پیچھے ہٹنا سب سے بڑا اقدام

کبھی پیچھے ہٹنا سب سے بڑا اقدام ہوتا ہے مگر اس کو وہی لو گ جانتے ہیں جو بڑے دل والے ہوں۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات (11ھ) کے بعد 20 سال تک فتوحات اسلام کا زبر دست سلسلہ جاری رہا۔ ہر مہینے کسی نہ کسی بڑے علاقہ کے فتح کی خبرآتی تھی۔ مگر تیسرے خلیفہ کی شہادت (35ھ)کے ساتھ جو باقی لڑائیاں شروع ہوئیں، انھوں نے تقریباً 10 سال تک فتوحات کا سلسلہ ختم کر دیا ۔ وہ شخص جس نے اس بند دروازہ کو دوبارہ کھولا، وہ حضرت امام حسن تھے۔ 41ھ میں آپ کی خلافت سے دست برداری بظاہر میدان عمل سے واپسی کا ایک فیصلہ تھا۔ مگراس واپسی نے اسلامی تاریخ میں اقدام وعمل کے نئے امکانات کھول دیے ۔

حسن بن علی بن ابی طالب شعبان 3 ھ میں پیدا ہوئے۔ ربیع الاول 50ھ میں وفات پائی۔ آپ کے والد حضرت علی کی شہادت 17 رمضان 40ھ کو کوفہ میں ہوئی تو آپ کی عمر 37 سال تھی۔ اس وقت صرف عراق اور ایران حضرت علی کے زیر خلافت  رہ گئے تھے۔ اس کے علاوہ یمن، حجاز ، شام، فلسطین، مصر وغیرہ میں امیرمعاویہ کی حکومت قائم تھی۔ حضرت علی کے زیر خلافت علاقہ میں بہت سے لوگ در پردہ آپ کے مخالف تھے۔ حضرت علی کی شہادت کے بعد لوگوں نے امام حسن کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت کی، جو آپ کے سب سے بڑے صاحب زادے تھے۔

حضرت حسن نے حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے خلافت کی ذمہ داری کو قبول کر لیا۔ مگر ان کے اندر چونکہ اقتدار کی ہوس نہ تھی، انھوں نے بہت جلد اس حقیقت کو محسوس کر لیا کہ موجودہ حالات میں ان کا خلافت پر اصرار کرنا صرف ملت کے انتشار میں اضافہ کے ہم معنی ہو گا۔ انھوں نے ایک حقیقت پسند انسان کی طرح ایک بار اپنے چھوٹے بھائی حضرت حسین سے کہا تھا :

’’میں جانتا ہوں کہ نبوت و خلافت دونوں ہمارے خاندان میں جمع نہیں رہ سکتیں ‘‘

اسی نزاکت کی وجہ سے آپ نے بیعت کے وقت لوگوں سے یہ اقرار لے لیا تھا کہ ’’میں جس سے جنگ کروں تم اس سے جنگ کرو گے ، میں جس سے صلح کروں تم اس سے صلح کرو گے ‘‘۔

حضرت علی کے بعد کوفہ کے لوگوں نے حضرت حسن کو خلیفہ بنایا۔ دوسری طرف حضرت امیر معاویہ کے لیے حضرت علی کا اس دنیا سے جانا گویا راستہ صاف ہونے کے ہم معنی تھا۔انھوں نے حضرت علی کی شہادت کی خبر ملتے ہی اپنے لیے ’’امیر المومنین‘‘ کا لقب اختیار کرلیا اور منصوبہ بنایا کہ بقیہ اسلامی علاقوں ( عراق وایران) کو بھی اپنے ماتحت کرکے اپنی حکومت کو مکمل کر لیں۔ امیر معاویہ تجدید بیعت سے فارغ ہونے کے بعد ساٹھ ہزار کالشکرلے کر دمشق سے کوفہ کی طرف روانہ ہوئے، کو فہ میں داخلہ سے پہلے انھوں نے امام حسن کو پیغام بھیجا کہ جنگ سے بہتر یہ ہے کہ آپ مجھ سے صلح کر لیں اور مجھ کو خلیفہ وقت تسلیم کرلیں۔ امام حسن کے پاس بھی اس وقت ساٹھ ہزار کا لشکر تھا جو لڑنے مرنے پر تیار تھا۔ مگر امام حسن نے مسلمانوں کو باہمی خوں ریزی سے بچانا زیادہ ضروری سمجھا۔ وہ اپنے حق خلافت سے از خود دست بردار ہو گئے اور صرف چھ ماہ خلیفہ رہ کر امیر معاویہ کے ہاتھ کو فہ کی مسجد میں بیعت کرلی ۔

امام حسن کے پر جوش حامیوں کے لیے یہ ’’ذلت‘‘ ناقابل برداشت تھی۔ انھوں نے اس فیصلہ کے خلاف بہت شور و غل کیا۔ آپ کو عَارٌ لِـلْمُسْلِمِينَ (مسلمانوں کے لیے ننگ) کا خطاب دیا، کہا کہ آپ کا فر ہو گئے ہیں ۔ آپ کے کپڑے نوچے ، حتیٰ کہ آپ پر تلوار سے حملہ کیا۔ مگر آپ کسی بھی حال میں مقابلہ آرائی کی سیاست اختیار کرنے کے لیے تیار نہ ہوئے ۔ بلکہ فرمایا :

’’ خلافت اگر معاویہ بن ابو سفیان کا حق تھا تو ان کو پہنچ گیا ۔ اور اگر یہ میرا حق تھا تو میں نے ان کو بخش دیا‘‘۔ (تاریخ دمش ، ابن عساکر، جلد7، صفحہ 35-36)

 ایک شخص کے پیچھے ہٹ جانے کا یہ نتیجہ ہواکہ مسلمانوں کا باہمی اختلاف باہمی اجتماعیت میں تبدیل ہوگیا اور 41ھ جو اسلامی تاریخ میں صفین و جمل کے بعد تیسری سب سے بڑی باہمی خوں ریزی کا عنوان بنتا ، عام الجماعت کے نام سے پکارا گیا۔ وہ اختلاف کے بجائے اتحاد کا سال بن گیا، مسلمانوں کی قوت جو آپس کی لڑائیوں میں برباد ہوتی ، اسلام کی اشاعت و توسیع میں صرف ہونے لگی ۔ حقیقت یہ ہے کہ کبھی پیچھے ہٹنے کا نام آگے بڑھنا ہوتا ہے اگر چہ بہت کم لوگ ہیں جو اس حقیقت کو جانتے ہوں۔

حضرت حسن کا یہ عمل کسی قسم کی پسپائی یا فرار نہ تھا۔ یہ انتہائی مکمل سیاست تھی اور عین وہی چیز تھی جس کا نمونہ خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی سے قائم فرمایا ہے۔

 اجتماعی زندگی کا معاملہ انتہائی نازک معاملہ ہے ۔ اگر کوئی شخص صرف اقدام اور مقابلہ کی اصطلاحوں میں سوچنا جانتا ہو تو وہ کبھی اجتماعی اصلاح کے میدان میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ اجتماعی زندگی مختلف الخیال قوتوں کے مجموعہ کا نام ہے ۔ اس میں ناقابل قیاس حد تک مختلف صورتیں پیش آتی رہتی ہیں۔ اس لیے اجتماعی زندگی میں طریق عمل کا کوئی ایک معیار مقر نہیں کیا جا سکتا ۔ ضروری ہے کہ ان طاقتوں کو سمجھا جائے جو بالمقابل محاذ میں مصروف کار ہیں، اور اپنی اور دوسروں کی حقیقی صورت حال کا موازنہ کر کے اپنے عمل کی منصوبہ بندی کی جائے۔ یہ کام بیک وقت نہایت گہری نگاہ کا طالب ہے، اور اسی کے ساتھ نفسیاتی پیچید گیوں سے آزاد ذہن کا بھی ۔

اجتماعی مقابلہ میں کبھی اپنے آپ کو مکمل طور پر نظریاتی تبلیغ کے دائرہ میں محدود رکھنا پڑتا ہے۔ اس کی مثال مکہ کے ابتدائی بارہ سال ہیں۔ کبھی حالات کا تقاضا ہوتا ہے کہ فریق مخالف کے چیلنج کو میدان جنگ میں قبول کیا جائے۔ اس کی ایک مثال غزوۂ بدر ہے ۔ کبھی دور رس نتائج کو پانے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ فریق ثانی سے براہ راست تصادم کرنے سے بچا جائے خواہ اس کی قیمت یہی کیوں نہ ہو کہ فریق ثانی کے یک طرفہ مطالبات مان لینے پڑیں ۔ اس کی ایک مثال معاہدۂ حدیبیہ ہے ۔ اسلام کی اصطلاح میں یہ سیاست کا صبر ہے۔ جو شخص سیاست میں صابرانہ طریق کار کی طاقت نہ رکھتا ہو اس سے اسلام کا کم سے کم مطالبہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو سیاست کے میدان میں داخل نہ کرے ۔

کامیاب اقدام وہی کر سکتا ہے جو کامیاب پسپائی کا راز جانتا ہو، پیچھے ہٹنا بزدلی نہیں حکمت عملی ہے ۔ اقتدار سے نہ ٹکرانا ظلم کو برداشت کرنا نہیں بلکہ ظلم کو جڑ سے مٹانے کی طاقت فراہم کرنا ہے۔ سیاست کو ترک کرنا سیاسی خود کشی نہیں، بلکہ معاشرہ کے دیگر عوامل کو بروئے کار آنے کا موقع دینا ہے ۔ احتجاج سے گریز کرنا مسئلہ سے صرف نظر کرنا نہیں، بلکہ اپنی قوتوں کو مثبت تعمیر کی راہ میں لگانا ہے ۔ جو شخص فوری ردّ عمل کے تحت سیاست کے میدان میں کو دپڑتا ہے اس سے زیادہ سیاست سے ناواقف اور کوئی نہیں ۔

☆☆☆

’’تاریخ انسانی عمل کا ریکارڈ ہے۔ لیکن تاریخ کو اگر افسانہ بنا دیا جائے تو وہ ایک ایسا ذہنی کارخانہ بن جاتی ہے، جس میں صرف خوش فہمی کی مہلک گولیاں تیار ہوتی ہوں‘‘۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom

Ask, Learn, Grow

Your spiritual companion