تاریخ کا رخ موڑ دیا گیا

قدیم عرب کے شمال اور جنوب کے زرخیز حصے اس زمانہ کی دو بڑی شہنشا ہیتوں، ساسانی سلطنت اور اور بازنطینی سلطنت کے قبضہ میں تھے۔ شمال میں عمارت غساسنہ اور امارت بُصری تھی۔ یہ دونوں بازنطینی سلطنت (رومیوں) کے ماتحت تھیں اور یہاں ان کی طرف سے عرب سردار حکومت کرتے تھے۔ رومی اثرات کے تحت یہاں کی اکثر آبادی صحیح مذہب اختیار کر چکی تھی ، عرب کے جنوب میں امارت بحرین، امارت عمان، امارت یمامہ تھی۔ یہ ریاستیں ساسانی سلطنت (ایرانیوں)کے ماتحت تھیں اور ان کے اثر سے یہاں کے باشندوں میں مجوسیت پھیلی ہوئی تھی۔

6ھ میں جب حدیبیہ میں قریش سے دس سال کا نا جنگ معاہدہ ہوا اور حالات پر امن ہو گئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے اطراف میں واقع سلطنتوں کو دعوتی مراسلے بھیجنے شروع کیے۔ اس سلسلے میں ایک مراسلہ حارث بن ابی شمرغسانی کے نام تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سفیر شجاع بن وہب آپ کا مراسلہ لے کر اس کے پاس گئے۔ اس مراسلہ میں یہ بھی تھا کہ اللہ پر ایمان لاؤ تمہاری حکومت باقی رہے گی (يَبْقَى لَكَ ‌مُلْكُكَ)۔ اس نے مکتوب نبویؐ میں یہ جملہ پڑھا تو اس کو غصہ آگیا۔ اس نے خط کو زمین پر پھینک دیا اور کہا میری حکومت مجھ سے کون چھین سکتا ہے (‌مَنْ ‌يَنْزِعُ مِنِّي مُلْكِي)۔ (تاریخ الطبری ، جلد 6، صفحہ 652)

حاکم بُصری شرجیل بن عمر و غسانی نے اس سے بھی زیادہ بیہودہ سلوک کیا۔ اس رومی گورنر کے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سفیر حارث بن عمیر از دی آپ کا خط لے کر گئے تھے۔ وہ سر حد شام پر قصبہ موتہ میں داخل ہوئے تھے کہ حاکم بصری کے اشارہ پر ایک اعرابی نے آپ کے سفیر کو قتل کر دیا۔

بین الاقوامی روایات کے مطابق یہ واقعہ ایک ملک پر دوسرے ملک کی جارحیت کے ہم معنی تھا۔ مختلف قرائن یہ بھی ظاہر کر رہے تھے کہ شام کی فوجیں پیش قدمی کرکے مدینہ میں داخل ہو جانا چاہتی ہیں۔ رومی شہنشاہیت اس کو برداشت نہیں کر سکتی تھی کہ عرب میں کوئی آزاد حکومت قائم ہوا ور ترقی کرے۔

حارث بن عمیر کے قتل کی خبر مدینہ پہنچی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا فوجی جواب دینا ضروری سمجھا ۔ آپ نے حکم دیا کہ مسلمان اپنے اپنے ہتھیار لے کر موضع حرق میں جمع ہو جائیں، چنانچہ تین ہزار کی تعداد میں اسلامی لشکر اکٹھا ہوگیا۔ آپ نے اس لشکر پر زید بن حارثہ کو سردار مقر رکیا اور ضروری نصیحتیں کرنے کے بعد ان کو شام کی طرف روانہ کیا۔

اسلامی لشکر نے معان (شام) پہنچ کر قیام کیا۔ دوسری طرف حاکم بُصریٰ بھی جنگ کے لیے تیار ہوگیا۔ اس کی حوصلہ افزائی اس واقعہ سے بھی ہوئی کہ اتفاق سے ہر قل انھیں دنوں مآب(بلقاء) میں آیا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ ایک لاکھ مسلح فوج تھی۔ نیز اس علاقے کے عیسائی قبائل لخم، جذام، قین، بہراء، ابلّی بھی مسیحی حمیت کے جوش میں اٹھ کھڑے ہوئے اور بنی بلی کے سردار مالک بن زافلہ کی قیادت میں لڑنے کے لیے تیار ہو گئے۔ اس طرح شامی محاذ پر ایک لاکھ سے بھی زیادہ کا لشکر جمع ہو گیا جبکہ مسلمانوں کی تعداد صرف تین ہزار تھی ۔

یہ جنگ جو جمادی الاولی 8ھ میں ہوئی، اس میں زید بن حارثہ دشمنوں کے ہاتھ سے مارے گئے۔ اس کے بعدجعفر بن ابی طالب اور عبداللہ بن رواحہ بھی قیادت کرتے ہوئے شہید ہوگئے ۔ مسلمانوں کا جھنڈا گر جانے سے انتشار کی کیفیت پیدا ہوگئی ۔ اس وقت لشکر اسلام کے ایک سپاہی ثابت بن اقرم نے بڑھ کر جھنڈا اٹھالیا اور بلند آواز سے کہا ’’مسلمانوں !کسی ایک شخص کو امیر بنانے پر اتفاق کرلو ‘‘۔

مسلمان فوجیوں کی طرف سے آواز آئی رَضِينَا بِكَ (ہم تمہاری سرداری پر راضی ہیں ) ثابت ابن اقرم نے جواب ديا : مَا ‌أَنَا ‌بِفَاعِلٍ۔ فَاصْطَلَحُوا ‌عَلَى ‌خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ (الکامل فی التاریخ، جلد2،صفحہ 114)۔ یعنی،میں یہ کام نہ کر سکوں گا، تو ان لوگوں نے خالد بن ولید کو اپنا سردار بنا لیا۔ یہ سنتے ہی خالد بن ولید نے آگے بڑھ کر جھنڈا اپنے ہاتھ میں لے لیا اور رومی لشکر پر حملہ کر کے اس کو پیچھے دھکیل دیا۔ اس جنگ میں دو ہزار مسلمان شہید ہوئے ۔

تاہم یہ جنگ فیصلہ کن طور پرختم نہیں ہوئی تھی ۔ ہروقت یہ اندیشہ تھا کہ رومیوں کی مدد سے غساسنہ مدینہ پر چڑھ آئیں، اور اس نومولود ریاست کو ختم کرنے کی کوشش کریں ۔ ذی الحجہ5ھ میں بنو قریظہ کے خاتمہ کے بعد جب مدینہ میں بعض معاشی مسائل پیدا ہوئے اور ازواج رسول نے اضافہ نفقہ کا مطالبہ کیا تو آپ کو بہت رنج ہوا اور آپ نے ایک مہینہ تک گھر کے اندر نہ آنے کی قسم کھالی ۔ اس سلسلے میں تاریخ میں آتاہے کہ جب ایک صحابی عمر فاروقؓسے ملے اور ان سے کہا : ’’کچھ سناآپ نے ‘‘  توعمر فاروق کی زبان سے فورا نکلا: ’’کیا غساسنہ آگئے ‘‘۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں عیسائیوں کی طرف سے مدینے کے لیے کتنا خطرہ لاحق تھا۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مسئلہ کا شدید احساس تھا۔ چنانچہ اپنی عمر کے آخری ایام میں جن امور کے لیے آپ نے شدت سے اہتمام کیا ، ان میں غساسنہ یا بالفاظ دیگر رومیوں سے مقابلہ کے لیے فوج کی تیاری بھی تھی۔ آپ نے اس مقصد کے لیے ایک فوج ترتیب دی۔ اس فوج میں اگر چہ ابو بکر وعمر جیسے بڑے بڑے اصحاب تھے مگر آپ نے انتہائی دانش مندی سے کام لیتے ہوئے اس لشکر کا سردار اسامہ بن زیدکو مقرر کیا ۔ اسامہ نہ صرف ایک بہادر نوجوان تھے بلکہ ان کے دل میں رومیوں سے انتقام کا شدید جذ بہ بھی موجزن تھا۔ کیونکہ موتہ کی جنگ میں رومیوں نے ان کے والد زید بن حارثہ کو قتل کیا تھا۔

تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں لشکر روانہ نہ ہوسکا۔ کیونکہ عین وقت پر آپ کے اوپر مرض الموت کا غلبہ ہو گیا۔ آپ کی وفات کے بعد صدیق اکبرنے خلیفہ اول کی حیثیت سے اس لشکر کو شام کی طرف روانہ کیا۔

یہ روانگی بھی اسلامی تاریخ کا حیرت انگیز واقعہ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہر طرف سے ارتداد کی خبریں آنے لگیں۔ لوگوں نے خلیفہ اول کو مشورہ دیا کہ اب جبکہ مرکز اسلام خطرہ میں پڑ گیا ہے اور مدینہ پر حملہ کی تیاریاں ہو رہی ہیں اس لشکر کی روانگی کو ملتوی کر دیا جائے، مگر صدیق اکبر کا یہ جواب لوگوں کو خاموش کرنے کے لیے کافی تھا۔ ’’اگر مجھ کو یقین ہو کہ لشکر کی روانگی کے بعد مجھ کو مدینہ میں کوئی درندہ تنہا پاکر پھاڑ ڈالے گا، تب بھی میں اس لشکر کی روانگی کو ملتوی نہیں کر سکتا جس کو خود رسول اللہ نے ترتیب دیا ہو‘‘ (البدایۃ و النہایۃ لابن کثیر، جلد 9، صفحہ 421)۔ صدیق اکبر کی یہ ایمانی جرأت کام آئی۔ اسامہ کا لشکر نہ صرف رومیوں کے مقابلہ میں کامیاب ہوا جبکہ رومی شہنشاہیت کے مقابلہ میں مسلمانوں کی فتح نے مرتدین کی بھی حوصلہ شکنی کی اورنسبتاً آسانی کے ساتھ وہ مغلوب کر لیے گئے۔

اس واقعہ میں ایک اور بہت بڑی حکمت شامل تھی ، عرب قبائل ہمیشہ سے آپس میں لڑتے چلے آرہے تھے۔ شدید اندیشہ تھا کہ اپنی قوتوں کے اظہار کا دوسرا میدان نہ پا کر وہ دوبارہ آپس میں لڑنے لگیں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے وقت عرب طاقت کو رومی شہنشاہیت سے متصادم کر کے اس کا جواب فراہم کر دیا ۔ اب عربوں کی جنگجو فطرت کے لیے ایک بہترین میدان مل چکا تھا۔ چنانچہ تاریخ نے دیکھا کہ وہ لوگ جواپنے ہم وطنوں کی قتل و غارت گری کے سوا کچھ نہ جانتے تھے انھوں نے ایک صدی سے بھی کم عرصہ میں ایک پوری دنیا کو فتح کر ڈالا ۔

جان بیگٹ گلب پاشا نے اپنی کتاب دی لائف اینڈ ٹائمز آف محمد میں اسی پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’عرب نا معلوم زمانے سے ایک دوسرے کے ساتھ جنگ و جدل میں زندگی بسر کرنے کے عادی رہے تھے۔ یہ جنگ و جدل کسی خاص سبب کا نتیجہ نہیں ہوتی تھی بلکہ یہ ان کی طرز زندگی میں داخل تھی ۔ اب جب کہ وہ بحیثیت مسلمان ایک دوسرے سے لڑنے بھڑنے سے روک دیےگئے تھے یہ کیسے ممکن تھا کہ فوجی ذہنیت کے قبائلی آدمیوں کو ہمیشہ کے لیے پر امن زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا جائے ؟ پیغمبر اسلامؐ نے خود اس مہم کو روانہ کر کے جس نے موتہ میں شکست کھائی تھی اس سوال کا حل پیش کر دیا تھا۔

634ء کے سرما میں تین عرب کالموں نے فلسطین اور شام پر حملہ کردیا۔ اسی اثنا میں مشرقی عرب کے قبیلوں نے جو حیرہ کی لخمی ریاست کی ضبطی کے بعد سے ایران کے دشمن بنے ہوئے تھے ، فرات کی طرف پیش قدمی کر کے حیرہ پر قبضہ کر لیا۔ 26 اگست کو بازنطینی ( رومی) قوت نے یرموک کے میدان میں مکمل شکست کھائی اور شام کا تمام علاقہ طبریہ تک عربوں کے قبضہ میں آگیا۔ فروری 637ء میں ایرانی فوج قادسیہ کے مقام پر جو حیرہ سے چند میل کے فاصلہ پر تھی مکمل طور پر تباہ کر دی گئی اور قدیم عراق بشمول ایرانی دارالسلطنت مدائن جو دجلہ کے جنوب میں موجودہ بغداد کے قریب واقع تھا ، عربوں کے زیرتسلط آگیا ۔ 640ء میں مصرپر حملہ ہوا اور ایک بار پھر بازنطینی حکومت شکست یاب ہوئی اور ستمبر 642 ءتک پورے مصر پرعرب کا قبضہ مکمل ہو گیا۔ اسی سال بچی کچھی ایرانی فوج نہاوند کے مقام پر تباہ کر دی گئی اور ایرانی سلطنت کا پورے طور پر خاتمہ ہو گیا‘‘۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد پہلے خلیفہ راشد رضی اللہ عنہ نے، انتہائی نازک حالات کے باد جود حضرت اسامہ کےلشکر کو رومیوں کی طرف بھیجا ۔ یہ مسلمانوں کی آئندہ نسلوں کے لیے ایک عظیم سبق تھا۔ مسلمانوں کے لیے طاقت آزمائی کا میدان خارجی دنیا ہے، نہ کہ داخلی دنیا۔ مگر عجیب بات ہے کہ یہ اہم ترین سبق بعد کے زمانہ میں مسلمان بھول گئے ۔ خاص طور پر موجودہ زمانہ میں تو یہ حال ہے کہ مسلم ممالک دوگروہوں (ترقی پسند اور قدامت پسند) میں بٹ کر ایک دوسرے کے حریف بنے ہوئے ہیں۔ ان کی مسلح فوجیں اپنے ہی ملکوں کو ’’فتح‘‘ کرنے میں مشغول ہیں، مسلم جماعتیں خود اپنے ملکوں کی حکومتوں سے نبرد آزما ہیں ۔ باہر کے حریفوں سے مقابلہ کے لیے ہر ایک عاجز ہے اور اپنے بھائیوں سے لڑنے کے لیے ہر ایک بہادر بنا ہوا ہے۔ ایسی حالت میں اگر اسلام کی توسیع واشاعت کا کام رک جائے تو اس پر تعجب نہ کرنا چاہیے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom

Ask, Learn, Grow

Your spiritual companion