یہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا

یہ ایک سوچا سمجھا ہوا منصوبہ تھا،map

نہ کہ محض پر جوش اقدام۔

طارق بن زیا د(وفات 106ھ) رمضان 91ھ میں اسپین کے ساحل پر اترے تو ان کے ساتھ سات ہزار کا لشکر تھا ۔ ساحلِ افریقہ اور اسپین کے درمیان دس میل کی آبنائے کو، ان کے لشکر نے چار کشتیوں کے ذریعہ پار کیا تھا۔ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے موجودہ زمانہ کے ایک ’’مورخ اسلام‘‘ لکھتے ہیں:

’’ اس سے اس زمانہ کے جہازوں کا اندازہ ہو سکتا ہے کہ وہ کتنے بڑے تھے‘‘۔

 موصوف نے قیاس کیا کہ پورا لشکر ایک ہی بار چار کشتیوں پر لد کر دوسری طرف پہنچ گیا ہو گا۔ حالاں کہ یہ صحیح نہیں ۔ اس زمانہ میں ایسی کشتیاں وجود میں نہیں آئی تھیں، جن پر دو ہزار فوجی اپنے تمام ساز وسامان کے ساتھ بیک وقت بیٹھ سکیں ۔ اصل یہ ہے کہ ان لشکریوں نے کئی پھیروں میں آبنائے طارق کو پار کیا تھا۔

ساتویں صدی عیسوی کے آخر تک مسلمانوں نے افریقہ کو بحر روم سے آخری ساحل تک فتح کر لیا تھا۔ بازنطینی سلطنت ایشیا اور افریقہ سے ختم ہو چکی تھی۔ تاہم مراکش کے ساحل پر سبطہ اور اس کے مضافات کے علاقے اب بھی اسپینی گورنر یلیان ( کا ؤنٹ جولین) کے قبضہ میں تھے۔ یہاں رومیوں نے زبر دست قلعہ بنایا تھا۔ موسیٰ بن نصیر نے اس کو فتح کرنے کی کوشش کی۔ مگر ان کی طاقت دیکھ کر بالآخر انہوں نے مصلحت یہ سمجھی کہ صلح کر لیں اور اس ساحلی قلعہ کو اس کے قبضہ میں چھوڑ دیں ۔ افریقہ سے باز نطینی سلطنت کے خاتمہ کے بعد جولین نے اپنے سیاسی تعلقات اسپین کی عیسائی حکومت سے قائم کر لیے۔ سبطہ اس وقت اندلس کا ایک سمندر پار صوبہ سمجھا جاتا تھا۔ اندلس سے برابر کشتیوں کے ذریعہ اس کو مدد پہنچتی رہتی تھی ۔

 یہاں یہ سوال ہے کہ جو مسلمان اسپین کے ایک ماتحت گورنر سے خود اپنے مفتوحہ بر اعظم میں صلح کرنے پر مجبور ہوئے تھے ، انھوں نے سمندر پار کر کے خود اسپین پر حملہ کرنے کی جرأت کسی طرح کی ۔ اس کا جواب زیر بحث مسئلہ کے تاریخی مطالعہ سے گہرا تعلق رکھتا ہے ۔

  400ھ میں قوط (گا تھ)قبائل اسپین میں گھس آئے اور پانچ سو سالہ رومی سلطنت کو ختم کر کے وہاں اپنی حکومت قائم کرلی ۔ بعد کو ان لوگوں نے ٹھیک اسی طرح مسیحی مذہب کو اختیار کر لیا، جس طرح ترکوں کے ایک گروہ بنو سلجوق نے مسلم دنیا پر قابض ہونے کے بعد اسلام قبول کر لیا۔ گاتھ کا مقصد اس تبدیلی ِمذہب سے یہ تھا کہ مقامی عیسائیوں کو مطمئن کر کے اسپین میں اپنے سیاسی اقتدار کو مستحکم کریں۔ جس زمانہ میں مسلمانوں نے باز نطینی اقتدار کو شام، مصر، فلسطین سے ختم کیا، طلیطلہ (ٹالیڈو) پر گاتھ کا آخری بادشاہ وئیکا( فیطشہ) حکمراں تھا۔ وئیکا کی بعض کمزوریوں سے اس کے ایک فوجی افسر رذریق (Radrick) کو موقع ملا کہ وہ اس کی حکومت کا تختہ الٹ دے اور خود اسپین کا حکمراں بن جائے۔

 سبطہ کا گورنر جولین اگر چہ وئیکا کا رشتہ دار تھا۔ تاہم اس نے مصلحت کے تحت اپنی وفا داریاں رذریق سے وابستہ کر دیں۔ مگر بعد کو ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے اس کو بے حد مشتعل کر دیا ۔ اور اس کو اپنے بادشاہ کا مخالف کر کے مسلمانوں کے قریب کر دیا جو افریقی براعظم میں اس کے جغرافی پڑ وسی تھے۔

اس زمانہ میں اسپین کا حکمراں طبقہ بدترین قسم کی عیاشیوں کا شکار تھا۔ رواج کے مطابق امراءکی لڑکیاں عرصہ تک شاہی محل میں رکھی جاتی تھیں تاکہ شاہی آداب و قواعد کو سیکھ سکیں اور بادشاہ کی خدمت کریں ۔ رذریق کے عہد میں جولین کی لڑکی فلورنڈا بھی اسی رواج کے مطابق شاہی محل میں داخل ہوئی ۔ لڑکی جوان ہوئی تو رذریق اس پر فریفتہ ہو گیا اور جبر یہ طور پر اس کی عصمت دری کی۔ لڑکی نے کسی طرح اس واقعہ کی اطلاع اپنے باپ کو دی۔

 جولین کو اس واقعہ کا انتہائی صدمہ ہوا۔ اس نے قسم کھائی کہ جب تک رذریق کی سلطنت کو دفن نہ کرلے ، چین سے نہ بیٹھے گا۔ اولاً وہ طلیطلہ گیا اور لڑکی کی ماں کی بیماری کا بہانہ کر کے اس کو سبطہ واپس لایا ۔ اس کے بعد وہ موسیٰ بن نصیر سے ملا اور اس کو اکسا کر تسخیر اندلس پر آمادہ کیا۔ اس نے موسی کو اندلس کی اندرونی کمزوریاں بتائیں اور وعدہ کیا کہ وہ اور خود اندلس کے بہت سے لوگ اس مہم میں اسلامی فوج کا ساتھ دیں گے ۔ یہ واقعہ 90 ھ کا ہے ۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جولین نے اسلام قبول کر لیا تھا اور اپنا نام مسلم رکھا تھا۔

 اس کے بعد موسی بن نصیر نے خلیفہ ولید بن عبد الملک سے خط و کتابت کی، کئی خطوط کے بعد ولید نے لکھا:

’’مسلمانوں کو خوفناک سمندر میں نہ ڈالو۔ اگر تم پرامید ہوجب بھی ابتداء ً تھوڑی سی فوج بھیج کر صحیح اندازہ کرو‘‘۔

 موسی نے رمضان 91ھ میں ایک شخص طریف کو، جس کی کنیت ابوزرعہ تھی پہلی مہم کے طور پر پانچ سو آدمیوں کے ساتھ اسپین روانہ کیا۔ جولین بھی ان کے ساتھ تھا۔ شمالی افریقہ کے ساحلی ملک مراکش اور اسپین کے درمیان صرف دس میل کا آبی فاصلہ ہے ۔ ان لوگوں نے چار کشتیوں کے ذریعہ اس کو عبور کیا اور دوسری طرف ساحل پر اتر گئے۔ یہ لوگ ساحلی علاقوں میں رہے اور وہاں کے حالات کا اندازہ کر کے دوبارہ واپس آگئے۔

اس کے بعد اگلے سال رمضان 92 ھ میں طارق بن زیاد کی سرکردگی میں سات ہزار کا لشکر تیا ر کیا گیا۔ دس میل کی آبنائے کو پار کر کے جب وہ لوگ اسپین کے ساحل پر اترے تو کہا جاتا ہے کہ طارق نے اپنی تمام کشتیاں جلا دیں ۔ مگر کشتیاں جلانے کا واقعہ بعد کا اضافہ شدہ افسانہ معلوم ہوتا ہے۔ اس زمانہ میں، اور آج بھی، فاتح کی داستانوں میں اس قسم کے اضافے عام رہے ہیں۔ ہمارے اس خیال کے لیے ایک قرینہ یہ ہے کہ تاریخ اندلس کی بعض قدیم کتابوں ، مثلاً اخبار ’’مجموعہ فی فتح الاندلس‘‘ میں یہ واقعہ سرے سے مذکور نہیں ہے۔

بتایا گیا ہے کہ سمندر کو پار کر کے جب طارق بن زیاد اسپین کے ساحل پر اترے تو انھوں نے اپنے فوجیوں کو للکارا :

اَيُّهَا النَّاسُ! الْعَدُوُّ اَمَامَكُمْ وَالْبَحْرُ وَرَاءَكُمْ وَلَيْسَ لَكُمْ وَاللهِ اِلَّا الْجَلْدُ وَالصَّبْرُ

اے لوگو دشمن تمھارے سامنے ہے اور سمندر تمھارے پیچھے ہے، تمھارے لیے خدا کی قسم اس کے سوا کوئی راہ نہیں کہ صبر کرو اور جم کر مقابلہ کرو۔

سپہ سالار کے یہ جو شیلے الفاظ سن کر لشکر ی چیخ اٹھے:

أَنا وَرَاءَكَ يا طارِقُ        طارق ہم سب تمھارے ساتھ ہیں ۔

تمام تاریخوں کے متفقہ بیان کے مطابق مخالف فوجوں سے مقابلہ ساحل پر اترتے ہی فوراً پیش نہیں آیا تھا۔ قیاس یہ ہے کہ یہ تقریر بعد کو اس وقت کی گئی ہے جب کہ عملاً مقابلہ پیش آیا ہے۔ اور فتح اندلس کے بعد جب تقریر کے الفاظ ’’سمندر تمھارے پیچھے ہے‘‘ لوگوں میں عام ہوئے تو قصہ گویوں نے اس میں اپنی طرف سے یہ اضافہ کر دیا کہ یہ تقریرکشتیوں کو جلانے کے بعد کی گئی تھی ۔ شاید ان کے نزدیک سمندر کے پیچھے ہونے کے لیے ضروری تھا کہ سمند را ور فوجیوں کے درمیان سے کشتیوں کو ہٹایا جا چکا ہو!

وائرلیس کے دور سے ایک ہزار سال پہلے سمندر پار کے ملک میں اترنے والا ایک کمانڈر اس حقیقت سے بے خبرنہیں رہ سکتا تھا کہ اسپین کے ساحل پر اترنے کے بعدیہی کشتیاں وہ واحد ذریعہ ہیں جن سے وہ اپنے مرکز سے مربوط رہ سکتا ہے۔ طارق اور موسیٰ بن نصیر (گور نر افریقہ) کے درمیان پیغام رسانی کا دوسرا کوئی ذریعہ اس زمانہ میں ممکن نہ تھا۔ یہ صرف قیاس نہیں ہے بلکہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ ساحل اسپین پر اتر نے اور مقابلہ پیش آنے کے درمیان تقریباًدو ماہ تک یہی کشتیاں تھیں جو دونوں کے درمیان باہمی ربط اور پیغام رسانی کا ذریعہ بنی رہیں ۔

طارق جس مقام پر اترے اس کا نام قلۃ الاسد ( Lion's Rock )تھا۔ بعد کو وہ جبل الطارق (جبرالٹر) کے نام سے مشہور ہوا ۔ طارق اسپین کے جس ساحل پر اترے وہ اس وقت ایک غیر آباد علاقہ تھا۔ وہاں ایک دشوار گزار پہاڑی کو جائے پناہ قرار دے کر وہ لوگ اکٹھا ہو گئے ، تاکہ حالات کو سمجھ کر آئندہ کا نقشہ بنا سکیں۔ اسپین کا بادشاہ رذریق ان دنوں بنبلونہ (Pamplona) کی ایک جنگ میں مشغول تھا، جہاں اس کے خلاف بغاوت ہو گئی تھی۔ اس کو جب طارق کے اسپین میں داخلہ کی خبر ملی تو اس نے حکم دیا کہ ایک لاکھ فوج جمع کی جائے تاکہ مداخلت کاروں کو باہر نکالا جاسکے ۔ طارق کا جاسوسی نظام بھی کام کر رہا تھا ۔ انھیں جب ر ذریق کی تیاریوں کی خبر ملی تو انھوں نے فوراً اپنا ایک قاصد موسی بن نصیر (گورنرافریقہ) کے یہاں روانہ کیا اور مزید کمک کی درخواست کی ۔ ادھر موسیٰ بھی خاموش نہ تھے۔ بلکہ مسلسل تیاریوں میں مشغول تھے ۔ چنانچہ انھوں نے کشتیوں کے ذریعہ پانچ ہزار مزید سپاہی بھیج دیے۔ اس طرح طارق کے لشکر کی تعداد بارہ ہزار ہوگئی ۔

طارق نے پیغام رسانی کا یہ تمام کام کشتیوں کے ذریعہ کیا۔ کوئی دوسرا ذریعہ اس زمانہ میں ممکن نہ تھا۔ اور پھر یہ کشتیاں ہی تھیں جنھوں نے پانچ ہزار فوجیوں کی دوسری قسط کو اسپین کے ساحل پر اتارا ، جس کے بعد طارق اس قابل ہو سکے کہ وہ اسپین پر حملہ کر سکیں۔ طارق اگر اسپین کے ساحل پر اترتے ہی اپنی کشتیوں کو جلا دیتے تو یہ پیغام رسانی ممکن نہ ہوتی، اور نہ مقابلہ کے وقت مزید کمک پہنچ سکتی ۔

اس معرکہ میں جو لین بھی پوری طرح طارق کے ساتھ تھا۔ اس نے شاہ رذریق کے خلاف مقامی باشندوں کی ناراضگی سے فائدہ اٹھایا اور اپنے تعلقات کی بنیاد پر اسپینی شہریوں کی ایک جماعت طارق کی خدمت میں حاضر کر دی ۔ ان لوگوں نے دشمن کی خبریں فراہم کرنے کا کام اپنے ذمہ لیا اور فوجی اعتبار سے کمز ور مقامات کی اطلاع مسلمانوں کو دی اور مسلمانوں کی رہبری کرتےر ہے۔ یہ واقعہ بھی مسلمانوں کے لیے ایک نعمت ثابت ہوا کہ تین سال (88-90) تک اندلس میں سخت قحط پڑا تھا، اس کی وجہ سے اتنے لوگ مرے کہ کہا جاتا ہے کہ اندلس کی آبادی آدھی رہ گئی ۔

مزید یہ کہ ر ذریق کی ایک لاکھ فوج میں ایک عنصر ایسا بھی تھا جو سابق شاہ اسپین سے عقیدت رکھنے کی وجہ سے باغی رذریق کا اندر اندر مخالف تھا۔ ان کے فوجی سرداروں میں شسرت اور ابتہ بھی تھے جو سابق شاہ کے بیٹے تھے۔ انھوں نے اپنی خفیہ میٹنگ کی اور کہا :

’’ر زریق خبیث ہمارے ملک پر خواہ مخواہ مسلط ہو گیا ہے ، حالاں کہ شاہی خاندان سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ تو ہمارے یہاں کے کمینوں میں سے ہے۔ رہےمسلمان، وہ تو صرف وقتی لوٹ مار کے لیے آئے ہیں۔ اس کے بعد اپنے وطن کو واپس چلے جائیں گے۔ اس لیے مقابلہ کے وقت اس خبیث کو زک دینے کے لیے ہم کو خود شکست کھا جانا چاہیے‘‘۔

رذریق کی فوج کے ایک حصہ نے نہایت سخت جنگ کی۔ مگر غیر مطمئن فوجیوں نے جنگ میں زور نہیں دکھایا ۔ بالآخر شکست ہوئی اور رزریق میدان جنگ سے بھاگ کھڑا ہوا۔ اس کے بعد وہ نہ زندہ مل سکا، نہ مردہ ۔ کہا جاتا ہے کہ بھاگنے کے دوران وہ ایک دلدل میں پھنس کر مر گیا ۔

اسپین کے بعض علاقوں کو طارق نے فتح کیا۔ بعض کو مغیث رومی نے ، بعض کو موسی بن نصیر نے ، جو بعد کو 18 ہزار فوج کے ساتھ اندلس میں داخل ہوئے تھے ۔ رعایا کی اپنے بادشاہ اور سرداروں سے بیزاری کی وجہ سے ان کو خوداسپینیوں میں مدد گار اور جاسوس ملتے چلے گئے۔ تمام مورخین لکھتے ہیں کہ غیر مسلم جاسوسوں نے اسپین کی ابتدائی فتوحات میں بہت مدد کی تھی ۔

خدا کی یہ دنیا کوئی طلسماتی کارخانہ نہیں ہے ۔ یہ نہایت محکم اصولوں پر قائم ہے ۔ یہاں کوئی واقعہ ان قوانین سے مطابقت کرنے کے نتیجہ ہی میں ظاہر ہوتا ہے جن پر دنیا کا نظام چل رہا ہے۔ جو شخص یا قوم اپنے لیے کوئی حقیقی مستقبل دیکھنا چاہے، اس کے لیے لازم ہے کہ وہ فطرت کی اصل بنیادوں پر اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے ۔ اگر اس نے ایسا نہ کیا تو خدا کی اس دنیا میں اس کا کوئی انجام نہیں۔ خواہ اپنے طور پر وہ اپنے بارے میں کتنا ہی زیادہ خوش فہمی میں مبتلا ر ہے ۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom

Ask, Learn, Grow

Your spiritual companion