خدا کا کلمہ ان کے حق میں پورا ہوا
حضرت موسیٰ علیہ السلام (1400-1520 ق م) کی آمد سے ساڑھے تین ہزار برس پہلے یہ واقعہ ہوا کہ فلسطین اور شام کے علاقے کے کچھ عرب ، جن کو ’’عمالیق‘‘ کہا جاتا تھا، مصر میں داخل ہوئے اور وہاں کے مقامی حکمرانوں کے آپس کے اختلاف سے فائدہ اٹھا کر مصر کی سلطنت پر قابض ہو گئے ۔ حضرت یوسف علیہ السلام (1796-1906 ق م) جب نوجوانی کی عمر میں فلسطین سے مصر پہنچے تو اس وقت مصر پر اُن کے اِنھیں ہم قوموں کی حکومت تھی ۔ ایک عورت کی پیدا کردہ بعض ابتدائی مشکلات کے بعد آپ کو مصر میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی ۔ آپ ایک شان دار شخصیت کے مالک تھے اور آپ کے اندر غیر معمولی انتظامی صلاحیت تھی۔ مصری حکمرانوں کو نسلی قربت کی وجہ سے آپ کی صلاحیتوں کے اعتراف میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آئی ۔ آپ کے زمانہ کے عرب بادشاہ اپو فیس نے آپ کے دین کو قبول نہ کرتے ہوئے بھی حکومت کا تمام کاروبار آپ کے سپرد کر دیا۔ اس کے بعد حضرت یوسف نے اپنے والد حضرت یعقوب (اسرائیل) اور دیگر اہل خاندان کو مصر بلا لیا۔ یہ لوگ تقریباً چار سو سال تک مصر کی حکومت پر چھائے رہے۔ مصر کے آئینی حکمراں اگر چہ اب بھی مشرک عمالیق تھے، مگر حکومت پر عملاً بنی اسرائیل ہی کا قبضہ تھا ۔
بنی اسرائیل ابتداء ً جب مصر آئے تو ان کو یہاں کی انتہائی زرخیز زمینوں میں بسایا گیا اور حکومت کے اعلی ترین مناصب ان کے لیے مخصوص رہے۔ مگر یہ اکثریت کے اوپر اقلیت کی حکومت تھی ۔ بائبل کے بیان کے مطابق یعقوب (اسرائیل) کا گھرانا جو ملک مصر منتقل ہوا، ان کی تعداد حضرت یوسف کو ملاکر 68تھی۔ توالد و تناسل نیز تبلیغ کے ذریعے دور قدیم کے ان ’’مسلمانوں‘‘ کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ پانچ سو برس بعد جب حضرت موسی نے مردم شماری کرائی تو صرف ان کے مردوں کی تعداد چھ لاکھ سے زیادہ ہوچکی تھی۔ اگرچہ اس زمانے کی مصری آبادی کے قلمی اعداد وشمار معلوم نہیں ہیں ۔ تاہم تخمینی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ مصر کی اس زمانے کی آبادی میں بنی اسرائیل کی تعداد تقریباً 10فی صد ہوگی۔
حضرت یوسف نے 110سال کی عمر پائی ۔ آپ کے تین چار سو سال بعد مصر میں عرب حکمرانوں کے خلاف ردّ عمل ہوا۔ لمبے خون خرابے کے بعد بالآ خر قبطی غالب آئے۔ بیرونی حکمرانوں کو تخت سے بے دخل کر دیا گیا اور مصر پر ایک قبطی خاندان کی حکومت قائم ہو گئی جس کے حکمرانوں نے ’’فرعون‘‘ کا لقب اختیار کیا۔
قبطی حکومت کے قیام کے بعد اگرچہ ڈھائی لاکھ عربوں کو مصر سے نکال دیا گیا تھا۔ تاہم بنی اسرائیل اب بھی وہاں رکھے گئے تاکہ نئے حکمرانوں کے لیے بیگار کا کام دے سکیں۔ بائبل کے الفاظ میں :’’مصریوں نے خدمت کروانے میں بنی اسرائیل پرسختی کی اور انھوں نے سخت محنت سے گارا اور اینٹ کا کام اور سب خدمت کھیت کی کروا کے ان کی زندگی تلخ کی ۔ اور ان کی ساری خدمت جو وہ ان سے کراتے تھے مشقت کی تھیں۔‘‘( خروج، 1:13-14)
حضرت موسی تشریف لائے تو بنی اسرائیل اسی دور مشقت سے گزر رہے تھے۔ آپ نے قبطی فرعونی تہذیب کے مقابلہ میں مغلوب حیثیت اختیار کرنے کے بجائے خود ان کے اوپر اقدام کا طریقہ اختیار کیا۔ آپ نے دعوت دینی شروع کی کہ دین خداوندی کو اختیار کرو، ور نہ تم سب کے سب تباہ کر دیے جاؤ گے ۔ یہ چیز فرعون کے غصہ میں صرف اضافہ کر سکتی تھی۔ چنانچہ بنی اسرائیل کے لیے مصر کی زندگی آپ کے آنے کے بعد تلخ تر ہوگئی۔ حتیٰ کہ اس میں مزید یہ اضافہ ہوا کہ شاہی حکم کے تحت بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والے بیٹوں کو قتل کیا جانے لگا تا کہ ان کی نسل دھیرے دھیرے مصر سے ختم ہو جائے۔ قدیم مصری آثار کی کھدائی کے دوران 1896 میں ایک کتبہ ملا ہے جس میں حضرت موسی کے زمانے کا فرعون منفتاح فخر کے ساتھ کہتا ہے ’’ اور اسرائیل کو مٹا دیا گیا ، اس کا بیج تک باقی نہیں‘‘۔
اس وقت بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ سے شکایت کی ’’ آپ کے آنے سے پہلے بھی ہم ستائے جا رہے تھےاور اب آپ کے آنے کے بعد بھی ستائے جا رہے ہیں‘‘ (الاعراف 7:129)۔
اس انتہائی نازک مرحلہ میں بنی اسرائیل کو جو جواب دیا گیا، وہ قرآن کے الفاظ میں یہ ہے :
وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ وَأَخِيهِ أَن تَبَوَّآ لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُيُوتًا وَاجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قِبْلَةً وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ (10:87)۔ یعنی، اور ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی کو وحی کی کہ تم دونوں اپنی قوم کو مصر میں ٹھہراؤ اور اپنے گھروں کو مرکز عمل بنالو { FR 513 }اور نماز قائم کرو اور مومنین کو بشارت دے دو۔
اس آیت میں جو پروگرام دیا گیا ہے ، اس کو حسب ذیل طریقے پر بیان کیا جا سکتا ہے :
1۔ جہاں ہو، وہاں جمے رہو۔ اپنے اندر خوف و انتشار کو جگہ مت دو۔ یہ وہی چیز ہے جس کو حضرت مسیح ؈ نے ان لفظوں میں کہا تھا جب تک عالم بالا سے تم کو قوت کا لباس نہ ملے اس شہر میں ٹھہرے رہو ۔ (24 :49)
2۔ اپنے گھر کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنا لو، یعنی باہمی اتحاد، اندرونی استحکام ، آپس کے صبر و نصیحت اور ذاتی ذرائع پر انحصار، یہ وہ چیزیں ہیں جن پر تمھیں موجودہ حالت میں اپنی توجہات کو مرتکز رکھنا چاہیے۔
3۔ نماز قائم کرو— یعنی اللہ سے اپنے تعلق کو مضبوط کرو، اس کی یاد، اس سے مانگنا ، اس کے آگے اپنے آپ کو بالکل جھکا دینا ، ان صفات کو زیادہ سے زیادہ اپنے اندر پیدا کرو۔
4۔ یہی وہ طریق عمل ہے جس میں تمھارے لیے دنیا و آخرت کی تمام خوش خبریاں چھپی ہوئی ہیں۔ پوری یکسوئی کے ساتھ ان کی تکمیل میں لگ جاؤ۔
اس سے نکاتی پروگرام کو مختصر طور پر اس طرح کہہ سکتے ہیں — استقامت، داخلی تعمیر، تعلق باللہ ۔ اس پروگرام پر عمل کرنے کا بالاآخر جو نتیجہ نکلا، وہ قرآن کے الفاظ میں یہ ہے
اور جو لوگ کمزور کر دیےگئے تھے، ہم نے ان کو زمین کے مشرق و مغرب کا مالک بنا دیا جس میں ہم نے برکت دی ہے۔اور تمہارے رب کا بہترین کلمہ بنی اسرائیل کے لیے پورا ہو کر رہا۔ اور ہم نے فرعون اور اس کی قوم کو اس کی صنعتوں اور اس کے فارموں کے ساتھ مٹاکر رکھ دیا۔ (الاعراف، 7:137)
۱) تَبَوَّآ لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُيُوتًا کا ترجمہ شاہ ولی اللہ صاحب نے ان الفاظ میں کیا ہے ساکن کنید قوم خود را بہ شہر مصر در خانہا (اپنی قوم کو مصر کے شہر میں گھروں میں قیام کراؤ)۔قبلہ کا لفظ قَبلَ کا اسم ہوتا ہے۔ اس کا اصل مفہوم ہے’’مرکز توجہ‘‘۔کہتے ہیں:قَبَلَتِالْمَاشِيَةُالوَادي(الغریب لابی عبید، جلد3، صفحہ985) ۔ یعنی، جانور وادی کی طرف متوجہ ہوئے۔
