ناموافق حالات میں بھی موافق امکان
ان کے ناموافق حالات نے ان کے لیے ایک نیا موافق امکان پیدا کر دیا

مادہ جب ’’بر باد‘‘ کیا جاتا ہے تو وہ انرجی بن جاتا ہے، جو مادہ کی زیادہ وسیع اور طاقت ور صورت ہے۔ یہی خدا کی اس کائنات کا عام قانون ہے۔ یہاں ہر محرومی کے اندر ہمیشہ ایک نئی یافت کا امکان چھپا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ صفت خاص جس کا ظہور عالم مادی میں ہوا ہے، اس کا وعدہ زیادہ بڑے پیمانہ پر اہل ایمان کے لیے کیا گیا ہے۔ ان کے لیے ان کا رب ناموافق حالات میں بھی موافق پہلو پیدا کر دیتا ہے، بشرطیکہ وہ فی الواقع خدا کے ہو چکے ہوں۔ ان کی منصوبہ بندی خالص خدائی مشن کے لیے ہو، نہ کہ اپنے آپ کو نمایاں کرنے کے لیے۔

مکہ میں جب مسلمانوں کے حالات سخت ہو گئےتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے کہا : تم لوگ حبش چلے جاؤ۔ وہاں کا بادشاہ نجاشی عیسائی ہے اور نیک نفس ہے۔ وہ تم لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے گا ۔ چنانچہ 615ء میں پندرہ آدمی جدہ پہنچے اور کشتیوں پر سوار ہو کر حبش چلے گئے ۔ دوسری بار 617 ءمیں ایک سو مسلمان حبش گئے۔

بظاہر یہ ایک ناپسندیدہ واقعہ تھا۔ مگر اس کے اندر اللہ تعالیٰ نے ایک خیر کی صورت پیدا کر دی۔ مکی مسلمانوں کا حبش پہنچنا وہاں اسلام کو موضوع بحث بنانے کا سبب بن گیا۔ پیغمبر اسلام ؐکی بعثت اور آپ کی دعوت کی خبریں حبش میں پھیلنے لگیں ۔ قریش کے ایک مخالفانہ وفد حبش پہنچنے کے نتیجہ میں حضرت جعفر کو موقع ملا کہ دربار شاہی میں اسلام کی دعوت پر مفصل تقریر کر سکیں ۔ اس طرح کے واقعات کا نتیجہ یہ ہوا کہ حبش سے 20 عیسائیوں کا ایک وفد مکہ آیا تا کہ اصل معاملہ کی تحقیق کر سکے ۔

 جب یہ لوگ مکہ پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد حرام میں تھے۔ وہ وہاں گئے اور آپ سے مل کر مختلف سوالات کیے اور پوچھا کہ آپ کیا تعلیم لائے ہیں۔ آپ نے بتایا کہ خدا نے میرے اوپر اپنا کلام اتارا ہے اور قرآن کی کچھ آیات پڑھ کر سنائیں۔ یہ لوگ چونکہ تعصب سے خالی تھے ، قرآن سن کر بہت متاثر ہوئے ۔ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ انھوں نے تصدیق کی کہ بلاشبہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ اور اسی وقت اسلام قبول کر لیا۔

جس وقت یہ واقعہ ہو رہا تھا، قریش کے بہت سے لوگ وہاں جمع تھے اور سارا ماجرا دیکھ رہے تھے۔ انھیں حیرت بھی تھی اور غصہ بھی آرہا تھا کہ جس دین کو انھوں نے رد کر دیا ہے، اس کو باہر کے لوگ آ آکر اپنا رہے ہیں۔ حبش کے یہ لوگ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اٹھے تو ابو جہل اپنے کچھ ساتھیوں کو لے کر ان سے راستہ میں ملا۔ اس نے ان لوگوں کو ملامت کرتے ہوئے کہا: ’’ہمارا خیال ہے کہ تم سے زیادہ احمق قافلہ یہاں کبھی نہیں آیا۔ تمھارے ہم مذہب لوگوں نے تم کو اس لیے یہاں بھیجا تھا کہ تم اس شخص کے حالات کی تحقیق کرو اور واپس جا کر اپنے ساتھیوں کو بتاؤ۔ مگر ابھی تم اس سے ملے ہی تھے کہ اپنے دین کو چھوڑ بیٹھے‘‘۔

جیسا کہ قرآن میں بتایا گیا ہے یہ بنی اسرائیل کے علما تھے (26:197)۔ انھوں نے ابو جہل، وغیرہ، سے کوئی بحث نہیں کی۔ بلکہ صرف یہ جواب دیا: ’’ سلام ہے بھائیوں تم کو، ہم تمھارے ساتھ بات نہیں کرسکتے ہیں، ہمیں ہمارے طریقے پر چلنے دو اور تم اپنے طریقے پر چلتے رہو ہم اپنے آپ کو جان بوجھ کر بھلائی سے محروم نہیں رکھ سکتے۔ (سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ 392)

 انھیں لوگوں کے بارے میں قرآن میں آیا ہے :

الَّذِينَ آتَيْناهُمُ الْكِتابَ مِنْ قَبْلِهِ هُمْ بِهِ يُو ْٔمِنُونَ وَإِذا يُتْلى عَلَيْهِمْ قالُوا آمَنَّا بِهِ إِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّنا إِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِهِ مُسْلِمِينَ  أُولئِكَ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ بِما صَبَرُوا وَيَدْرَؤُنَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ وَإِذا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ وَقالُوا لَنا أَعْمالُنا وَلَكُمْ أَعْمالُكُمْ سَلامٌ عَلَيْكُمْ لا نَبْتَغِي الْجاهِلِينَ (28:52-55)۔یعنی، جن لوگوں کو ہم نے اس سے پہلے کتاب دی تھی وہ قرآن پر ایمان لاتے ہیں اور جب یہ ان کو سنایا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں : ہم اس پر ایمان لائے، یہ بلاشبہ خدا کی طرف سے ہے ۔ ہم تو پہلے ہی سے اس کو ماننے والے تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو دہرا اجر دیا جائے گا، ان کے صبر کے بدلے۔ وہ برائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں اور جو رزق ہم نے انھیں دیا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ انھوں نے جب لغوبات سنی تو یہ کہہ کر اس سے الگ ہو گئے : ہمارے اعمال ہمارے ساتھ اور تمھارے اعمال تمھارے ساتھ، تم کوسلام ہے، ہم جاہلوں کا طریقہ اختیار کرنا نہیں چاہتے۔

نا موافق حالات میں موافق امکان کن لوگوں کے لیے ہے، یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو صبر کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ صبر یہ ہے کہ ردّ عمل کی نفسیات کے تحت اقدام کرنے سے پر ہیز کیا جائے، اور جو فیصلہ کیا جائے غیرمتاثر ذہن سے سوچ سمجھ کر کیا جائے۔ ایسا انسان اپنی رفتار سفر کو خدا کی رفتار سے ہم آہنگ کر دیتا ہے۔ اس کو ان خدائی بخششوں میں حصہ ملنے لگتا ہے، جو جلد بازی سے بچنے والوں کے لیے مقدر ہیں۔

ایک درخت کاٹ دیا جائے تو ظاہر بیں کے لیے گویا درخت ختم ہو گیا۔ مگر کچھ عرصہ بعد دیکھنے والے دیکھتے ہیں کہ اس کی باقی ماندہ جڑوں سے نئی پتیاں نکل رہی ہیں۔ حتیٰ کہ انتظار کو طویل کیا جا سکے تو دیکھنے والا دیکھے گا کہ جہاں درخت بظاہر ختم ہو گیا تھا، وہاں دوبارہ ایک نیا درخت کھڑا ہو گیا ہے ۔ خدا کا یہی معاملہ انسانوں کے ساتھ بھی ہے۔ ہر با رجب کسی قوم یا شخص کے لیے ایک امکان ختم ہوتا ہے تو قانون قدرت کے تحت ایک دوسرے امکان کی کونپلیں اس کے لیے نکلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ مگر جلد باز انسان صبر نہیں کرتا ۔ وہ فوری نتیجہ حاصل کرنے کے شوق میں ایک الل ٹپ چھلانگ لگا دیتا ہے ۔ اس کی جلد بازی اس کو موقع نہیں دیتی کہ وہ نئے ابھرنے والے امکانات کو دیکھ سکے اور ان کے مطابق اپنے اگلے عمل کی منصوبہ بندی کرے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک کے بعد ایک لاحاصل اقدامات میں اپنی قوتوں کو ضائع کرتا رہتا ہے اور اس کی نوبت ہی نہیں آتی کہ وہ اس ’’دوسرے‘‘ دروازہ میں داخل ہو سکے جو ’’پہلا‘‘ دروازہ بند ہونے کے بعد اس کے رب نے اس کے لیے کھولا تھا۔ صبر سب سے بڑا دین ہے۔ مگر بہت کم ہیں جو اس پہلو سے دیندار بننے کی ضرورت محسوس کرتے ہوں۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom

Ask, Learn, Grow

Your spiritual companion