حقیقی جدو جہد کیا ہے

جدو جہد نام ہے اپنے آپ کو خدا کے منصوبہ میں شامل کرنے کا۔

ہندستان میں مغربی قوموں کے لیے داخلہ کا راستہ سب سے پہلے واسکوڈی گاما (1460-1524) نے پیدا کیا۔ اس کے بعد پرتگالی اور فرانسیسی قومیں اس ملک کے ساحلی علاقوں میں داخل ہوئیں ۔ آخر میں انگریز آئے اور ڈیڑھ سو برس کے اندر انھوں نے پورے برصغیر پر قبضہ کر لیا۔ ہند، پاکستان، بنگلہ دیش ، سیلون، بر ما، تبت، نیپال، سب انگریز کے جھنڈے کے نیچے آگئے۔ ہندستان پر اپنے قبضہ کو دائمی بنانے کے لیے انھوں نے نہر سوئز پرقبضہ کیا اور اس کے بیشتر حصے مہنگی قیمت پر خرید لیے۔

انگریزوں نے نہ صرف ہندستان کی سیاست اور معیشت پر قبضہ کیا، بلکہ یہاں کی سرکاری زبان بدل دی۔تعلیمی نظام ایسا بنایا جس سے ایسی نسل پیدا ہو جولارڈ میکالے کے الفاظ میں ’’پیدائش کے اعتبار سے ہندستانی اور خیالات کے اعتبار سے انگریز ہو‘‘۔ عیسائی مشنریوں نے حکومت کی مدد سے مسلح ہو کر پورے ملک کو عیسائی بنانے کا کام شروع کر دیا ۔ اس طرح ایک ایسی حکومت جس کی وسعت اتنی زیادہ تھی کہ ’’اس کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا‘‘۔ اپنے تمام وسائل اور تہذیبی طاقت کے ساتھ ملک کے اوپر چھا گئی اور اپنے اقتدار کو مستقل بنانے کے لیے وہ سب کچھ کیا جو اس مادی دنیا میں اور وہ بھی آج کے ترقی یافتہ دور میں کوئی کر سکتا ہے۔

مگر اگست 1947 کا انقلاب بتاتا ہے کہ بات وہیں ختم نہیں ہو جاتی جہاں کوئی اپنے طور پر اسے ختم سمجھ لیتا ہے ۔ کوئی قوم خواہ کتنے ہی بڑے پیمانہ پر دوسری قوم کے اوپر غالب آجائے، پھر بھی کچھ ایسے گوشے باقی رہتے ہیں جہاں سے جدو جہد کر کے دبی ہوئی قوم دوبارہ نئی زندگی حاصل کرلے پھر اس انقلاب ہی کی تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ یہ کام محض جھنجھلاہٹ کے ساتھ سر ٹکرانے سے نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے ضرورت ہے کہ حالات کو گہرائی کے ساتھ سمجھا جائے اور حریف کے اس نازک گوشہ کو تلاش کیا جائے جہاں سے مؤثر جد و جہد کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔ خدا نے اپنی دنیا کو اس ڈھنگ پر بنایا ہے کہ یہاں ہر بار گرنے کے بعد اس کے بندوں کے لیے دوبارہ ابھرنے کا ایک نیا امکان باقی رہے۔ مگر یہ امکان اسی کے لیے واقعہ بنتا ہے جو اپنے آپ کو خدائی اسکیم کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے تیار ہو۔ جو اپنی خود ساختہ راہوں پر دوڑ نا شروع کر دے، اس کے لیے خدا کی اس دنیا میں ابدی بر بادی کے سوا اور کچھ نہیں ۔

☆☆

گھڑی کی سوئی بظاہر جہاں سب سے زیادہ قریب نظر آتی ہے وہ اس کا شیشہ ہے۔ لیکن گھڑی کی سوئی گھمانے کے لیے کوئی شخص اس کے شیشہ پر زور آزمائی نہیں کرتا۔ بلکہ اس کی چابی پر اپنا ہاتھ لے جاتا ہے۔ مگر کیسی عجیب بات ہے کہ ملت کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ہمارے تمام لیڈر ’’گھڑی‘‘ کے شیشہ پر زور آزمائی کر رہے ہیں۔ خواہ اس کا نتیجہ یہی کیوں نہ ہو کہ سوئی تو نہ گھومے البتہ غلط طریق عمل کی وجہ سے مسائل میں کچھ اوراضافہ ہو جائے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom

Ask, Learn, Grow

Your spiritual companion