۔ اس طرح وہ اپنے اندر تواضع کی نفسیات پیدا کرتا ہے۔ جس آدمی کے اندر صلاۃ اسپرٹ پیدا ہو جائے وہ گھمنڈ اور انانیت جیسی چیزوں سے یکسر خالی ہو جائے گا۔ اس کا رویہ ہر معاملہ میں تواضع کا رویہ بن جائے گانہ کہ فخر اور کبر کا رویہ۔

زکاۃ   ––––––  ز کاۃ کی ظاہری صورت سالانہ ایک مخصوص رقم کی ادائگی ہے اور اس کی معنوی اسپرٹ خدمت ہے۔ جو آدمی زکاۃ کا عمل کرے اس کے اندر خلق کے لیے خدمت اور خیر خواہی کا عمومی جذبہ پیدا ہو جائے گا۔ وہ چاہے گا کہ وہ دنیا میں اس طرح رہے کہ وہ دوسروں کے لیے زیادہ سے زیادہ مفید بن سکے۔

حج اسپرٹ  –––––   حج اپنے ظاہر کے اعتبار سے سالانہ مراسم کی ادائگی ہے اور اس کی معنوی اسپرٹ اتحاد ہے۔ جو آدمی صحیح کیفیت کے ساتھ حج کے فرائض ادا کر لے اس کے اندر اختلافی نفسیات کا خاتمہ ہو جائے گا ، وہ اتحاد و اتفاق کے مزاج کے ساتھ لوگوں کے درمیان رہنے لگے گا، حتی کہ اس وقت بھی جب کہ دوسروں کے ساتھ اس کا اختلاف پیش آگیا ہو۔

صوم اسپرٹ  ––––––   صوم کی ظاہری صورت رمضان کے مہینہ کا روزہ ہے اور اس کی معنوی اسپرٹ صبر ہے۔ صوم کا مقصد یہ ہے کہ آدمی کے اندر صبر کی اسپرٹ پیدا ہو۔ جو آدمی صوم کا عامل ہو ، اس کے اندر یہ عمومی مزاج پیدا ہو جائے گا کہ وہ ناخوش گوار باتوں کو برداشت کرے ، وہ لوگوں کی قابل شکایت باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے زندگی گزارے۔

جو لوگ اسلام کے ان پانچ ارکان کو محض ان کی شکل کے اعتبار سے اختیار کریں ، وہ مخصوص شکل کی حد تک تو ان کو اپنا ئیں گے، مگران شکلوں کے باہر ان کی زندگی ان ارکان سے بالکل آزاد اور غیر متعلق ہوگی۔

مثلا ً وہ کلمہ ٔایمان کے الفاظ کو اپنی زبان سے دہرائیں گے ، مگر ان مخصوص الفاظ کے باہر جب ان کے سامنے کوئی حق آئے گا تو وہ اس کا اعتراف نہ کر سکیں گے ، کیوں کہ ان کی روح کلمہ کی اسپرٹ سے خالی ہے ۔ وہ نماز کی شکل کو مسجد میں کھڑے ہو کر دہرائیں گے ۔ مگر مسجد کے باہر جب لوگوں کے ساتھ ان کا سابقہ پیش آئے گا تو وہاں وہ تواضع کا انداز اختیار نہ کر سکیں گے، اور اس کی وجہ یہ ہوگی نماز کی جو اسپرٹ ہے وہ ان کے اندر موجود نہیں۔

اسی طرح وہ زکوۃ کے نام پر ایک رقم نکال کر کسی کو دیدیں گے ۔ مگر اس کے بعد جب وہ لوگوں کے ساتھ معاملات کریں گے تو اس میں وہ خیر خواہی کا ثبوت نہ دے سکیں گے ، کیوں کہ زکاۃ اسپرٹ سے ان کا سینہ خالی تھا ۔ وہ اہتمام کے ساتھ حج کا سفر کریں گے اور اس کے مراسم ادا کر کے واپس آجائیں گے ۔ مگر وہ اس کے لیے تیار نہ ہوں گے کہ لوگوں کی طرف سے پیش آنے والی شکایتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کے ساتھ اتحاد و اتفاق کا معاملہ کریں ۔ کیوں کہ انھوں نے حج کے باوجو د حج اسپرٹ اپنے اندر پیدا نہیں کی۔ رمضان کا مہینہ آئے گا تو وہ موسمی عبادت کے طور پر ایک مہینہ کا روزہ رکھ لیں گے۔ مگروہ صبر کے موقع پر صبر نہیں کریں گے۔ وہ ہر اشتعال پر مشتعل ہو کر لڑنے لگیں گے ۔ اور اس کی وجہ یہ ہوگی کہ ظاہری طور پر انھوں نے روزہ تو رکھ لیا، مگر ان کے دل و دماغ میں روزہ کی اسپرٹ پیدا نہ ہوسکی۔

 جو آدمی اسلام کے پانچ ارکان کو اختیار کر لے وہ مومن ومسلم ہو گیا۔ وہ اس کا مستحق ہو گیا کہ دنیا میں اس کو اللہ کی رحمت ملے اور آخرت میں اس کو جنت میں داخل کیا جائے۔ مگر اسلام کے پانچ ارکان اپنی شکل اور روح دونوں کے اعتبار سے مطلوب ہیں۔ ان کی ادائگی پر جن انعامات کا وعدہ ہے اس کا تعلق کا مل ادائگی پر ہے نہ کہ ادھوری ادائگی پر ۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom