سیاسی حرص کے بجائے سیاسی قناعت
کوئی مرد عورت اپنی اولاد کو تسلیم کرنے سے انکار نہیں کر سکتے۔ یہی سیاست کا معاملہ بھی ہے۔ کسی کے لیے ممکن نہیں کہ وہ اپنے پیدا کردہ سیاسی حالات کے منطقی نتائج سے انکار کر سکے۔ ایسی ہر کوشش ہمیشہ الٹی پڑتی ہے اور صرف محرومیوں میں اضافہ کا باعث بنتی ہے۔ اس کو پاکستان کی مثال سے سمجھیے۔
پاکستان تقسیم کے نعرہ پر بنا — مسلمانوں کی طرف سے’’ڈائرکٹ ایکشن‘‘ کی نوبت آجانے کے بعد بالآخر یہ تحریک کامیاب ہوئی۔ اور فریق ثانی نے اس مطالبہ کو مان لیا کہ آبادی کی بنیاد پر ملک کو تقسیم کر دیا جائے۔ مگر 1946 ءمیں جب تقسیم کی سرحدیں طے کرنے کا وقت آیا تو پاکستانی لیڈروں کو نظر آیا کہ تقسیم کے اصول کے مطابق’’ جونا گڑھ‘‘ اور ’’حیدر آباد‘‘ جیسی مسلم ریاستیں ان کے ہاتھ سے نکل رہی ہیں۔ اب انھوں نے کوشش کی کہ ویسی ریاستوں کے معاملہ میں الحاق کے اصول کو مبہم رکھا جائے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اس طرح وہ بیک وقت کشمیر پر بھی قبضہ کرلیں گے اور حیدر آباد پر بھی۔ کشمیر کو اس دلیل سے کہ وہاں کی آبادی میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، حیدر آباد کو اس لیے کہ وہاں کا حکمران مسلمان ہے۔ مگر یہ خود اپنے پیدا کردہ حالات کے منطقی نتائج سے انکار کرنا تھا۔ چنانچہ اس کا انجام الٹا ہوا۔ دو خرگوشوں کے پیچھے دوڑنے کی کوشش میں پاکستان ایک کو بھی نہ پکڑ سکا۔
پاکستان بنا تو وہ دو ایسے الگ الگ حصوں پرمشتمل تھا، جن میں سے ایک (مشرقی حصہ) واضح طور پر دوسرے کے مقابلہ میں عددی اکثریت رکھتا تھا ۔ بنگالی لیڈر حسین شہید سہروردی کی کوششوں سے پاکستان کے سابقہ دونوں حصوں میں سیاسی مساوات (Parity) قائم ہوگئی ۔ صدر ایوب خاں کی بنیادی جمہوریت میں یہ مساوات ایک مسلمہ سیاسی اصول کے طور پر باقی رہی ۔ اس کے مطابق مشرقی حصہ کے چالیس ہزار اور مغربی حصہ کے چالیس ہزار نمائندہ ووٹر ملک کی حکومت کا فیصلہ کرتے تھے۔ مگر پاکستان کے رہنما اس نظام کے خلاف ہو گئے ۔ انھیں صدر ایوب کو اقتدارسے ہٹانا تھا اور اس کی سب سے آسان تدبیر ی تھی کہ عوام کو یہ کہہ کران کے خلاف بھڑ کا دیا جائے کہ بنیادی جمہوریت قائم کر کے انھوں نے عوام کے سیاسی حقوق کو غصب کر رکھا ہے۔ اب پاکستان میں تحریک جمہوریت چلائی گئی ۔ بے پناہ نقصانات کے بعد بالآخر تحریک کامیاب ہوئی۔ صدر ایوب اور ان کی بنیادی جمہوریت دونوں ختم ہو گئے۔
1970 ءمیں پاکستان کا پہلا عوامی انتخاب ہوا جس میں ہر بالغ کو ووٹ دینے کا حق حاصل تھا۔ مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کی آبادی چوں کہ زیادہ تھی، اس کے نمائندوں کی تعداد مرکزی اسمبلی میں زیادہ(55 فی صد) ہوگئی۔ مساوات ٹوٹ گئی اور بنگلہ دیش نے پاکستان کے اوپر سیاسی بالاتری حاصل کرلی ۔
اب پاکستان کے رہنما چیخ اٹھے ۔ انھوں نے جمہوریت کے فتنہ کو یہ سمجھ کر جگایا تھاکہ وہ خود ان کو اقتدار تک پہنچانے کا زینہ بنے گی، نہ اس لیے کہ بنگلہ دیش کے سیکولر لیڈر اس کو استعمال کر کے پاکستان کے اقتدار اعلیٰ پر قابض ہو جائیں گے۔ انھوں نے چاہا کہ جمہوریت کو دوبارہ ’’پابند جمہوریت‘‘ بنائیں اور مشرقی اور مغربی حصہ میں مسا ویانہ نمائندگی کا اصول قائم کریں جیسا کہ وہ پہلے قائم تھا۔ مگرعوامی جمہوریت کو زندہ کرنے کے بعد اس قسم کی کوشش خود اپنے پیدا کردہ حالات کے نتائج سے بھاگنے کے ہم معنی تھا۔ بنگلہ دیش عوامی رائے دہی کے اصول کے تحت ملی ہوئی سیاسی فوقیت کو چھوڑ نہیں سکتا تھا۔ جمہوری منطق کے تحت پیدا شدہ نتائج کے انکار نے نئے شدید تر مسائل پیدا کیے۔ دونوں حصوں میں کش مکش بڑھتی چلی گئی ۔ یہاں تک کہ وہ نوبت آئی کہ خود پاکستان دو ٹکڑے ہو گیا ۔
1978ء میں یہ تجربہ اب ایک نئی شکل میں دہرایا جارہا ہے۔ پاکستان کے دوسرے عوامی انتخاب (1977ء) میں بھٹو پارٹی کو کامیابی حاصل ہوئی ۔ حزب مخالف کے لیے یہ سیاسی محرومی ناقابل برداشت تھی۔ اس نے الیکشن کے نتائج کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس نے نعرہ لگایا کہ بھٹو پارٹی دھاندلی کر کے الیکشن جیتی ہے۔ ورنہ پاکستانی عوام کی ننانوے فی صدا کثریت ہمارے ساتھ ہے۔ انھوں نے ’’دوبارہ الیکشن کر اؤ‘‘ کے نام پر پاکستانی شہروں میں ہنگامے شروع کر دیے۔ اس صورت حال سے فائدہ اٹھا کر فوجی افسروں نے بغاوت کردی اور حکومت پر قبضہ کر لیا۔ عوام کو مطمئن کرنے کے لیے جنرل محمد ضیا الحق نے اعلان کیا کہ وہ صرف ریفری کے طور پر حکومت کے ایوان میں داخل ہوئے ہیں، اور بہت جلد منصفانہ الیکشن کرائے جائیں گے۔
پاکستان قومی اتحاد کے لیڈر خوش ہو گئے اور 1977 ءکو ’’عام الفتح‘‘قرار دیا۔ مگر بھٹو پارٹی کے جلسوں میں عوام کی بھیڑ نے بتایا کہ بھٹو کے بے اقتدار ہونے کے باوجود عوام اب بھی اسی کے ساتھ ہیں اور اگر الیکشن ہوا تو بھٹو پارٹی ہی دوبارہ برسراقتدار آ جائے گی ۔ جس جمہوریت کو لانے کے لیے پاکستانی رہنماؤں نے چوتھائی صدی خرچ کردی تھی، وہ جب آئی تو معلوم ہوا کہ وہ ساری کی ساری’’ بھٹو ‘‘جیسے لوگوں کے حصہ میں چلی گئی ہے۔ ان کو محسوس ہوا کہ ’’مسئلہ صرف جمہوری انتخابات کا نہیں ہے بلکہ مسئلہ انتخابات کی پیش آمدہ مصیبت اور ان کے متوقع بھیانک نتائج کا بھی ہے‘‘۔ اب انھوں نے اپنے نعرے بدل دیے۔ انھوں نے کہنا شروع کیا کہ ’’جمہوریت کو جلا ڈالو۔ لوگوں کی آزادیاں سلب کر لو ۔ عمر کا کوڑا حرکت میں لاؤ‘‘ (المنبر، فیصل آبا د، 3 اکتوبر 1978ء)۔ یہی پاکستان کے تمام مخالف بھٹو ر ہنماؤں کا ذہن ہے۔ کوئی اس بات کو برے الفاظ میں کہ رہا ہے اور کوئی خوبصورت الفاظ میں۔ مگر ظا ہر ہے کہ اس قسم کی سیاست خود اپنے پیدا کردہ حالات کے نتائج کو قبول نہ کرنا ہے ۔ جب پاکستان میں عوامی جمہوریت کو زندہ کیا گیا ہےتو اب یہ ممکن نہیں کہ اس کے منطقی نتائج کو ظہور میں آنے سے روکا جاسکے ۔ پاکستانی رہنماؤں کی یہ سیاست بلاشبہ ان کے لیے نہایت مہنگی پڑے گی۔ ’’نظام مصطفی‘‘ اور ’’نظریہ پاکستان‘‘ جیسے الفاظ بول کر اس سیلاب کورو کا نہیں جاسکتا۔
اس قسم کی غلطی بار بار کیوں ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سیاسی حرص ہے ۔ ہمارے رہنما صرف اتنے پر قانع ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں، جو حقیقی حالات کے اعتبار سے انہیں مل سکتا ہے ۔ ان کی اس کمزوری نے انھیں غیر حقیقت پسند بنا دیا ہے ۔ وہ ایسے اقدامات کرتے ہیں جن کو نبھانے کی طاقت ان میں نہیں ہوتی ۔ اسلامی تعلیم کے مطابق اگر وہ حرص کے بجائے قناعت کا طریقہ اختیار کریں تو وہ زیادہ بڑی اور حقیقی کامیابی حاصل کریں اور قوم کو بھی نئے نئے مسائل سے دوچار کرنے کی ذمہ داری سے بچ جائیں ۔ (23 اکتوبر 1978ء)
