تعمیری حوصلے سیاسی عزائم میں تبدیل ہو گئے
ابو علی محمد بن علی بن مقلہ (272-328ھ) ایک غیر معمولی صلاحیت رکھنے والا فن کار تھا۔ اس نے قدیم عربی خط (خط کوفی) میں اصلاحات کر کے اس کو حسین اور جامع بنانے میں کامیابی حاصل کی ۔ ابتدا میں وہ عباسی حکومت کے ایک دفتر میں چھ دینا ر ماہوار پر منشی تھا۔ پھر اس کا فنی کمال اس کو خلیفہ کے دربار تک لے گیا۔ یہاں اس نے اتنی مقبولیت حاصل کی کہ مسلسل تین بادشاہوں کا وزیر بنتا رہا۔ اولاً مقتدر بالله عباسی (282-328ھ)کا، پھر اس کے بھائی قاہر بالله (322-329ھ) کا اس کے بعد راضی باللہ (297-329ھ) کا۔ واضح ہو کہ ’’وزیر‘‘ قدیم زمانے میں وزیر اعظم کے ہم معنی ہوتا تھا۔ کیونکہ بادشاہ کا صرف ایک وزیر ہوتا تھا اور اس کو سارے اختیارات حاصل ہوتے تھے ۔مقتدر باللہ کے ابتدائی زمانے میں حامد بن عباس وزیر تھا۔ اس کے ساتھ اس نے علی بن عیسی الجراح کو نائب وزیر بنایا تو لوگوں کو سخت تعجب ہوا ۔ ایک شاعر کی نظم کا ایک شعر یہ ہے:
أَعْجَبُ مِنْ كُلِّ مَا رَأَيْنَا أَنْ يَكُونَ وَزِيرَین فِي بِلَادٍ
سب سے عجیب بات جو ہم نے دیکھی وہ یہ کہ ایک ملک میں دو وزیر ہیں
ابن مقلہ کے یہ مناصب اس کے فن کی ترقی میں بے حدمدد گار ہو سکتے تھے۔ اگر ان ملے ہوئے مواقع کو وہ فن تحریر اوراس سلسلے کی دوسری چیزوں کی ترقی اور تحقیق میں لگاتا تو نہ صرف یہ کہ عربی رسم الخط بہت پہلے اپنے معراج کمال کو پہنچ جاتا، بلکہ ہوسکتا ہے کہ تحریر اور کتاب کے میدان کی بہت سی دوسری ایجا دیں جو اس کے بہت بعد سامنے آئیں اسی کے زمانے میں وجود میں آگئی ہوتیں۔ مثال کے طور پر کا غذ ابن مقلہ سے آٹھ سو برس پہلے 105ء میں چین میں ایجاد ہوا ۔ اس کا ایجاد کرنےوالا سائی لون (Cai Lun) تھا جو ابن مقلہ کی طرح چینی شہنشاہ ہوٹی کا وزیر تھا۔ روسی ترکستان میں عربوں اور چینیوں کی جنگ میں کچھ چینی قیدی جو مسلمانوں کے ہاتھ آئے وہ کاغذ بنانا جانتے تھے۔ سمرقند میں ان سے کاغذ بنوایا گیا۔ اس کے بعد 795 ءمیں دستی کاغذ کی صنعت بغداد میں قائم ہوئی ۔ تاہم مشین کے ذریعے کاغذ بنانے کا کام پہلی بار 1750ءمیں ہالینڈ میں کیا گیا۔ مسلسل رول کی شکل میں کاغذ بنانے کی صنعت 1798ء میں فرانس میں شروع ہوئی ۔ اسی طرح پر نٹنگ پریس پہلی بار غالباً چینیوں نے 770ء میں دریافت کیا۔ یہ ابن مقلہ (885-940ء) کی پیدائش سے 115 سال پہلے کا زمانہ تھا۔ پرنٹنگ کا قدیم ترین نمونہ اس سے بھی پہلے پانچوں صدی عیسوی کا چین میں دریافت ہوا ہے ۔ یورپ میں ترقی یافتہ پرنٹنگ پریس 15 ویں صدی میں گوٹن برگ نے بنایا اور بائبل چھاپی۔ تاہم مسلم دنیا میں پرنٹنگ پریس نپولین کے ذریعے 1798ء میں پہلی بار مصر پہنچا۔
ابن مقلہ جو نہ صرف فن تحریر کا ماہر تھا بلکہ حیرت انگیز تخلیقی صلاحیت رکھتا تھا ۔ اگر وہ اپنی خدا داد صلاحیتوں کو اپنے میدان میں لگاتا تو کاغذ اور چھپائی اور اس طرح کی دوسری نعمتیں جو عالم اسلام کو بہت بعد کو ملیں، شاید ابن مقلہ کے زمانہ ہی میں اس کو مل چکی ہو تیں ۔ مگر وہ اس پر قانع نہ رہ سکا کہ اپنے آپ کو مخصوص میدان میں محدود رکھے ۔ وزارت کے ملے ہوئے مواقع کو وہ تحریر اور کا غذا اور چھپائی کی ترقی میں استعمال کر سکتا تھا۔ اس کے برعکس، اس نے ان مواقع کو عزت و ناموری کی طرف چھلانگ لگانے کے لیے ایک زینہ کے طور پر استعمال کیا۔ ابن مقلہ جب وزیر کے منصب پر پہنچ گیا تو اس کے ساتھ وہی حادثہ ہوا جس سے وہ لوگ بہت کم بچتے ہیں، جن کو حالات کسی بلند مقام پر پہنچا دیں ۔ اس کے فنّی حوصلے اب سیاسی عزائم میں تبدیل ہو گئے۔ خاموش تعمیری کاموں میں مشغول رہنے کے بجائے وہ سیاسی اور فوجی تحریکوں کا لیڈر بن گیا، اس نے یہ منصوبہ بنایا کہ خلیفہ قاہر باللہ کو تخت سے اتار کر ابواحمد بن مکتفی کو عباسی سلطنت کا حکمراں بنا یا جائے۔
راز کھل گیا ۔ ابن مقلہ پر یہ الزام لگا کہ اس نے فوجی سردار مونس خادم کے ساتھ مل کرقا ہر باللہ کی حکومت کو ختم کرنے کی سازش کی تھی۔ سازش کے انکشاف کے بعد ابن مقلہ کا گھر جلوا دیا گیا۔ ابو احمد بن مکتفی کو دیوار میں چن دیا گیا۔ تاہم ابن مقلہ کی ذہانت اس کے کام آئی۔ وہ فرار ہو کر بچ گیا اور اس کے بعد پانچ لاکھ دینار خلیفہ کو نذر کر کے دوباره وزارت حاصل کرلی۔ مگر اس کے سیاسی عزائم نے دوبارہ اس کے لیے مسائل پیدا کیے۔ یہاں تک کہ راضی باللہ نے اس کو وزارت سے معزول کر کے اس کے گھر میں نظر بند کر دیا اور اس کا دایاں ہاتھ کٹوا دیا۔ بلا شبہ یہ ایک سخت ترین سزا تھی جو کسی فن کار کو دی جاسکتی تھی۔ گھر کی قید میں جو اشعار وہ پڑھا کرتا تھا۔ اس میں سے ایک شعر یہ تھا:
لَيْسَ بَعْدَ الْيَمِينِ لَذَّةُ عَيْشٍ يَا حَيَاتِي بَانَتْ يَمِينِي فَبِينِي
دایاں ہاتھ کٹ جانے کے بعد زندگی میں کوئی لطف نہیں، اے میری زندگی جب میرا دایاں ہاتھ مجھ سے جدا ہو گیا تو تو بھی جدا ہو جا۔(البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر، جلد 12، صفحہ 140 )
ابن مقلہ کی غیر معمولی صلاحیت کا اندازہ اس سےکیا جا سکتا ہے کہ جب اس کا دایاں ہاتھ کٹ گیا تو اس نےبائیں ہاتھ سے لکھنے کی مشق کی۔ یہاں تک کہ بائیں ہاتھ سےبھی وہ اتناہی اچھا لکھ لیتا تھا، جیسا وہ دائیں ہاتھ سےلکھتا تھا۔ پھر اس نے اپنے کٹے ہوئے ہاتھ میں ایک قلم باندھا اور اس سے لکھنے لگا۔ کہا جاتا ہے کہ ہاتھ کٹنے سےپہلے کے خط اور ہاتھ کٹنے کے بعد کے خط میں کوئی تمیز نہیں کر سکتا تھا۔ یہ باکمال انسان اپنے گھر کے قید خانے میں56 سال کی عمر میں مر گیا ۔
ابن مقلہ شاعر بھی تھا۔ اس نے اپنے کٹے ہوئے ہاتھ کےماتم میں بہت سے اشعار موزوں کیے۔ وہ کہتا تھا: ’’ وہ ہاتھ جس نے قرآن کے فلاں فلاں نسخے لکھے، جس نے رسول اللہؐ کی فلاں فلاں حدیثیں لکھیں، جس نے مشرق و مغرب میں احکام لکھ کر بھیجے وہ چوروں کے ہاتھ کی طرح کاٹ دیا گیا ‘‘۔
ماضی کے ابن مقلہ کو تاریخ معاف کر سکتی ہے، مگر حال کے ’’ابن مقلہ‘‘ جو اپنے مناصب کو تعمیری جدو جہد میں نہیں لگاتے بلکہ اشتہاری قسم کے ذاتی عزائم میں اپنے قیمتی مواقع کوبر باد کرر ہے ہیں۔ ان کے پاس دوسری بار اس اندوہناک غلطی میں مبتلا ہونے کا کیا عذر ہے۔ کیا انھیں یاد نہیں کہ مومن کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ وہ ایک بل سے دوبارنہیں ڈسا جاتا۔ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6133)
یہ ایک حقیقت ہے کہ بہترین صلاحیتیں ہمیشہ سیاسی عزائم میں برباد ہوئی ہیں۔ سیاست بازی کے کام میں عام طور پر وہی لوگ حصہ لیتے ہیں، جو قدرت سے اعلیٰ صلاحیت لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ وہ اپنی اعلی صلاحیت کو کسی تعمیری خدمت میں لگانے کے بجائے سیاسی حکمرانوں کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں بے شمار انسانی جانیں ضائع ہوئی ہیں ۔ بے شمار اقتصادی وسائل بر باد ہوتے ہیں۔ اور عملاً اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا کہ کچھ لوگوں کو لیڈرا نہ شہرت حاصل ہو جائے اور عوام کے حصہ میں صرف یہ نتیجہ آئے کہ ایک ’’ ظالم ‘‘ کی جگہ دوسرا ’’ظالم‘‘ تخت سلطنت پر بیٹھ گیا ہو۔ تاریخ میں کوئی مثال نہیں ہے کہ مقابلہ آرائی کی سیاست سے کبھی کوئی حقیقی نتیجہ برآمد ہوا ہو۔ قوم کو اٹھانے کا راز یہ ہے کہ قوم کے رہنما اپنے سیاسی جھنڈے کو نیچا کر لیں ۔ انفرادی حوصلوں کا ’’بیج‘‘ جہاں زمین میں دفن ہوتا ہے، وہیں سے قومی مستقبل کا شاندار درخت اگتا ہے ۔ آج ہماری تاریخ کو اسی قسم کی ’’شہادت‘‘ کا انتظار ہے۔
