تاتاری فتنہ اختلافی سیاست کا نتیجہ
مسلم دنیا پر تاتاریوں کا حملہ ساتویں صدی ہجری کے ربع اول میں ہوا۔ اس وقت بغداد کی سلطنت پر ناصر لدین اللہ کا قبضہ تھا اور خراسان میں خوارزم شاہ حکومت کر رہا تھا۔ دونوں میں سیاسی اختلاف پیدا ہو گیا۔ تاتاریوں کے ہاتھ سے مسلم دنیا کی غارت گری انھیں دومسلم قائدین کے باہمی اختلاف کے نتیجہ میں وقوع میں آئی۔ خراسان کی سلطنت اگر چہ ایک آزا د سلطنت تھی۔ تاہم وہاں خلیفہ بغداد کا خطبہ پڑھا جاتا تھا۔ خوارزم شاہ کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ ناصر لدین اللہ کی مملکت کے ایک سرحدی حصہ ( عراق ) کو کاٹ کر اپنے علاقہ میں شامل کرلے۔ اس نے اپنے ملک میں ناصر لدین اللہ کا خطبہ موقوف کرا دیا ۔ ناصر لدین اللہ اس خبر سے بہت خفا ہوا ۔ اس نے اس کے توڑ کے لیے یہ تدبیر کی کہ لڑا کو تا تاری قبائل کو اکسا کر خوارزم شاہ پر حملہ کرا دیا۔ یہ تدبیر نہ صرف خوارزم شاہ بلکہ پوری مسلم دنیا کے لیے ایک عذاب ثابت ہوئی ۔ تاتاری جب خوارزم شاہ کو مغلوب کر چکے تو انھوں نے ناصر لدین اللہ کی سلطنت پر حملہ کر دیا اور بالآخر دونوں کو برباد کر ڈالا۔
خوارزم شاہ کو 21 سال حکومت کرنے کا موقع ملا اور ناصر لدین اللہ کو 46 سال۔ اس کے بعد دونوں میں سے ہر ایک اسی قبر میں لیٹ گیا جس میں وہ اپنے بھائی کولٹانا چاہتا تھا— تاریخ کا یہ سبق بھی کتنا عبرت انگیز ہے ۔ مگر عجیب بات ہےکہ کوئی اس سے سبق نہیں لیتا۔ ہر شخص جس کو موقع ملتاہے پہلی فرصت میں اس تاریخ کو دہراتا ہےجو خوارزم شاہ اور ناصر لدین اللہ کے واقعہ کی شکل میں ہمیشہ کے لیے نا کام ہو چکی ہے اور آخرت میں ناکام تر شکل میں سامنے آنے والی ہے۔
1095ء سے لے کر 1271ء تک یورپ کی مسیحی قوموں نے بلاد اسلامیہ پر آٹھ زبر دست حملے کیے ۔ یہ حملے مغربی سمت ہوتے تھے اور ان کا مقصد ’’مقدس مقامات‘‘ کو عیسائی قبضہ میں لینا تھا۔ مگر دو سو سالہ جنگ اس طرح ختم ہوئی کہ بالآخر یروشلم مسلمانوں ہی کے قبضہ میں رہا۔ اسی زمانہ میں 1220ء میں تاتاریوں (مغلوں) نے بلاد اسلامیہ پر حملہ کیا اور اس حد تک کامیاب ہوئے کہ سارے عالم اسلام کو زیر وزبر کر ڈالا۔ وہ چین کے شمالی پہاڑوں سے چنگیز خاں کی زیر قیادت نکلے اور ترکستان، ماوراء النہر، خراسان، آذر بائیجان ، اصفہان ، افغانستان ، فارس ،عراق ، شام ، ایشیائے کو چک ، روس ، آسٹریا تک تمام ملکوں کولوٹ مار اور قتل و غارت کا قبرستان بنا دیا۔ مورخ ابن اثیر جو اس زمانہ کا عینی شاہد ہے، اس زمانہ کے واقعات بیان کرنے بیٹھتا ہے تو اس کے قلم سے یہ الفاظ نکل جاتے ہیں :
فَمَنِ الَّذِي يَسْهُلُ عَلَيْهِ أَنْ يَكْتُبَ نَعْيَ الْإِسْلَامِ وَالْمُسْلِمِينَ؟ وَمَنِ الَّذِي يَهُونُ عَلَيْهِ ذِكْرُ ذَلِكَ؟ فَيَا لَيْتَ أُمِّي لَمْ تَلِدْنِي، وَيَا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ حُدُوثِهَا وَكُنْتُ نَسْيًا مَنْسِيًّا...فَلَوْ قَالَ قَائِلٌ إِنَّ الْعَالَمَ مُذْ خَلَقَ اللهُ سبحانه وتعالى آدَمَ، إِلَى الْآنِ،(ای الی عہد ابن الاثیر ) لَمْ يُبْتَلَوْا بِمِثْلِهَا، لَكَانَ صَادِقًا (الکامل فی التاریخ لابن الاثير، جلد10، صفحہ333)۔ یعنی،کون ہے جس کے لیے آسان ہو کہ اسلام اور مسلمانوں کی ہلاکت کی داستان لکھے۔ اور کون ہے جس کے لیے اس کا ذکر آسان ہو۔ کاش میری ماں نے مجھے نہ جنا ہوتا اور کاش میں اس سے پہلے مرگیا ہوتا اور ختم ہوگیا ہوتا ۔ اگر کوئی کہے کہ جب آدم پیدا کیے گئے ، اس وقت سے لے کر اب تک ایسا حادثہ انسانیت پر نہیں آیا تو یقیناً وہ سچا ہوگا ۔
سلطان صلاح الدین ایوبی (1137-1193 ء) کی وفات کے 20 سال سے بھی کم عرصہ میں اتنا بڑا حادثہ عالم اسلام پر کیوں پیش آیا۔ کچھ لوگ اس سلسلہ میں تاتاریوں کی سفاکی کا حوالہ دینا کافی سمجھتے ہیں۔ مگر تاریخ بتاتی ہے کہ حکمراں قو میں ہمیشہ سفاک دشمنوں کے نرغہ میں رہتی ہیں۔ کوئی نہ کوئی ’’تاتار‘‘ مسلمانوں کے لیے ہمیشہ موجود رہا ہے ۔ پھر اس کو تیرھویں صدی عیسوی کے آغاز ہی میں یہ شان دار کامیابی کیسے حاصل ہوئی ۔ حالاں کہ یہ وہ وقت تھا جب کہ اسلامی سلطنت کی وسعت، اس کی مسلسل فتوحات ، اس کی حربی اور تمدنی ترقیاں اور اس کے مقابلہ میں یورپی قوموں کی عبرتناک پسپائی نے اتنی دھاک بٹھادی تھی کہ کوئی سیاسی حو صلہ مند سلطنتِ اسلامی کی طرف رخ کرنے کی جرأت مشکل ہی سے کر سکتا تھا۔ تاتاری حملہ کا واقعہ دیلمی خلیفہ ناصر لدین الله ( 553-622ھ) کے زمانہ میں ہوا۔ مشہور مورخ ابن اثیراس خلیفہ کا ہم عصر تھا۔ وہ تاتاریوں کی خوں ریزی بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے :
وَكَانُوا كُلَّمَا مَرُّوا بِمَدِينَةٍ أَوْ قَرْيَةٍ وَضَعُوا السَّيْفَ عَلَى أَهْلِهَا دُونَ تَفْرِقَةٍ بَيْنَ كَبِيرٍ أَوْ صَغِيرٍ، أَ وْ جَلِيلٍ أَوِ امْرَأَةٍ، وَعَمَّتْ بِلَادَ الْمَشْرِقِ جَرَائِمُهُمْ وَفَظَائِعُهُمْ۔ یعنی، جب وہ کسی شہر یا گاؤں سے گزرتے تو اس کے باشندوں پر اپنی تیغ بے نیام کر دیتے اور بڑے چھوٹے ، عورت ، مرد سب کو قتل کر ڈالتے۔ مشرق کے تمام علاقے ان کےجرائم سے بھر گئے۔
ابن اثیر نے 617ھ( 1220ء)کے حوادث کے ذیل میں لکھا ہے :
إِنَّ سَبَبَ خُرُوجِ التَّتَارِ إِلَى الدِّيَارِ الإِسْلَامِيَّةِ هُوَ تَصَرُّفُ خُوَارِزْمْ شَاهِ السَّيِّئِ بِقَتْلِ جَمَاعَةٍ مِنَ التَّتَارِ قَادِمِينَ إِلَى بِلَادِهِ لِلتِّجَارَةِ وَنَهْبِ أَمْوَالِهِمْ(ابن الأثير)۔ یعنی، بلاد اسلامیہ پر تاتاریوں کی یورش کی وجہ خوارزم شاہ کی یہ بیہودہ حرکت تھی کہ اس نے تاتاریوں کی جماعت کو قتل کر دیا اور ان کے اموال کو چھین لیا جو کہ اس کے ملک میں تجارت کی غرض سے آئے تھے ۔
یہی قصہ مختلف شکلوں میں مشہور ہوا ہے جس میں تاتاری فتنہ کی ذمہ داری خوارزم شاہ (وفات 617ء) پر ڈالی گئی ہے۔ مگر تاریخ کے گہرے مطالعہ سے یہ بات صحیح نظر نہیں آتی ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ خود مورخ ابن اثیر نے دوسرےموقع پر ایک اور بات لکھی ہے:
وَقِيلَ فِي سَبَبِ خُرُوجِهِمْ إِلَى بِلَادِ الإِسْلَامِ غَيْرُ ذَلِكَ مِمَّا لَا يُذْكَرُ فِي بُطُونِ الدَّفَاتِرِ:
فَكَانَ مَا كَانَ مِمَّا لَسْتُ أَذْكُرُهُ فَظُنَّ خَيْرًا وَلَا تَسْأَلْ عَنِ السَّبَبِ
(الکامل، جلد 10، صفحہ 331)۔یعنی، تاتاریوں کی یورش کا اس کے سوا دوسرا سبب بھی بیان کیا گیا ہے جس کو لکھا نہیں جا سکتا ، جو ہوا وہ ہوا۔ اب میں اس کو بیان نہیں کروں گا ۔ تم اچھا گمان کر لو اور سبب مت پوچھو۔
ابن اثیر کے اس بیان سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ وہ سیاسی اسباب سے اصل حقیقت کو چھپارہا ہے ، مگر یہ تاریخ کی خوش قسمتی تھی کہ ابن اثیرکی زندگی ہی میں وہ سیاسی رکاوٹ ختم ہوگئی اور بعد کے ’’ دفتر‘‘ میں وہ اس کو درج کرنے کے لیے زندہ رہا۔ تاتاری حملہ 617 ھ میں ہوا اور خلیفہ ناصر لدین اللہ کا انتقال 622 میں ۔ ابن اثیر نے مذکورہ بالا جملے 617 ھ کے حوادث کے ذیل میں لکھے تھے ۔ ناصر لدین اللہ کے انتقال کے بعد جب وہ 622 ھ کے حوادث کے ذیل میں خلیفہ کے حالات لکھنے بیٹھا تو اس نے اپنی تاریخی کتاب میں حسب ذیل الفاظ ثبت کیے :
وَكَانَ سَبَبُ مَا يَنْسُبُهُ الْعَجَمُ إِلَيْهِ صَحِيحًا مِنْ أَنَّهُ هُوَ الَّذِي أَطْمَعَ التَّتَرَ فِي الْبِلَادِ، وَرَاسَلَهُمْ فِي ذَلِكَ، فَهُوَ الطَّامَّةُ الْكُبْرَى الَّتِي يَصْغُرُ عِنْدَهَا كُلُّ ذَنْبٍ عَظِيمٍ (الكامل، جلد10، صفحہ 400-401)۔ یعنی، اگر وہ سب صحیح ہو جو عجمی لوگ ناصر لدین اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں یعنی وہی تھا جس نے تاتاریوں کو حملہ پر اکسایا اور اس سلسلہ میں ان کے پاس پیغام بھیجا تو وہ ایسی قیامت تھی جس کے آگے ہر بڑا گناہ ہیچ ہے ۔
استاذحافظ احمد حمدی ( مؤلف كتاب الدولۃ الخوارزميۃ والمغلول)نے اس موقع پر حسب ذیل تعلیق کی ہے:
وَالظَّاهِرُ أَنَّ ابْنَ الأَثِيرِ، وَهُوَ مِنَ الْمُعَاصِرِينَ لِلْغَزْوِ الْمَغُولِيِّ وَالْخَلِيفَةِ النَّاصِرِ لِدِينِ اللهِ، لَمْ يَجِدْ سَبِيلًا إِلَى الْمُجَاهَرَةِ بِاسْتِدْعَاءِ الْخَلِيفَةِ لِلْمَغُولِ، وَلَمْ يَنْقُلْ ذَلِكَ بِصَرَاحَةٍ وَوُضُوحٍ إِلَّا عِنْدَمَا تُوُفِّيَ الْخَلِيفَةُ، فَذَكَرَ هَذِهِ الْحَقِيقَةَ فِي جَلَاءٍ وَجُرْأَةٍ (صفحہ50)۔ یعنی، اس کا ظاہر مفہوم یہ ہے کہ ابن اثیر، جو کہ مغلوں کے حملہ اور خلیفہ ناصر لدین اللہ کے ہم زمانہ ہیں۔ خلیفہ کی وفات سے پہلے صراحۃً اس کو کہنے کی جرأ ت نہ کر سکے تھے کہ مغلوں کو بلانے والا خود خلیفہ ناصر لدین اللہ تھا۔ اس حقیقت کو انھوں نے خلیفہ کی وفات کے بعد جرات اوروضاحت سے بیان کیا۔
ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں ابن اثیر کے قول کو نقل کیا ہے اور اس پر کوئی جرح و تعدیل نہیں کی (جلد 13،صفحہ 107)۔ ابو الفداء نے اپنی تاریخ میں اس کی تائید کی ہے اور لکھا ہے:
وَقَدْ نُسِبَ إِلَى الإِمَامِ النَّاصِرِ أَنَّهُ هُوَ الَّذِي كَاتَبَ التَّتَارَ وَطَمَّعَهُمْ فِي البِلَادِ، لِيُشْغِلَ خُوَارِزْمْ شَاهٍ عَنْهُ قَصْدُ العِراقِ (المختصر فی اخبار البشر، جلد 3 صفحہ 136)۔ یعنی،ناصر لدین اللہ کی طرف یہ بات منسوب کی گئی کہ وہی ہے جس نے تاتاریوں کولکھا اور ان کو حملہ کرنے کے لیے اکسایاتاکہ خوارزم شاہ اس کے مقابلہ میں مشغول ہوجائے اور عراق کا قصد نہ کرے۔
اسی طرح مقر یزی نے اپنی کتاب السلوك لمعرفتہ دول الملوک(جلد 1، صفحہ 341) میں اس کی تائید کی ہے وہ خلیفہ ناصر لدین اللہ کی وفات کے تذکرے میں لکھتا ہے
وَفِي خِلَافَتِهِ خَرَّبَ التَّتَارُ بِلَادَ الْمَشْرِقِ حَتَّى وَصَلُوا إِلَى هَمَذَانَ، وَكَانَ هُوَ السَّبَبَ فِي ذَلِكَ، فَإِنَّهُ كَتَبَ إِلَيْهِمْ بِالْعُبُورِ إِلَى الْبِلَادِ، خَوْفًا مِنَ السُّلْطَانِ عَلَاءَ الدِّينِ مُحَمَّدِ بْنِ خُوَارِزْمْ شَاهٍ، لَمَّا هَمَّ بِالاسْتِيلَاءِ عَلَى بَغْدَادَ، وَأَنْ يَجْعَلَهَا دَارَ مَمْلَكَتِهِ كَمَا كَانَتِ السَّلْجُوقِيَّةُ ۔ یعنی، ناصر لدین اللہ کی خلافت کے زمانہ میں تاتاریوں نے بلاد اسلامیہ کے مشرقی علاقہ میں غارت گری کی، یہاں تک کہ ہمدان تک پہنچ گئے ، اس کا سبب خود یہی خلیفہ تھا، اس نے تاتاریوں کو لکھا کہ وہ بلاد اسلامیہ میں گھس آئیں۔ یہ اس نے سلطان علاء الدین محمد بن خوارزم شاہ کے خوف سے کیا تھا، کیونکہ وہ بغداد پر قبضہ کا ارادہ کر رہا تھا اور چاہتا تھا کہ اس کو اپنا دارالحکومت بنائے ۔
خلیفه ناصر لدین اللہ نے تقریباً ستر برس کی عمر پائی۔ وہ 575ھ میں تخت پر بیٹھا اور 46 سال تک حکمراں رہاآخر عمر میں اس کو شدید قسم کی پیچش ہوگئی ۔ اس کی بصارت جاتی رہی اور وہ اندھا ہو گیا اور اسی حال میں رمضان (622ھ 1225ء) کی آخری رات کو مر گیا ۔ تاتاری اپنے اس خروج میں پہلے خوارزم شاہ پر حملہ آور ہوئے اور خراسان اور بلاد جبل کو اس کے قبضہ سے چھین لیا ۔ اس کے بعد چنگیز خاں(1227— 1162ء) کی قیادت میں ارانیہ اور شرو ان پر قابض ہو گئے ۔ خوارزم شاہ تاتاریوں سے شکست کھا کر طبرستان کے کسی مقام میں چلا گیا اور 21 سالہ حکومت کے بعد 617ھ میں فوت ہوگیا ۔ تاتاریوں کا ایک گروہ غزنی، سجستان، کرمان وغیرہ کی طرف نکل گیا— خوارزم شاہ کو شکست دینے کے بعد تاتاریوں نے اس کے بیٹے جلال الدین بن خوارزم شاہ کو غزنی میں شکست دی— چنگیز خاں اس کا تعاقب کرتے ہوئے دریائے سندھ تک چلا گیا ۔ جلال الدین دریائے سندھ کو عبور کر کے ہندستان میں داخل ہو گیا ۔ چند روز ہندستان میں رہ کر 622 میں خوزستان اور عراق کی طرف چلا گیا اور آذر بائیجان اور آرمینیا پر قابض ہو گیا ۔ یہاں تک کہ مظفر کے ہاتھ سے قتل ہوا ۔ اس کے بعد تاتاریوں کاٹڈی دل ناصر لدین اللہ کی مملکت کی طرف بڑھا اور سارے عالم اسلام کو قتل و غارت گری کا قبرستان بنا ڈالا۔
ناصرلدین اللہ نے خوارزم شاہ کو نیچا دکھانے کے لیے جو تدبیر کی ، وہ آج بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے زمانہ میں عربوں نے ترک خلافت کا ’’جوا‘‘ اپنے سر سے اتار پھینکنے کے لیے انگریزوں کا ساتھ دیا ۔ بنگلہ دیش نے پاکستانی غلبہ کے خلاف اپنی لڑائی میں ایک خارجی ملک کو بہترین مددگار پایا (1970)۔ افغانستان میں سردار داؤد خاں کی حکومت کو ختم کرنے کے لیے وہاں کے لیڈر اشتراکی روس سے مل گئے (1978) وغیرہ ۔ اس طرح آج بھی اکثر مسلم ملک کسی نہ کسی ’’تا تاری فتنہ‘‘ کی شکار گاہ بنے ہوئے ہیں ۔ اور ان نئے تاتاریوں کو جو لوگ مسلم ممالک میں داخلہ کا راستہ دے رہے ہیں وہ دوبارہ خود مسلمان ہیں جو اپنے حریف مسلمان کو شکست دینے کے لیے اغیار کو ان کے اوپر چڑھالاتے ہیں۔ اس سیاست کا نتیجہ دوبارہ اسی بھیانک صورت میں نکل رہا ہے جو بارھویں صدی عیسوی میں ناصر لدین اللہ کے زمانہ میں نکلا تھا۔
اس قسم کی سیاست میں نہ صرف ملت کے بہترین امکانات برباد ہوتے ہیں، بلکہ وہ دونوں فریقوں کے لیے یکساں مہلک ہے۔ جو لوگ اپنے مسلمان بھائی کی ضد میں اغیار کو اپنی صفوں میں داخل کرتے ہیں وہ جب آتے ہیں تو صرف ان کے مفروضہ حریف کو ختم نہیں کرتے ۔ بلکہ بیرونی در اندازی کی یہ سیاست بالا خر خود ان کے لیے بھی مہلک ثابت ہوتی ہے ۔ وہ خود بھی بہت جلد اسی تخریبی سیاست کا شکار بن جاتے ہیں، جس کا شکار وہ اپنے حریف مسلمان کو بنانا چاہتے تھے۔ بنگلہ دیش کے شیخ مجیب الرحمن کا قتل (1975)، اور افغانستان کے کرنل عبد القادر (1978) کی تطہیر (purge) اس کی تازہ مثالیں ہیں ۔
