خاندانی جھگڑا تاریخ پر چھا گیا

جنگ قادسیہ (14ھ ) میں جب دونوں فوجیں ایک دوسرے کے سامنے کھڑی تھیں۔ ایرانی لشکر سے ان کا ایک مشہور پہلوان گھوڑے پر سوار ہو کر نکلا ۔ اسلامی لشکر سے عاصم بن عمر واس کے مقابلہ کے لیے باہر آئے ۔ ابھی ایک دو وار ہی ہوئے تھے کہ ایرانی شہ سوار بھاگا ۔ عاصم بن عمرو نے اس کا پیچھا کیا۔ وہ اپنے لشکر کی صف اول کے قریب تک جا چکا تھا کہ عاصم بن عمرو پہنچ گئے۔ انھوں نے اس کے گھوڑے کی دم کو پکڑ کر اس کو روک لیا۔ سوار کو اس کے اوپر سے اٹھایا اور زبردستی اپنے گھوڑے پر اپنے آگے بٹھا لیا اور اس کے بعد گھوڑا دوڑاتے ہوئے اپنے لشکر میں آگئے ۔

 اس قسم کے بہادر لوگ صفین و جمل (36ھ) کی باہمی لڑائیوں میں 90 ہزار کی تعداد میں کٹ گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر خلافت راشدہ کے آخر میں آپس کی لڑائیاں شروع نہ ہوگئی ہو تیں تو طاقت و قوت کا بے پناہ سیلاب جو عرب سے اٹھا تھا، ایشیا، افریقہ اور یورپ کے تمام علاقوں کو توحید کا علاقہ بنا دیتا۔ صرف آسٹریلیا اور امریکہ ہی ممکن طور پر اس سے مستثنیٰ رہ جاتے جو وسیع سمندروں کے دوسری طرف قدیم زمانہ میں ناقابل عبور تھے ۔

وہ کیا چیز تھی جس نے اس سیلاب کے رُخ کو باہر کے بجائے خود اپنی طرف موڑ دیا۔ یہ کہنا بڑی حد تک صحیح ہو گا کہ یہ ایک خاندانی جھگڑا تھا جس نے بڑھ کر قومی جھگڑے کی شکل اختیار کرلی اور بالآخر ساری اسلامی تاریخ پر چھا گیا۔

207ء میں سیل عرم سے یمن میں عام تباہی آئی ۔ یہاں کے باشندوں نے اپنے وطن کو چھوڑ کر دوسرے علاقوں کا رخ کیا۔ ان میں سے قبیلہ خزاعہ مکہ آیا اور حضرت اسمعیل (1937-2074 ق م ) کی اولاد کو بے دخل کر کے مکہ پر قابض ہو گیا ۔ اس کے بعد مقامی باشندے اِدھراُد ھر منتشر ہوگئے۔ تقریباً ڈھائی سو سال تک قبیلہ خزاعہ مکہ پر قابض رہا۔قصی بن کلاب پہلا شخص ہے جس نے قریش کی بکھری ہوئی طاقت کو دوبارہ منظم کیا اور 440 ءمیں لڑ بھڑ کر خزاعہ سےمکہ کی سرداری چھین لی۔

قصی نے خانہ کعبہ کی مرمت کی ۔ رفادہ، سقایہ، حجابہ اور قیادہ کے عہدے قائم کیے ۔ قومی نشان کے طور پر لواء بنایا ۔ قومی اسمبلی قائم کی جس کو دارالندوہ کہا جاتا تھا۔ اس کے بعد قدرتی طور پر قصی کو تمام قبائل قریش کی سرداری حاصل ہوگئی ۔

قصی کے بعد قریش کی سرداری ان کی اولاد میں جاری رہی ۔ تاہم تیسری نسل میں قصی کے خاندان میں سرداری پر جھگڑا شروع ہو گیا۔ قصی کا پوتا ہاشم نہایت لائق اور شان دار شخصیت کا آدمی تھا۔ اس نے تجارت کر کے نہ صرف اپنے مال میں اضافہ کیا بلکہ قریش کو بھی بین الاقوامی تاجر کے مقام پر پہنچا دیا۔ اس نے اپنے بھائیوں کی مدد سے شاہ غسان، شاه حبش، امراء یمن اور عراق وفارس کی حکومتوں سے تجارتی معاہدے کیے اور خصوصی مراعات حاصل کیں۔ وہ قیصر روم سے یہ پروانہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا کہ قریش کا تجارتی مال شام و فلسطین میں بغیر کسی ٹیکس کے داخل ہوتا رہے گا ۔ اب قریش کے تجارتی قافلے گرمی کے زمانہ میں شام کی طرف جانے لگے، کیونکہ وہ ٹھنڈا اور شاداب علاقہ تھا اور جاڑے میں یمن کی طرف سفر کرنے لگے جو کہ گرم علاقہ ہے ۔ (قریش106:2) ہاشم کے حسن تدبر سے قریش کی اقتصادیات نے بہت تیزی سے ترقی کی اور نتیجتاً سارے قبیلہ میں ان کی عظمت قائم ہو گئی ۔

ہاشم کی اس عزت و ترقی نے خاندان کی دوسری شاخ کے اندر ان کے خلاف منافست پیدا کر دی۔ ہاشم کے بھائی عبد شمس اور ان سے زیادہ ان کے بیٹے امیہ کو ہاشم کی سرداری ناپسند تھی ۔ امیہ نے اس کو اپنے چچاسے چھیننے کی بہت کوشش کی، مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ حتیٰ کہ اسی رنج و غم میں وہ ایک بار مکہ چھوڑ کر شام چلے گئے اور دس سال تک وہاں پڑے رہے۔

ہاشم کے بعد دوبارہ ان کے بیٹے عبد المطلب اپنی وجاہت و صلاحیت کی بنا پر قریش کے سردار ہوگئے اور امیہ کی اولاد اس سے محروم رہی۔ اس طرح سرداری قصی کی ہاشمی شاخ میں چلتی رہی اور اس کی اموی شاخ کو حاصل نہ ہوسکی۔

8ھ میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار اصحاب کے ساتھ فتح مکہ کے لیے روانہ ہوئے تو آپ نے ایک موقع پر اپنے چچا عباس سے کہا کہ ابوسفیان کو لے کر راستہ میں کسی گھاٹی پر بیٹھ جائیں تا کہ ابو سفیان ، جو بدر کے بعد قریش کے سب سے بڑے لیڈر تھے، اسلامی فوج کو گزرتے ہوئے دیکھیں ۔ حضرت عباس ؓنے ایسا ہی کیا۔ جب وہ ابو سفیان کو لے کر ایک تنگ پہاڑی راستہ کی طرف گئے اور وہاں بیٹھنے کے لیے کہا تو ابوسفیان کو اندیشہ ہوا۔ان کی زبان سے بے ساختہ نکلا :

غَدْرًا يَا بَنِي هَاشِمَ        بنی ہاشم ! کیا غداری کا ارادہ ہے۔

اس کے بعد جب دس ہزار کی تعداد میں مسلح فوج سامنے سے گزر ی، تو ابو سفیان پر ہیبت طاری ہوگئی۔ انھوں نے کہا :

‌لَقَدْ ‌أَصْبَحَ ‌مُلْكُ ‌ابْنِ ‌أَخِيكَ الْغَدَاةَ عَظِيمًا (سیرت ابن ہشام، جلد 2، صفحہ 404) ۔یعنی، تمھارے بھتیجے کی حکومت آج بہت عظیم ہو گئی۔

خاندان عبد مناف کی ان دو شاخوں میں یہ چپقلش اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ زمانۂ جاہلیت میں یمن کا ایک شخص کچھ لے کر مکہ آیا ایک شخص نے اس کا سودا خریدنے کے لیے لیا، اور پھر اس کو نہ قیمت دی اور نہ سود اوا پس کیا وہ ایک ٹیلہ پر چڑھ کر چیخنے لگا۔ یہ واقعہ عرب آن (honour)کے انتہائی خلاف تھا، چنانچہ بنو ہاشم کے کچھ لوگ اس کی مدد کے لیے اٹھے۔ انھوں نے آپس میں عہد کیا کہ مکہ میں اگر کسی مسافراور اجنبی کو ستایا گیا تو وہ اس کی پوری حمایت کریں گے۔ بنو ہاشم کے ساتھ اس معاہدہ میں بنواسد، بنو زہرہ، بنو تیم بھی شریک ہو گئے ۔ مگر عبد شمس کا خاندان بنو ہاشم کے خلاف اپنی جلن کی وجہ سے معاہدہ میں شریک نہیں ہوا۔

 اس طرح کے واقعات جو تاریخ کی کتابوں میں ملتے ہیں، وہ بنوامیہ اور بنو ہاشم کے درمیان اسی خاندانی کشمکش کے مظاہر ہیں۔

قصی بن کلاب کے خاندان کی دو شاخوں میں سرداری کی منافست جاری رہی، اکثر چھوٹے چھوٹے جھگڑے بھی ہوتے رہے۔ یہاں تک کہ ہاشم کے خاندان میں پیغمبر پیدا ہو گئے۔ اب اموی خاندان کی جلن اپنے شباب پر پہنچ گئی۔پہلے انھوں نے نبوت کی مخالفت کر کے بنی ہاشم کو زیر کرنا چاہا۔ پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام مخالفین کو شکست دے کر مکہ پر قبضہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو ظاہر ہو گیا کہ نبوت کی مخالفت کرنا فضول ہے۔ ابو سفیان، ان کے لڑکے معاویہ اور دوسرے امویوں نے اسلام قبول کر لیا۔ تاہم یہ احساس لوگوں کے اندرباقی رہا کہ نبوت کے بعد سیاسی اقتدار بنی ہاشم کے ہاتھ میں نہ جانے دیں گے۔

حضرت عمراپنے بعد علی بن ابی طالب کو خلافت کے لیے موزوں ترین شخص سمجھتے تھے۔ مگر غالباً اسی اندیشہ کی بنا پر وہ آنجناب کو نامزد نہ کر سکے ۔ حضرت عثمان جو خاندان امیہ کی ایک شاخ سے تعلق رکھتے تھے، ان کی شہادت کے بعد جب حضرت علی کو خلیفہ بنایا گیا تو بنو امیہ کے لیے یہ بالکل نا قابل برداشت تھا۔ حضرت عثمان کی شہادت کے بعد قصاص کے مسئلہ نے ان کو فوری طور پر ایک کامیاب سیاسی حربہ دے دیا ۔ اس جذباتی نعرہ پر انھوں نے مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد کو اپنے گرد اکٹھا کر لیا۔ اگر چہ وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے کہ خلیفہ چہارم کو منصب خلافت سے ہٹا دیں۔ تاہم معاویہ بن ابی سفیان بن حرب بن امیہ نے اپنی گورنری سے فائدہ اٹھا کر مملکت اسلامی کے نصف سے زیادہ حصہ کو سیاسی طور پر کاٹ لیا۔ حضرت عثمان کی شہادت کے نام پر عوام میں ایسی آگ بھڑ کائی کہ کچھ لوگوں نے مجنو نانہ طور پر حضرت علی کو قتل کر دیا۔ جنگ جمل اور جنگ صفین جس میں 90 ہزار مسلمان کٹ گئے اور دس سال کے لیے اسلام کی توسیع کا سیلاب رک گیا، وہ در اصل امویوں اور ہاشمیوں کی اسی خاندانی لڑائی کا شاخسانہ تھا جس نے پوری ملت مسلمہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

 حسن بن علی اس راز کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہےکہ وہ امیر معاویہ کے حق میں خلافت سے دست بردار ہوگئے۔انھوں نے اپنے چھوٹے بھائی حسین بن علی کو بھی مشورہ دیا کہ خلافت کے معاملہ سے بالکل الگ ہو جائیں۔ کیونکہ لوگ اس کے لیے تیار نہیں ہیں کہ نبوت اور خلافت دونوں کو علوی خاندان میں جمع ہونا برداشت کر لیں۔ مگر حضرت حسین کی رائے یہ تھی کہ حق کے لیے جان دے دینا باطل کے آگے سرجھکانے سے زیادہ بہتر ہے ۔ انھوں نے خلافت کی راہ میں اپنی جان دے دی۔ یہ واقعہ61ھ کا ہے۔

اس کے بعد اموی حکومت قائم ہوگئی۔ مگر بنو امیہ کو بنو ہاشم کے خلاف جو بغض وعناد تھا، وہ ان کے انتظام ملکی میں ظاہر ہوتا رہا حتیٰ کہ ان کا ذہن یہ بن گیا کہ ہاشم کی اولاد کا خاتمہ کرد و، تا کہ مستقبل میں کوئی خلافت کا دعوے دار باقی نہ رہے۔ ان وجوہ سے وہ فضا پیدا نہ ہوسکی، جس میں بنو ہاشم اپنی سیاسی حق تلفی کو بھول جاتے۔ اندر اندر ان کے دل میں مخالفت کی آگ سلگتی رہی ۔ یہاں تک کہ 132 ھ کے خاتمہ نے یہ دوسرا انقلاب دیکھا کہ بنو عباس نے ایرانیوں کی مدد سے بنوامیہ کا خاتمہ کر دیا۔

 بنوامیہ کا فتنہ انتہائی شدید تھا۔ مگر وہ تمام تر سیاسی تھا ۔ اس لیے سیاست کے ساتھ اس کا خاتمہ ہو گیا۔ مگر بنو ہاشم سے یہ جوابی غلطی ہوئی کہ خلا فت کو اپنا حق ثابت کرنے کے لیے انھوں نے خلافت کو عقیدہ کا مسئلہ بنا دیا۔ اس غلطی نے ایک سیاسی قضیہ کو مذہبی حیثیت دے دی اور اس امکان کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا کہ دوسرے سیاسی جھگڑوں کی طرح یہ جھگڑا صرف وقتی نقصان پہنچائے اور بعد کی نسلوں کے لیے محض تاریخ کا موضوع بن کر رہ جائے ۔

 سیاست کو مذہب بنانے کی اس غلطی نے اسلام کو جو نقصانات پہنچائے ان کو شمار نہیں کیا جا سکتا۔ مثال کے طور پر وضع حدیث کا فتنہ سب سے پہلے اسی محرک کے تحت شروع ہوا ۔ بے شمار حدیثیں دونوں طرف سے گھڑی گئیں۔

ایک طرف بنو ہاشم نے حضرت علی کی فضیلت میں یہ حدیث نکالی :

أَنَا مَدِينَةُ العِلْمِ وَعَلِيٌّ بَابُهَا (اللآلئ المصنوعة للسيوطي، جلد 1، صفحہ 302)۔ یعنی، میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔

دوسری طرف فریق ثانی نے ایک روایت گھڑی اور کہا کہ پوری حدیث در اصل اس طرح ہے :

أَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ وَأَبُو بَكْرٍ أَسَاسُهَا وَعُمَرُ حِيطَانُهَا وَعُثْمَانُ سَقْفُهَا وَعَلِيٌّ بَابُهَا (کشف الخفا، للعجلونی، جلد1، صفحہ232)۔ یعنی، میں علم کا شہر ہوں، ابو بکر اس کی بنیاد ہیں ، عمر اس کی دیوار ہیں، عثمان اس کی چھت ہیں، علی اس کا دروازہ ہیں۔

 اس قسم کی چیزوں سے اسلام کو جو عملی نقصان پہنچا، اس کی تلافی اب ممکن نہیں۔ تاہم یہ اللہ کا بہت بڑا فضل ہے کہ اس نے اپنی رحمت خاص سے قرآن کو محفوظ کر دیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ان جھگڑوں اور ان کے پیدا کردہ فتنوں میں دین حق گم ہو جاتا اور اللہ کے بندے قیامت تک کے لیے بے آمیز سچائی کو جاننے سے محروم ہو جاتے۔

 تاریخ کی تمام کامیابیاں باہمی اتفاق کا نتیجہ ہیں اور تاریخ کی تمام ناکامیاں باہمی اختلاف کا نتیجہ — انسان، خواہ ذاتی طور پر نیک اور مخلص کیوں نہ ہوں، ان میں ایک دوسرے سے شکایت پیدا ہونا بالکل ناگزیر ہے۔ کسی نہ کسی وجہ سے، حتیٰ کہ بعض اوقات بلا وجہ بھی، دو افراد یا دو گروہوں میں اختلاف پیدا ہو جاتا ہے۔ اس لیے اتحاد کی واحد صورت یہ ہے کہ اختلاف کو برداشت کیا جائے ۔ کیونکہ اختلاف سے خالی انسانی معاشرہ اس زمین پر ممکن ہی نہیں ۔ وہی لوگ کوئی بڑا کام کر سکتے ہیں جو ذاتی اعتبارات پر قومی اعتبارات کو ترجیح دے سکیں۔ جو اپنے آپ کو اتنا اوپر اٹھا چکے ہوں کہ اختلافی باتوں کو نظر انداز کر کے ملی اتحاد پر قائم رہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے کوئی رکاوٹ ، رکاوٹ نہیں بنتی۔ کسی دشمن کی سازش یا عداوت ان کو نقصان پہنچانے والی ثابت نہیں ہوتی ۔ ان کا ہر حال میں متحد رہنا ایک ایسی طاقت بن جاتا ہے جو ہر امکانی صورت حال سے نمٹنے کی یقینی ضمانت ہوتا ہے۔

 اس کے برعکس، جو لوگ ذاتی شکایتوں سے اوپر اٹھ کر سوچنا نہ جانتے ہوں ، جو ذاتی اختلافات کو اجتماعی مفاد پر قربان نہ کرسکیں ، وہ بھی کوئی بڑا کام نہیں کر سکتے ۔ ان کی کوششیں یا تو محدود ہو کر رہ جاتی ہیں یا خود اپنے بھائیوں کو نقصان پہنچانے میں استعمال ہوتی ہیں۔ ایسے لوگ اپنے وسائل اور مواقع کو اپنے اندرونی جھگڑوں میں برباد کرتے رہتے ہیں۔ ان کے اندر ہمیشہ ایسے کمزور گوشے باقی رہتے ہیں جہاں سے ان کا دشمن ان کے اندر گھس آئے اور ان کے بارے میں اپنے خطرناک منصوبوں کو پورا کر سکے — یہ اختلافی سیاست اس وقت اور زیادہ مہلک ہو جاتی ہے جب کہ اس کو عقیدہ بنا لیا جائے۔ سیاسی اختلاف کبھی نہ کبھی ختم ہوجاتا ہے۔ مگر جب اس کو اعتقادی اختلاف کا درجہ دے دیا جائے تو اس کے ختم ہونے کی کوئی صورت نہیں۔ یہاں تک کہ خدا خود ظاہر ہو کر فیصلہ فرمادے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom

Ask, Learn, Grow

Your spiritual companion