تمہید
عروج وزوال کے تاریخی قانون کو قرآن میں مختصر طور پر اس طرح بیان کیا گیا ہے: اللہ کسی گروہ کے ما بقوم (حالت قومی) کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ اپنے ما با نفس (حالت نفسی) کو نہ بدلے (الانفال، 8:53؛ الرعد، 13:11)۔ ان آیات میں ما با نفس کی تبدیلی سے مراد وہ تبدیلی ہے جو افراد کی سطح پر ہوتی ہے۔ کیونکہ ’’نفس‘‘ افراد ہی کی سطح پر پایا جاتا ہے، نہ کہ اجتماع کی سطح پر۔مطلب یہ ہے کہ قوموں کا زوال اس وقت ہوتا ہے جب کہ ان کے افراد میں بگاڑ آ گیا ہو۔ اسی طرح قوموں کا عروج اس وقت ہوتا ہے جب کہ افراد کی سطح پر ان میں زندگی پیدا ہو جائے۔ اس سنت ِالٰہی کے مطابق اصلاح قوم کا طریقہ یہ ہے کہ اس کو اصلاح افراد سے شروع کیا جائے، نہ کہ انقلاب حکومت سے۔ انقلاب حکومت کے نعرہ سے کام کا آغاز گو یا کسی گروہ کے مابقوم کو ما بقوم سے بدلنے کی کوشش کرنا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی کوشش ایک ایسی دنیا میں نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی جس کے پیدا کرنے والے نے اس کے ما بقوم کی تبدیلی کو اس کے ما با نفس کی تبدیلی کے ساتھ جوڑ دیا ہو۔ یہ باغ کو باغ سے نکالنے کی کوشش ہوگی۔ جب کہ اس دنیا میں باغ کو صرف بیج سے نکالا جا سکتا ہے۔
’’تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ کسی نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا‘‘— یہ قول جس طرح دوسری قوموں کے لیے صحیح ہے ٹھیک اسی طرح وہ ہمارے اوپر بھی صادق آتا ہے۔ ہماری طویل تاریخ ہر قسم کے سبق آموز واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ مگر ہم میں سے کوئی شخص جب کام کرنے کے لیے اٹھتا ہے تو اکثر وہ انھیں ناکام تجربات کو دہراتا ہے جو اس سے پہلے بار بار پیش آچکے ہیں۔ وہ تاریخ کے قانون کو جانتے ہوئے اپنے آپ کو شعوری یا غیر شعوری طور پر اس سے الگ کر لیتا ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ جو کچھ ہوا، وہ صرف دوسروں کے لیے تھا ، ہمارے ساتھ ایسا نہیں ہو گا۔
تاریخ مسلسل طور پر یہ سبق دیتی رہی ہے کہ کوئی قوم اس وقت ترقی کرتی ہے جب کہ اس کے افراد میں کیرکٹر کی طاقت پیدا ہو جائے۔ مگر ہمارا حال یہ ہے کہ ہم افراد میں کیرکٹر پیدا کیے بغیر ترقی کی طرف چھلانگ لگا دیتے ہیں۔ ساری تاریخ کا فیصلہ ہے کہ قوموں کی سربلندی کا راز ابتدائی سطح پر تعمیرو استحکام ہے۔ مگر لوگ موقع ملتے ہی سیاسی ادارہ سے مقابلہ آرائی شروع کر دیتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ افراد قوم کے درمیان باہمی اتحاد ، خواہ جس قیمت پر بھی ہو، باقی رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ مگر معمولی معمولی باتوں پر لوگ ایک دوسرے کے خلاف محاذ بنا کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ تاریخ کہتی ہے کہ حقیقت پسندی کسی بھی کامیابی تک پہنچنے کا واحد زینہ ہے۔ مگر ہمارے رہنما نہایت بے دردی کے ساتھ قوم کو جذباتی ہنگاموں میں مشغول کر دیتے ہیں۔
ملت کو اٹھانے کا کوئی منصوبہ اسی وقت کامیاب ہو سکتا ہے جب کہ ملت کے افراد کو اٹھایا جا چکا ہو — ملت کی ترقی کے لیے ایسے افراد در کار ہیں جو بولنے سے زیادہ چپ رہنا جانتے ہوں، جو الفاظ سے زیادہ معانی کی زبان سمجھتے ہوں، جو طاقت سے زیادہ دلیل کے آگے جھکنے والے ہوں ۔ جو کہنے سے زیادہ کرنا جانتے ہوں ۔ جو آگے بڑھنے سے زیادہ پیچھے ہٹنے کے بہادر ہوں ۔ خلاصہ یہ کہ جو دنیا سے زیادہ آخرت کو دیکھ رہے ہوں۔ ایسے افراد کے بغیر ملت کی سربلندی کا نعرہ لگانا ایساہی ہے جیسے دلدل کے اوپر دیوار کھڑی کرنا ۔
