سیاست کے ساتھ دینی خدمت
سیاست کے ساتھ دینی خدمت کا کام نہیں کیا جا سکتا۔

شمالی نائجیریا کی 65 ملین آبادی میں آدھے سے زیادہ مسلمان ہیں۔ دو سو برس پہلے کی بات ہے ۔ شمالی نائجیریا کے سلطان بیوا نے ریاست کے علما کو اپنے دربار میں بلایا اور ان کو تحفے دیے۔ آنے والوں میں ایک بزرگ نے تحفہ قبول نہیں کیا۔ یہ عثمان دان فودیو (1754-1817ء) تھے۔ انھوں نے کہا میں آپ کا تحفہ اس وقت لوں گا جب کہ آپ مجھ کو تبلیغ اسلام کا پروانہ عطا فرمائیں — سلطان نے فوراً ان کے مطالبہ کو مان لیا۔ عثمان دان فودیو نے اس کے بعد تبلیغ و دعوت کا کام شروع کیا۔ ان کی کوششوں سے نائجیریا کے بہت سے باشندے مسلمان ہو گئے۔

 تاہم یہ سلسلہ دیر تک قائم نہ رہ سکا۔ عثمان دان فودیو نے اس کے بعد سلطان کے سامنے سیاسی مطالبات رکھنے شروع کیے۔ ’’تمام سیاسی قیدیوں کو رہاکر و۔ ٹیکس کی شرح گھٹاؤ ، وغیرہ‘‘۔ اس قسم کے مطالبات نے حکمرانوں کو خفا کر دیا۔ سلطان بیوا کسی طرح ان کو برداشت کرتا رہا۔ اس کے مرنے کے بعد اس کا لڑ کا سلطان نفاتا تخت پر بیٹھا۔ اس نے نہ صرف عثمان دان فودیو کے سیاسی مطالبات کو ردّ کیا، بلکہ ان کی تبلیغی سرگرمیوں پر بھی پابندی لگا دی ۔ اب عثمان دان فو دیو اور ان کے ساتھی سلطان کے سیاسی مخالف بن کر کھڑے ہو گئے ۔ 1809 ءمیں اس باہمی جنگ کا سلسلہ شروع ہوا جو عثمان داں فود یو کی موت (1817ء) تک ناکام طور پر جاری رہا۔ احمدوبلو انھیں عثمان دان فود یو کے لڑکے تھے جن کو اپنے باپ سےایک طرف تبلیغی جذبہ کی وراثت ملی تھی اور اسی کے ساتھ سیاسی جہاد کی بھی ۔عجیب بات ہے کہ احمد و بلو نے اپنے والد کےانجام سے کوئی سبق نہیں لیا، اور اسی تجربہ کو پھر دہرایا جو ان کے پیش رو کے زمانہ میں ناکام ہو چکا تھا۔

’’میری کوششوں کی وجہ سے دسمبر 1963ء سے لے کر مارچ 1965ء تک تقریباً دولاکھ (186930) مشرکوں نے اسلام قبول کیا۔ ان میں سے بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو سماجی زندگی میں نمایاں مقام رکھتے ہیں‘‘۔

 یہ نائجیریا کے سابق وزیر اعظم الحاج احمد و بلو (1901-1966ء) کے الفاظ ہیں جو انھوں نے(1384ھ 1964ء) کی موتمر اسلامی (قاہرہ) میں تقریر کرتے ہوئے کہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ افریقہ کی لگ بھگ 22 کر وڑ آبادی میں دس کروڑ 80 لاکھ مسلمان ہیں ۔

’’اگر مسلم ملکوں کی مدد شامل حال ہو تو افریقہ کے مشرک قبائل میں تیزی سے اسلام پھیل سکتا ہے۔ اور اس کا ثبوت خود میری وہ کامیابیاں ہیں جن کا میں نےابھی حوالہ دیا‘‘۔

احمد وبلو کو اسلام کی خدمت کا یہ جذبہ اپنے داداعثمان دان فودیو سے ملا تھا ۔ 19ویں صدی میں جب پرتگال، فرانس اور برطانیہ نے افریقہ کے علاقوں میں گھسنا شروع کیا تو افریقہ میں اس کے ردّ عمل کے تحت بہت سے مصلحین اٹھ کھڑے ہوئے۔ انھیں میں سے ایک عثمان دان فودیو بھی تھے۔ انھوں نے گزشتہ صدی میں مسلمانوں کی اصلاح اور استعماری طاقتوں کے خلاف جہاد کی زبر دست تحریک چلائی۔ دریائے نائجیریا کے کنارے کنارے دور تک انھوں نے اسلام کا جھنڈا لہرا دیا تھا۔1833ء میں ان کے انتقال کے بعد ان کے جانشینوں نےیہ مہم جاری رکھی ۔ نائجیریا کی راجدھانی لاگوس سے لے کر شمال میں لکوثو شہر تک مقابلے جاری تھے۔ تاہم آخری فیصلہ انگریزوں کے حق میں ہوا۔ انھوں نے 1886 ءمیں سلطان محمد طاہر اور ان کے ساتھیوں کو شکست دے کر نائجیریا پر قبضہ کر لیا۔

احمد و بلو انھیں روایات کے درمیان موجودہ صدی کے آغاز میں پیدا ہوئے۔ ان کے باپ سو کو تو کے امیر قبیلہ تھے۔ ابھی وہ دس سال کے تھے کہ باپ کا انتقال ہو گیا۔ ان کی ماں ایک دیندار خاتون تھیں ۔ قدیم رواج کے مطابق پہلے انھیں قرآن حفظ کرایا گیا۔ اس کے بعد انھوں نے عربی مدرسہ میں داخلہ لیا اور 21 سال کی عمر تک دینی تعلیم سے فراغت حاصل کرلی ۔ 1926 ءمیں مغربی تعلیم کے لیے کا ستینا  کالج میں داخل ہوئے اور انگریزی زبان اور ریاضیات کی تعلیم مکمل کی۔ خاندانی وراثت کے تحت ان کو سکوتو کا امیر بنایا گیا۔ 1934 ءمیں سلطان حسن نے ان کو شہر رباح کا گورنر مقرر کیا ۔ 1938ء میں جب سلطان حسن کا انتقال ہوا تو نئے سلطان ابوبکر نے احمد و بلو کو سو کو تو کے ’’سار دونا‘‘( sardauna of sokoto)کے منصب پر سرفراز کیا ۔ 1948 ءمیں انھوں نے لندن کا سفر کیا اور آزادی کے مسائل پر حکومت برطانیہ سے گفتگو کی ۔

1963 ء کی مردم شماری کے مطابق نائجیریا میں 146ملین مسلمان ہیں، عیسائی 19 ملین اور دوسرے قبائل10ملین ہیں۔ شمالی نائجیریا میں زیادہ تر مسلمان آباد ہیں اور جنوبی نائجیریا میں زیادہ تر عیسائی ۔احمد جوشمالی نائجیریا کے لیڈر تھے ۔ وہ مغربی استعمار کے خلاف جنگ میں پیش پیش رہے۔ 1960ء میں نائجیریا آزاد ہوا تو وہاں ایک فیڈرل گورنمنٹ بنی۔ اس حکومت کے فیڈرل پرائم منسٹرسر ابو بکرتفا وا بلیوا (1912-1966ء) تھے۔ احمد وبلو شمالی نائجیریا کے وزیر اعظم مقرر ہوئے۔ یہ ایک مخلوط حکومت تھی جس میں مختلف پارٹیوں کے نمائندے اور مسلمان اور عیسائی دونوں شریک تھے۔ احمد وبلو نے مسلمانوں کی اصلاح و تعمیراور عیسائیوں میں اسلام کی اشاعت کا کام پوری توجہ سے شروع کیا۔ اس کے نتائج بھی نکلنے شروع ہوئے۔ مگر انھیں زیادہ کام کرنے کا موقع نہیں ملا۔ 15 جنوری 1966 ءکو 25 فوجی افسران نے مل کر بغاوت کردی۔ اس بغاوت میں ابو بکرتفا وا بلیوا احمد وبلو اور بہت سے مسلمان اور عیسائی مارے گئے۔ اس کے بعد نائجیریا میں فوجی حکومت قائم ہو گئی جس کے سربراہ جنرل ارونسی تھے ۔ مگر انھیں بھی صرف چھ ماہ حکومت کرنے کا موقع ملا۔ 29 جولائی 1966 ءکو دوسری فوجی بغاوت ہوئی اور وہ بھی ختم کر دیےگئے ۔

نائجیریا میں دو مسئلے ہیں۔ یہاں مسلمانوں کی تعداد ستر فی صد ہے۔ مگر تعلیم، اقتصادیات اور تنظیم میں پیچھے ہونے کی وجہ سے عملاً اکثر شعبوں پر عیسائی چھائے ہوئے ہیں۔ ضرورت ہے کہ انھیں تعلیمی اور اقتصادی اعتبار سے بلند کیا جائے تا کہ وہ ملک میں اپنا جائز مقام پاسکیں۔ دوسرا کام یہاں کے عیسائیوں اور خاص طور پر  10ملین مشرک قبائل میں اسلام کی اشاعت ہے ۔ یہ دونوں کام احمد و بلو نے شروع کر دیےتھے۔ مگر ان کی شہادت سے جو سبق ملتا ہے، وہ یہ کہ تعمیر و تبلیغ کا کام سیاست کو لے کر نہیں کیا جاسکتا، احمدو بلو اگر سیاست سے الگ ہو کر کام کر رہے ہوتے تووه 20-25 برس میں نائجیریا کی تاریخ بدل دیتے۔ مگر سیاست کے خار زار نے انھیں بھی ختم کر دیا اور ان کے ملی اور اسلامی کام کو بھی۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom

Ask, Learn, Grow

Your spiritual companion