کامیابی پر جوش اقدام کا نتیجہ نہیں
ان کی کامیابی محض پر جوش اقدام کا نتیجہ نہ تھی بلکہ سوچے سمجھے منصوبہ کے ذریعہ حاصل کی گئی۔
بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے— اس طرح کے الفاظ نے مسلمانوں میں نا عاقبت اندیشانہ اقدام کا ذہن پیدا کیا ہے، حالاں کہ خود اس شعر میں جس واقعہ کی طرف اشارہ ہے وہ ایک سوچی سمجھی پیش قدمی تھی نہ کہ محض ایک پر جوش چھلانگ۔
16ھ میں اسلامی فوج سعد بن ابی وقاص کی قیادت میں عراق کے علاقوں کو فتح کر رہی تھی ۔ بہرہ شیر کو فتح کر کے جب وہ آگے بڑھی تو سامنے دریائے دجلہ تھا اور اس کے دوسری طرف مدائن جو ایرانیوں کا ایک اہم شہر تھا اور وہاں انھوں نے زبر دست قلعہ بنا رکھا تھا۔ ایرانیوں نے بہرہ شیر سے بھاگتے ہوئے دجلہ کے پُل کو توڑ دیا تھا اور دور تک کوئی کشتی بھی نہ چھوڑی تھی جس سے اسلامی لشکر دریا کو عبور کر سکے۔
سعد بن ابی وقاص اگلے دن اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور یہ کہہ کر گھوڑا دریا میں ڈال دیا :وَقالَ:قُولُوا نَسْتَعِينُ بِاللهِ، وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ، حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ(تاریخ الطبری، جلد 4 ، صفحہ 10)۔ یعنی،ہم اللہ سے مدد چاہتے ہیں اور اسی پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اللہ ہمارے لیے کافی ہے اور وہ بہترین مددگار ہے عظیم وبرتر خدا کے سوا کسی کے پاس کوئی طاقت نہیں۔
آپ کو دیکھ کر دوسروں کو بھی جرأت ہوئی اور پورا لشکر اپنے گھوڑوں کے ساتھ دریا میں تیرنے لگا یہ لوگ نصف سے زیادہ دریا پار کر چکے تھے کہ ایرانی تیر اندازوں نے تیروں کی بارش شروع کر دی جو دریا کے دوسرے کنارے پر پہلے سے موجود تھے ۔
دریا میں تیرتا ہوا لشکر اس ناگہانی آفت کا خود مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ پھر کیا چیز تھی جس نے فوج کو برباد ہونے سے بچایا۔ یہ کوئی اتفاق نہ تھا اور نہ محض جوش کا کرشمہ تھا۔ یہ سوچی سمجھی منصوبہ بندی تھی۔ جو کچھ ہوا، وہ عین اس نقشہ کے مطابق ہوا جو پہلے سے طے کر لیا گیا تھا۔
صورت حال پیش آنے کے بعد سعد بن ابی وقاص نے باقاعدہ مشورہ کیا۔ سعد بن ابی وقاص جہاں نصرت الٰہی پر یقین کرتے ہوئے دریا میں کودپڑے، وہیں انھوں نے حالات کا مکمل جائزہ لے کر اس آنے والی آفت کا بھی پیشگی اندازہ کر لیا تھا۔ چنانچہ تاریخ بتاتی ہے کہ جب انھوں نے گھوڑا دریا میں ڈالنے کا ارادہ کیا تو لشکریوں سے فرمایا کہ ’’تم میں کون ایسا بہادر سردار ہے جو اپنی جمعیت کے ساتھ اس بات کا وعدہ کرے کہ وہ ہم کو دریا عبور کرنے کے وقت دشمن کے امکانی حملہ سے بچائے گا‘‘۔ عاصم بن عمرو نے اس کی ذمہ داری لی اور چھ سو تیر اندازوں کی ایک جماعت لے کر دجلہ کے اس کنارے ایک اونچے مقام پر کھڑے ہوگئے۔ جیسے ہی ایرانی تیر اندازوں نے دجلہ میں تیرتے ہوئے اسلامی لشکر پر تیر پھینکنے شر وع کیے ، عاصم بن عمر وؓ کا دستہ فوراًمتحرک ہو گیا۔ اس نے ایرانی تیر اندازوں پر اتنی قوت کے ساتھ مسلسل تیر بر سائے کہ انھیں دفاع کی پوزیشن میں ڈال دیا۔ کثرت سے ایرانی مجروح اور ہلاک ہونے لگے حتیٰ کہ بھاگ کھڑے ہوئے ۔ اس درمیان میں اسلامی لشکر دریا پار کرکے دوسرے کنارے پہنچ گیا اور ایرانی لشکر پر سخت حملہ کر کے مدائن پرقبضہ کرلیا۔(الکامل فی التاریخ لا بن اثیر، جلد 2، صفحہ نمبر 339)
