متحدہ محاذ کی سیاست

یہ دوسری صدی ہجری کے وسط کا واقعہ ہے ۔ لوگ بنی امیہ کے مظالم سے تنگ آچکے تھے اور ہر صبح شام ایک نئی حکومت کے منتظر تھے، جس کی ایک روایت کے مطابق آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی فرمائی تھی ۔ دوسری طرف ہاشمی (یاعباسی) خاندان کے کچھ لوگ بنی امیہ کے کھنڈر پر اپنی شاہی عمارت اٹھانے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ اس صورت حال نے ایک طرف عوام اور دوسری طرف عباسی حوصلہ مندوں کے لیے ایک مشترک نقطہ فراہم کر دیا— بنی امیہ کا خاتمہ ۔ اگرچہ مظلوم عوام کے لیے اس کا محرک کچھ اور تھا اور عباسی حوصلہ مندوں کے لیے کچھ اور۔

 اس مشترکہ جد و جہد کے نتیجہ میں 132 ھ میں خلافت بنو امیہ کا خاتمہ ہوگیا اور سفاح تخت نشین ہوا ، جو عباسیوں کا پہلا خلیفہ تھا۔ سفاح کے بعد اس کا بھائی ابو جعفر منصور خلیفہ ہوا ۔ 136 ھ میں اس کے ہاتھ پر بیعت ہوئی ۔ بنو امیہ کے آخری زمانہ میں جو لوگ ان کے خلاف تحریک چلا رہے تھے ان میں محمد بن عبد الله (نفس زکیہ) اور ان کے بھائی ابراہیم بن عبد اللہ خاص طور پر مشہور ہیں۔ یہ لوگ امام حسن ابن علی ؓ کی اولاد سے تھے ۔

بنو عباس جو نسلی وجوہ سے اپنے آپ کو خلافت کا مستحق سمجھتے تھے اور اموی سلطنت کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ جب انھیں مذکورہ بالا دونوں بھائیوں کی خفیہ تحریک کا علم ہوا تو وہ ان سے مل گئے۔ حتیٰ کہ خود المنصور (جو بعد کو خلیفہ ہوا)نے نفس زکیہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اموی سلطنت ختم ہوئی اور عباسی سلطنت اس کی جگہ قائم ہوگئی۔ مگر صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ مظالم اور زیادہ بڑھ گئے، حتیٰ کہ شاعر کو کہنا پڑا :

فَمَهْلًا يَا بَنِي العَبَّاسِ مَهْلًا                 لَقَدْ كُوِيَتْ بِغَدْرِكُمُ الصُّدُورُ

اے بنی عباس اپنا ظلم چھوڑ دو تمھاری غداری سے سینے داغدار ہو چکے ہیں۔

چنانچہ نفس زکیہ اور ان کے بھائی دونوں روپوش ہو گئے، اور جو ’’ انقلابی تحریک‘‘ پہلے وہ بنی امیہ کے خلاف چلا رہے تھے، اس کو اب بنو عباس کے خلاف چلانے لگے۔ یہاں تک کہ موقع پا کر انھوں نے خروج (سلطنت سے بغاوت) کا اعلان کر دیا اور مدینہ میں اپنی آزاد حکومت قائم کرلی۔ اس کے بعد ان کا جو انجام ہوا وہ یہ کہ نفس زکیہ 145 ھ میں مارے گئے اور ان کا سر منصور کے دربار میں پیش کیا گیا ۔ وہی منصور جس نے ان کے ہاتھ پر نوجوانی کی عمر میں بیعت کی تھی ۔

 عباسی سلطنت کے قیام سے پہلے نفس زکیہ کی تحریک اور عباسی تحریک دونوں کا مشترک دشمن ایک تھا ۔یعنی بنوامیہ ۔مگر جب عباسی تحریک نے بنو امیہ کی تحریک کو ختم کرنے میں کامیابی حاصل کرلی، اور عباسی سلطنت قائم ہوگئی تو اب صورت حال بدل گئی ۔ اب عباسی سلطنت کے لیے نفس زکیہ دشمن کی حیثیت رکھتے تھے ۔ کیوں کہ وہ موجودہ عباسی سلطنت سے بھی مطمئن نہیں تھے۔وہی المنصور جو ’’انقلاب‘‘ سے پہلے نفس زکیہ کا حلیف تھا، اب ان کا دشمن بن گیا۔ اس نے ان کی تحریک کو ختم کرنے میں اتنی سرگرمی دکھائی کہ دو مہینے تک لباس نہیں بدلا اور بستر پر نہیں سویا۔ اس کو اس وقت تک چین نہیں آیا جب تک اس نے اس تحریک کو ختم نہ کر لیا۔

تاریخ کا یہ تجربہ ایک ہزار سال پہلے پیش آچکا تھا جو بتا رہا تھا کہ مختلف محرکات رکھنے والے لوگ جب کسی مقصد کے لیے متحدہ محاذ بناتے ہیں تو اس کا فائدہ ہمیشہ اس فریق کو حاصل ہوتا ہے جو زیادہ زور آور اور ہوشیار ہو— مگر عجیب بات ہے کہ اس تجربہ سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا اور لوگ بار بار اسی ناکام تجربہ کو دہراتے رہے ۔

جمال الدین افغانی (1838-1897ء) نے مصر میں احیائے ملت کا علم بلند کیا۔ انھوں نے اس مقصد کے لیے قوم پرستوں کی ایک انجمن ’’الحزب الوطنی ‘‘ کے نام سے قائم کی جس کے ممبروں کی تعداد کافی وسیع تھی۔ اس میں شیخ محمد عبدہ ، سعد زاغلول پاشا، عبداللہ نسیم بے اور احسان بے جیسے ممتاز لوگ شامل تھے۔ مصرمیں جمال الدین افغانی کا اثرو رسوخ اتنا بڑھا کہ وہاں کی با اثر جماعت ’’جمعیت ما نوسیہ‘‘ نے ان کو اپنا صدر نامزد کیا ۔ یہاں تک کہ وہ وقت بھی آیا جب جمال الدین افغانی کی انجمن کا ایک خفیہ رکن توفیق پاشا مصر کے تخت حکومت پر متمکن ہوگیا۔ اگرچہ اس کامیابی میں فرانس اور برطانیہ کا زیادہ ہاتھ تھا۔ اس واقعہ کے بعد جمال الدین افغانی اور ان کے ’’قوم پرست‘‘ ساتھی بہت خوش ہوئے ۔ انھیں نظر آیا کہ ان کی دیرینہ آرزوئیں اور تمنائیں پوری ہو رہی ہیں ۔ مگر بہت جلد معلوم ہوا کہ یہ محض سراب تھا— توفیق پاشا نے تخت پر بیٹھتے ہی جمال الدین افغانی اور ان کے مخصوص خادم ابو تراب کو مصر سے جلا وطنی کا حکم دے دیا۔ توفیق پاشا، سید جمال الدین افغانی کی خفیہ مجلسوں میں شریک ہو چکا تھا ، اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ یہ لوگ امپیر یلزم کے شدید مخالف ہیں۔ چوں کہ توفیق پاشا کو انھیں امپیریلسٹ طاقتوں (فرانس اور برطانیہ) کی حمایت سے کام کرنا تھا، اس لیے اس نے مصر میں ان کی موجودگی کو حکومت کے لیے ایک خطرہ سمجھا۔ اس نے فوج اور پولس کی کڑی نگرانی میں جمال الدین افغانی اوران کے خادم کو سوئز بھیج دیا اور وہاں انہیں بجبر کشتی پر سوار کرکے روانہ کر دیا گیا۔

عجیب بات ہے کہ صرف نصف صدی بعد اسی حصہ میں ٹھیک اسی غلطی کو دوبارہ اس سے زیادہ بری شکل میں دہرایا گیا ۔ 1952ء میں جب مصر میں شاہ فاروق کی حکومت کا تختہ الٹ گیا اور فوجی افسروں نے ملک میں حکومت قائم کر لی تو ایک صاحب مجھ سے ملے ۔ ’’مولانا ...... مصر جانے کا پروگرام بنا رہے ہیں ۔ ‘‘ انھوں نے بہت راز دارانہ اندازمیں کہا۔

’’کیوں خیریت تو ہے‘‘ میں نے پوچھا۔

’’ یہ جو مصر میں انقلاب ہوا ہے، بظاہر لوگ سمجھتےہیں کہ یہ فوجی انقلاب ہے، مگر حقیقتاً اخوانی اس انقلاب کے ہیرو ہیں ۔ اب مصرمیں اخوان المسلمین کی حکومت ہوگی ، مولانا اس لیے جانا چاہتے ہیں کہ اس نازک اور تاریخی موقع پراخوانی لیڈروں کو نصیحت کریں اور اسلامی نظام کی تعمیر کے لیے انھیں مفید مشورے دیں‘‘ ۔

یہ واقعہ ہے کہ مصر میں جو فوجی افسر انقلاب لائے تھے ان میں ایسے بھی تھے جن کے اخوان المسلمین سے تعلقات تھے۔ وہ اخوانی تحریک کی تائید کرتے تھے۔ حتیٰ کہ خود جمال عبد الناصر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ اخوانیوں کے اجتماعات میں شریک ہوتے تھے۔ موجودہ صدر سادات کا بیان ہے کہ فوجی افسروں کی ’’انقلابی کونسل‘‘ نے ان کو مامور کیا تھا کہ وہ اخوانیوں سے رابطہ قائم کریں اور انقلابی جد و جہد کے سلسلہ میں ان کی تائید حاصل کریں ۔ چنانچہ جس رات کو شاہ فاروق کی حکومت کا تختہ الٹا گیا ہے۔ اخوانی رضا کار قاہرہ کی سڑکوں پر پہرہ دینے میں مشغول تھے ۔ وہ ان خفیہ باتوں کے بھی راز دار تھے جن میں شاہ فاروق کو تخت سے معزول کرنے کی اسکیم بنائی گئی تھی ۔

’’جب اخوان المسلمین اور فوجی افسروں کے اشتراک سے مصر میں انقلاب آیا تھا تو کیوں ایسا ہوا کہ فوجی افسروں نے بر سراقتدار آنے کے بعد اخوانیوں کو ختم کر دیا ۔ ‘ ‘ یہ سوال اکثر لوگوں کو پریشان کرتا ہے ۔ جواب بالکل سادہ ہے۔ یہ ’’اشتراک ‘‘ اسی قسم کی ایک غلطی تھی جس کانمونہ اوپر کی مثالوں میں آپ دیکھ چکے ہیں۔

شاہ فاروق کی فوج کے کچھ جو نیرافسر فاروق کی قبر کے اوپر اپنی حکمرانی کا تخت بچھانے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ مگر انھیں شبہ تھا کہ وہ تنہا اپنے اس خواب کو عملی شکل دے سکتے ہیں۔ دوسری طرف اخوان المسلمین مصر میں اسلامی طرز کی حکومت قائم کرنے کے خواہش مند تھے۔ مگر ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ اپنی اس تمنا کو کس طرح واقعہ بنائیں — دونوں کی راہ کی رکاوٹ بظاہر صرف ایک چیز تھی ، شاہ فاروق کی حکومت ۔ اس صورت حال نے دونوں گروہوں کے لیے ایک مشترک نقطۂ اتحاد فراہم کر دیا۔ باہم ملاقاتیں اور دوستیاں شروع ہوگئیں ۔ خفیہ مجالس میں شاہ کے خلاف اسکیمیں بننے لگیں ۔ دونوں خوش ہو گئے کہ مقصد کے حصول کا قریبی موقع ہاتھ آگیا ہے۔

مگر جب حکومت بدلی تو فطری طور پر وہ ان لوگوں کے ہاتھ میں چلی گئی، جو زیادہ ہو شیا را ور عملی طور پر حکومت سے قریب تر تھے، اور اتفاق سے یہ وہی لوگ تھے جن کو اسلامی یگانگت سے زیادہ ذاتی حوصلوں کی تکمیل کے شوق نے فریق ثانی سے قریب کیا تھا۔ انقلاب کے بعد انھیں محسوس ہوا کہ ان حوصلوں کی تکمیل میں پہلے جہاں شاہ فاروق کی شخصیت حائل تھی، وہاں اب یہ ’’ قدیم دوست‘‘ آکر کھڑے ہو گئے ہیں یا کم از کم کھڑے ہو سکتے ہیں۔ حل بہت آسان تھا۔ پہلے کے فوجی افسراب ملک کے حکمراں بن چکے تھے۔ انھوں نے اپنے قدیم دوستوں کو اس سے بھی زیادہ بے دردی کے ساتھ اپنی راہ سے ہٹا دیا جس کا مظاہرہ انھوں نے شاہ فاروق کی معزولی کے وقت کیا تھا۔

اسی اتحادی سیاست کو مزید بدتر شکل میں پاکستان میں دہرایا گیا ہے ۔ 1951 میں پاکستان میں فوجی انقلاب ہوا اور صدر ایوب کی ڈکٹیٹر شپ ملک میں قائم ہو گئی ۔ یہ صورت حال ملک کے بہت سے لوگوں کے لیے پریشان کن تھی ۔ ان میں ایک طبقہ ’’اسلام پسند‘‘ حضرات کا تھا۔ یہ لوگ پاکستان میں اسلامی نظام لانے کے علم بردار تھے اور صد ایوب اور ان کی ’’بنیادی جمہوریت‘‘ ان کے نزدیک اس راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ تھی ۔ دوسرا گروہ ’’سیکولر اور سوشلسٹ‘‘ ذہن رکھنے والوں کا تھا۔ ان کو بھی یہی محسوس ہو رہا تھا کہ ’’بنیادی جمہوریت‘‘ کے ہوتے ہوئے وہ ملک کے اقتدار پر قبضہ نہ کر سکیں گے ۔ اس لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اس کو ختم کیا جائے ۔ دونوں گروہ آخری منزل کے بارے میں ایک دوسرے سے مختلف نقطۂ نظر رکھتے تھے ۔ تاہم دونوں محسوس کرتے تھے کہ ’’صدر ایوب‘‘کی ذات دونوں کے لیے یکساں رکاوٹ ہے ۔ اشتراک کی اس منفی بنیاد نے دونوں کو ایک متحدہ سیاسی پلیٹ فارم پر یک جا کر دیا۔ اور پھر دونوں نے مل کر ملک میں وہ طوفان مچایا کہ خود ملک دو ٹکڑے ہو کر رہ گیا۔ یہ متحدہ محاذ جو بڑے بڑے وعدوں کے ساتھ بنایا گیا تھا، جب اپنے آخری انجام کو پہنچا تومعلوم ہوا کہ اس کا سارا فائدہ سیکولرزم اور سوشلزم کے علم برداروں کے حصہ میں آیا ہے، اور اسلام پسند گروہ کو اس کے سوا کچھ نہیں ملاکہ ساری طاقت خرچ کر کے سیاست کے صحرا میں ’’مَلُو ما مَدْ حُورًا‘‘بنے رہیں ۔

 اب اسی نا دان سیاست کو ہندوستان کے کچھ مسلم قائدین نے اس ملک میں درآمد کیا ہے ۔ وہ معاہداتی سیاست کے نعرے لگا رہے ہیں۔ الیکشن کے موقع پر وہ ایک سیاسی پارٹی سے مل کر دوسری پارٹی کو شکست دیتے ہیں۔ مگر قوم کے بے شمار و سائل کو خرچ کرنے کے بعد ان کے حصہ میں جو آخری چیز آئی ہے وہ صرف یہ کہ    ’’الیکشن‘‘ کے بعد جب لوگ اسمبلیوں پر قبضہ کرلیں، اور وزارتیں بنالیں تو ہمارے لیڈر اسٹیج پرنمودار ہوکر یا پریس کانفرنس کرکے یہ انکشاف کریں کہ جیتنے والوں نے ہم سے فلاں فلاں وعدے کیے تھے، جو پورے نہیں کیے گئے ۔ 1966 کے الیکشن میں معاہداتی سیاست کے رہنماؤں نے دوسری پارٹیوں کے ساتھ مل کر ریاستوں میں حکمراں کانگریس کو شکست دی ۔ 1977 کے الیکشن میں اندراگاندھی کی شکست کے بعد ایک مسلم رہنما نے کہا ’’آج ہم نے ظلم کا بیڑا غرق کر دیا‘‘۔ مگران فتوحات کے باوجود اصل صورت حال آج بھی ویسی ہی ہے جیسی کہ وہ پہلے تھی ۔

سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک ہی غلطی کو ہم کب تک دہراتے رہیں گے ۔ اصل سیاست یہ ہے کہ خود اپنے آپ کو طاقتوراور مستحکم بنایا جائے ۔ سیاسی اشتراک یا متحدہ محاذ ہمیشہ اس فریق کے لیے مفید ہوتا ہے، جو دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ فیصلہ کن پوزیشن کا حامل ہو۔ اندرونی کمزوری اور انتشار کو درست کرنے سے پہلے متحدہ محاذ کی طرف دوڑ نا نادانی کےسوا اور کچھ نہیں۔( اگست 1972)

اس سلسلہ میں اسلام کا اصول یہ ہے کہ جہاں تک جزئی امور میں تعاون کا تعلق ہے ۔ اس قسم کا تعاون ہر ایک سے لیا جا سکتا ہے، حتیٰ کہ کافر و مشرک سے بھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے نازک سفر میں عبداللہ بن اریقط کو ر ہنما بنایا جو کہ مشرک تھا ۔ صفوان بن امیہ آپ کے ساتھ غزوۂ حنین میں شریک ہوئے۔ حالاں کہ اس وقت تک وہ مشرک تھے۔ امام زہری نے روایت کیا ہے:

إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعَانَ بِنَاسٍ مِنَ الْيَهُودِ فِي حَرْبِهِ فَأَسْهَمَ لَهُمْ (سنن سعيد بن منصور، حدیث نمبر 2790)۔ یعنی، رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے بعض یہودیوں سے جنگ کےموقع پر مددلی تو ان کے لیے مال غنیت میں حصہ مقر رکیا۔

مگریہ جزئی اور انفرادی تعاون کی مثالیں ہیں ۔ کلی جدو جہد کے سلسلہ میں کبھی اغیار پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ خاص طور پر وہ جد و جہد جو غیر ’’صالح حکمراں ‘‘ کو ہٹا کر اس کی جگہ ’’صالح حکمراں‘‘ کو لانے کے لیے کی جائے۔ اس قسم کی سیاسی جدوجہد تمام تر جماعت صالحہ کی اپنی طاقت پر ہونا چاہیے۔ کوئی جماعت صالح اگر اپنے بل پر انقلاب لانے کی پو زیشن میں نہ ہو تو اس کا غیر سیاسی دائرہ عمل میں کام کرنے پر قانع رہنا، اس سے بہتر ہے کہ وہ غیر صالح عناصر کو لے کر عملی سیاست کے میدان میں کود پڑے۔ یہ غیر صالح عناصر اپنے مزاج کی بناپر ایسا کبھی نہیں کرسکتے کہ ’’غیر صالح حکمراں‘‘ کو بے دخل کرنے کے بعد اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں، اور خالی شده تخت کو تمام تر جماعت صالحہ کے حوالے کر دیں۔ وہ لازماً یہ چاہیں گے کہ تخت پر خود قبضہ کریں۔ اس وقت ’’متحدہ محاذ ‘‘  کے اندر ہا ہمی کش مکش شروع ہوگی، جو یقینی طور پر غیر صالح عناصر کے غلبہ پرختم ہوگی۔ ساری تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom

Ask, Learn, Grow

Your spiritual companion