اقدام سے پہلے تحقیق ضروری
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ 24 ھ میں خلیفہ منتخب ہوئے اور 35 ھ میں آپ کو شہید کر دیا گیا جب کہ آپ کی عمر 82 سال تھی ۔ امام مسلم عائشہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے مکان میں لیٹے ہوئے تھے۔ آپ کی پنڈلیاں کھلی ہوئی تھیں۔ اتنے میں ابو بکر آئے ، آپ اسی حال میں لیٹے رہے اور باتیں کیں۔ پھر عمرؓ آئے۔ آپ اب بھی اسی طرح لیٹے رہے اور باتیں کیں۔ اس کے بعد عثمانؓ آئے ۔ اب آپ اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے کو ٹھیک کر لیا۔ جب تینوں چلے گئے تو میں نے عرض کیا ۔ اے خدا کے رسول ! ابو بکر آئے آپ نہیں اٹھے۔ عمرؓ آئے پھر بھی آپ اسی طرح رہے۔ مگر عثمان آئے تو آپ اُٹھ گئے اور اپنے کپڑے کو درست کر لیا ۔ آپ نے فرمایا عثمان سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں ۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2401)
امام ترمذی عبدالرحمن بن خباب سے روایت کرتے ہیں کہ میں اس وقت مدینہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا، جب کہ آپ جیش عسرہ (تبوک) کی تیاری کے لیے لوگوں کو ابھار رہے تھے ۔ عثمان بن عفان کھڑے ہوئے اور کہا: ’’اے خدا کے رسول ، ایک سو اونٹ مع کجاوہ اور پالان کے میں خدا کے راستہ میں دیتا ہوں‘‘۔ آپ نے پھر لوگوں کو ابھارا ۔ عثمان بن عفان دوبارہ کھڑے ہوئے اور کہا، ’’ دو سو اونٹ معہ کجاوہ اور پالان کے اللہ کے راستہ میں‘‘۔ آپ نے پھر لوگوں کو ابھارا ۔ عثمان بن عفان تیسری بارکھڑے ہوئے اور کہا ، اے خدا کے رسول ’’تین سوا ونٹ مع کجاوہ اور پالان کے اللہ کے راستہ میں‘‘۔ راوی کہتے ہیں ، میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اتر پڑے ۔ اور آپ کی زبان پر یہ کلمہ جاری تھا :
’’مَا عَلَىٰ عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ هَذِهِ ،مَا عَلَىٰ عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ هَذِهِ‘‘ (سنن الترمذی، حدیث نمبر 4033)۔
اس کے بعد عثمان جو بھی کریں ان پر کوئی مواخذہ نہیں۔ اس کے بعد عثمان جو بھی کریں ان پر کوئی مواخذہ نہیں۔
امام ترمذی انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں۔ حدیبیہ میں جب بیعت رضوان ہوئی، اس وقت عثمان بن عفان رسول اللہ کے سفیر کی حیثیت سے مکہ گئے ہوئے تھے ۔ جب تمام لوگ بیعت ہو چکے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’عثمان اس وقت اللہ اور اس کے رسول کے کام پر ہیں‘‘، پھر آپ نے اپنے ایک ہاتھ کو اپنے دوسرے ہاتھ پر مارا اور خود اپنے ایک ہاتھ سے اپنے دوسرے ہاتھ پر عثمان کے لیے بیعت کی :
فَكَانَتْ يَدُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعُثْمَانَ خَيْرًا مِنْ أَيْدِيهِمْ لِأَنْفُسِهِمْ(صحیح بخاری، حدیث نمبر 3699)۔ یعنی، پس عثمان کے لیے رسول اللہ کا ہاتھ لوگوں کے لیے ان کے اپنے ہاتھ سے بہتر تھا۔
امام ترمذی مرۃبن کعب سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنوں کا حال بیان کیا جو آپ کےبعد آئیں گے۔ اتنے میں ایک صاحب سامنے سے گزرے جو کپڑا لپیٹے ہوئے تھے۔ آپ نے فرمایا : هٰذا يَومَئِذٍ عَلَى الهُدَى یعنی، یہ شخص اس دن حق پر ہوگا۔ میں اٹھ کر ان کے پاس گیا تو معلوم ہوا کہ وہ عثمان بن عفان ہیں۔ (سنن الترمذی، حدیث نمبر 4037) حضرت عثمان نے اپنے مال سے مشکل وقتوں میں اتنی زیادہ اسلام کی مدد کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اللَّهُمَّ إِنِّي قَدْ رَضِيتُ عَنْ عُثْمَانَ فَارْضَ عَنْهُ(مسند احمد،حدیث نمبر441)۔ یعنی، اے اللہ میں عثمان سے راضی ہوں تو بھی اس سے راضی ہو جا۔
ایک بار حضرت عثمان کے ایثار و قربانی سے آپ اتنا خوش ہوئے کہ دعا کا یہ کلمہ دن بھر آپ کی زبان سے نکلتا رہا۔
تاہم یہی عثمان بن عفان تھے جن کے خلاف ان کی خلافت کے بعد کے سالوں میں سارے ممالک اسلامی میں شورش بر پا ہوگئی ۔ اس شورش کے پیدا کرنے میں متعدد مخلص اور مقدس لوگ بھی شریک تھے۔ یہ شورش اتنی بڑھی کہ ہزاروں کی تعداد میں بلوائی مختلف ملکوں سے جمع ہو کر مدینہ میں گھس گئے۔ انھوں نے حضرت عثمان کے مکان کا محاصرہ کر لیا۔ آپ کے گھر میں پانی کا داخلہ روک دیا۔ آپ کے لیے مسجد نبویؐ میں جا کر نماز پڑھنا نا ممکن بنا دیا۔ جب شدت بہت بڑھی تو آپ اپنے مکان کی چھت پر چڑھے اور بلوائیوں کو خطاب کیا :
عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ حَزْنٍ القُشَيْرِيِّ، قَالَ:شَهِدْتُ الدَّارَ حِينَ أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ عُثْمَانُ، فَقَالَ:أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ وَالإِسْلَامِ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم قَدِمَ المَدِينَةَ وَلَيْسَ بِهَا مَاءٌ يُسْتَعْذَبُ غَيْرَ بِئْرِ رُومَةَ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم :مَنْ يَشْتَرِي بِئْرَ رُومَةَ فَيَجْعَلَ دَلْوَهُ مَعَ دِلَاءِ المُسْلِمِينَ بِخَيْرٍ لَهُ مِنْهَا فِي الْجَنَّةِ ؟ فَاشْتَرَيْتُهَا مِنْ صُلْبِ مَالِي فَأَنْتُمُ اليَوْمَ تَمْنَعُونِي أَنْ أَشْرَبَ مِنْهَا حَتَّى أَشْرَبَ مِنْ مَاءِ الْبَحْرِ. قَالُوا:اللَّهُمَّ نَعَمْ. فَقَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللهِ وَالْإِسْلَامِ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ المَسْجِدَ ضَاقَ بِأَهْلِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم :مَنْ يَشْتَرِي بُقْعَةَ آلِ فُلَانٍ فَيَزِيدَهَا فِي المَسْجِدِ بِخَيْرٍ لَهُ مِنْهَا فِي الجَنَّةِ؟ فَاشْتَرَيْتُهَا مِنْ صُلْبِ مَالِي فَأَنْتُمُ اليَوْمَ تَمْنَعُونِي أَنْ أُصَلِّيَ فِيهَا رَكْعَتَيْنِ؟ قَالُوا:اللَّهُمَّ، نَعَمْ. قَالَ:أَنْشُدُكُمْ بِاللهِ وَبِالْإِسْلَامِ، هَلْ تَعْلَمُونَ أَنِّي جَهَّزْتُ جَيْشَ العُسْرَةِ مِنْ مَالِي؟ قَالُوا:اللَّهُمَّ نَعَمْ. ثُمَّ قَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللهِ وَالإِسْلَامِ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ عَلَى ثَبِيرِ مَكَّةَ وَمَعَهُ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَأَنَا فَتَحَرَّكَ الجَبَلُ حَتَّى تَسَاقَطَتْ حِجَارَتُهُ بِالحَضِيضِ قَالَ:فَرَكَضَهُ بِرِجْلِهِ وَقَالَ: اسْكُنْ ثَبِيرُ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ نَبِيٌّ وَصِدِّيقٌ وَشَهِيدَانِ؟ قَالُوا:اللَّهُمَّ، نَعَمْ. قَالَ:اللهُ أَكْبَرُ شَهِدُوا لِي وَرَبِّ الكَعْبَةِ أَنِّي شَهِيدٌ، ثَلَاثًا (سنن الترمذی، حدیث نمبر 3707)۔ یعنی، ثمامہ بن حزن القشیری کہتے ہیں ۔ عثمان بن عفان کے محاصرہ کے وقت، میں ان کے گھر کے پاس موجود تھا ۔ وہ مکان کے اوپرچڑھے اور لوگوں سے کہا: میں تم کو اللہ کی اور اسلام کی قسم دلاتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ آئے اور یہاں صرف ایک (یہودی کا) کنواں بئر رومہ تھا جس سے میٹھا پانی لیا جا سکے (وہ بہت مہنگی قیمت پر فروخت کرتا تھا)۔ رسول اللہ نے کہا: کون بئر رومہ کو خریدتا ہے کہ وہ بھی اس سے پانی لے اور مسلمان بھی پانی لیں۔ جنت میں اس کو اس سے بہتر ملے گا۔ میں نے (35 ہزار درہم) کے عوض اس کو خریدا۔ اور تم مجھ کو اس سے پانی پینے سے روکتے ہو۔ لوگوں نے جواب دیا: خدایا ہاں ۔ پھر عثمان بن عفان نے کہا۔ میں تم کو قسم دلاتا ہوں اللہ کی اور اسلام کی ۔ کیا تم جانتے ہو کہ مسجد نبوی تنگ پڑ گئی تو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کون فلاں زمین کو خرید کر مسجد میں اضافہ کرتا ہے ، جنت میں اس کو اس سے بہتر ملے گا۔ میں نے اس کو اپنے مال سے خریدا ۔ اور تم مجھ کو اس میں دو رکعت نماز پڑھنے سے روکتے ہو۔ لوگوں نے کہا خدایا ہاں ۔ عثمان بن عفان نے کہا اللہ اکبر۔ رب کعبہ کی قسم، تم لوگ گواہ رہو کہ میں شہید ہوں۔
ان سب کے باوجود لوگوں نے حضرت عثمان کو قتل کر دیا۔ اور قتل کرنے والے اور ان کا ساتھ دینے والے سب کے سب نماز روزہ والے تھے۔ اور اپنے کو مکمل معنوں میں مسلمان سمجھتے تھے ۔
خلیفہ سوم کے خلاف اتنا بڑا ہنگامہ کھڑا ہونے کی وجہ کیا تھی، جس نے بالآخر ان کی جان لے لی ۔ مورخین کے بیان کے مطابق یہ ایک چھوٹا سا واقعہ تھا۔ حضرت عثمان کی خلافت کے بارے میں بعض وجوہ سے عوام میں نار اضگی پائی جاتی تھی۔ اسی بیچ میں یہ واقعہ ہوا کہ مصر کے عامل عبد اللہ بن ابی سرح کی زیادتیوں سے اہل مصر کو شکایت ہوئی ۔ لوگ مدینہ آئے اور مطالبہ کیا کہ اس کو معزول کیا جائے ۔ حضرت عثمان نے حضرت علی کے مشورہ سے عبد اللہ بن ابی سرح کو معزول کر دیا ۔ اور محمد بن عبد الرحمن بن ابی بکر کے لیے مصر کی امارت کا فرمان لکھ دیا۔ مصری اس فرمان کو لے کر اپنے ملک کی طرف روانہ ہوئے۔ ان کے ساتھ محمد بن عبد الرحمن بھی تھے۔ راستہ میں انھوں نے دیکھا کہ حضرت عثمان کا غلام خلیفہ کے اونٹ پر سوار ہوکر تیزی سے مصر کی طرف جا رہا ہے ۔ دریافت کرنے پر اس نے بتایا کہ وہ خلیفہ کی طرف سے ایک خط لے کر مصر کے حاکم ( عبداللہ بن ابی سرح) کے پاس جا رہا ہے ۔ انھوں نے زبر دستی کر کے غلام سے خط چھین لیا۔ اس میں لکھا تھا کہ محمداور ان کے ساتھی مصر پہنچیں تو ان کو قتل کر دیا جائے اور تاحکم ثانی عبداللہ بن ابی سرح مصر کا حاکم رہے۔
یہ خط حضرت عثمان کے چچا زاد بھائی مروان بن حکم نے لکھا تھا اور خلافت کی مہر لگا کر اس کو غلام کی معرفت مصر روانہ کر دیا تھا۔ مگر مصریوں نے اس کو خود خلیفہ سوم کی جانب سے سمجھا اور یہ رائے قائم کی کہ ان کے ساتھ غداری گئی ہے کہ ایک طرف تو عبد اللہ بن ابی سرح کی معزولی کا حکم نامہ ہم کو دیا گیا اور دوسری طرف عبد اللہ کو خفیہ خط روانہ کر دیا کہ ان سب لوگوں کو قتل کر دو اور تم اپنے عہدہ پر بحال رہو۔ چنانچہ وہ راستہ سے لوٹ آئے اور اللہ اکبر کے نعروں کے ساتھ دوبارہ مدینہ میں داخل ہو گئے۔ ان کا ردّ عمل اتنا شدید تھا کہ کسی کے سمجھانے بجھانے سے کم نہ ہو سکتا تھا۔ انھوں نے حضرت عثمان کے مکان کو گھیر لیا اور بالآخر انھیں قتل کر ڈالا ۔ اسی لیے قرآن میں حکم دیا گیا ہے کہ جب کوئی خبر ملے تو اس پر کارروائی کرنے سے پہلے خوب تحقیق کر لو :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ (49:6)۔ یعنی، اے ایمان والو ! کوئی شریر آدمی تمھارے پاس خبر لائے توخوب تحقیق کرو۔ ایسا نہ ہو کہ تم نادانی سے کسی قوم پرجا پڑو پھر تم کو اپنے کیے پر پچھتانا پڑے۔
اس آیت کا شان نز ول یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولید بن عقبہ بن ابی معیط کو قبیلۂ بنی المصطلق کی زکوٰۃقبول کرنے کے لیے بھیجا۔ قبیلہ کے لوگ ان کی آمد کو سن کر ان کے استقبال کے لیے نکلے ۔ ولید کی اس قبیلہ سے زمانہ جاہلیت میں کچھ شکایت تھی ، وہ سمجھے کہ یہ لوگ میرے قتل کے لیے نکلے ہیں، اس لیے وہ بستی میں داخل ہونے سے پہلے مدینہ واپس آگئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ قبیلہ کے لوگ میرے قتل کے درپے ہو گئے اور زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا۔ آپ نے ارادہ کیا کہ ان کی سرکوبی کے لیے حضرت خالد کی سرکردگی میں ایک فوجی دستہ روانہ کریں۔ اسی درمیان میں قبیلہ بنی المطلق کے سردار حارث بن ضرار آگئے جو ام المومنین جویریہ کے والد بھی تھے۔ انھوں نے بتایا کہ ہم نے زکوٰۃ جمع کر رکھی تھی مگر ولید بن عقبہ ہمارے یہاں پہنچے ہی نہیں۔ ہم توا سلام پر قائم ہیں اور اللہ کے حقوق اداکرنے کے لیے تیار ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر، جلد7، صفحہ 370) اس پرحکم دیا گیا کہ جب کسی کے متعلق کوئی خبر ملے توکاروائی کرنےسے پہلے پوری تحقیق کرلو۔ ایسانہ ہوکہ خبر غلط ہواوراس کی بنا پرغلط اقدام کر بیٹھو۔
