تاریخ کا ایک سبق
ترکی مشرق و مغرب کا سنگم ہے۔ اس لیے مغربی تہذیب سے تصادم کا مسئلہ سب سے پہلے یہیں پیش آیا ۔ مگر اس کے جواب میں کیا ہوا ۔ ایک طرف قدیم علما کا گر وہ تھا جو مغرب کی طرف سے آنے والی ہر چیز کا اس درجہ مخالف تھا کہ سلطان سلیم ثالث (1708-1838) اور اس کے جانشین سلطان محمود ( 1808-1839) کی نئی فوجی تنظیمات اور ان جدید اصلاحات تک کی مخالفت کی، جو انھوں نے ترکی کو عسکری اور علمی لحاظ سے یورپ کی ابھرتی ہوئی طاقتوں کے دوش بدوش لے چلنے کے لیےنافذ کی تھیں۔
دوسری طرف ترکی کی وہ نئی نسل تھی، جو پیرس اور برلن اور لندن کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرکے آئی تھی۔ وہ ترکی کو مغرب کے رنگ میں رنگ دینا چاہتی تھی۔ ان کی انتہا پسندی کا عالم یہ تھا کہ انھوں نے مغربی تقلید کے جواز کے لیے ایک پورا فلسفہ بنا ڈالا۔ ضیاء گوگ الپ نے کہا:
’’مغربی تہذیب در حقیقت بحر روم کی تہذیب کا امتداد ہے ، اس تہذیب (جس کو ہم بحیرہ روم کے منطقہ کی تہذیب کہتے ہیں) کے بانی سماری، سیتھی، فنیقی، رعاة، ترکی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔
تاریخ میں قدیم زمانوں سے پہلے ایک طورانی دور کا وجود ملتا ہے ، اس لیے کہ وسط ایشیا کے قدیم باشندے ہمارے اجداد تھے۔ اس کے بعد مسلمان ترکوں نے اس تہذیب کو ترقی دی اور اس کو یورپ تک پہنچایا ، پھر مغربی و مشرقی سلطنت روما کے خاتمہ کے بعد ترکوں نے یورپ کی تاریخ میں انقلاب پیدا کیا ، اور اسی بنیاد پر ہم مغربی تہذیب کا جزء ہیں اور ہمارا اس میں حصہ ہے ‘‘۔
ان کا منتہا ئے فکر یہ تھا کہ’’ وہ اپنے دماغ سے کام لے کر اپنے کو مغرب کی روشن اور بلند پایہ تہذیب میں نصب کرلیں‘‘ (عرفان اور گا، اتاترک،297)۔ کمال اتاترک( 1881-1938) جب 1924 میں ترک جمہوریہ کے پہلے صدر مقرر ہوئے تو ان کے نزدیک جو سب سے اہم کام تھا وہ یہ کہ ترکوں کو مغرب کا لباس پہنا دیں ۔ انھوں نے پردہ کو خلاف قانون قرار دیا ۔ عربی حروف کی جگہ لاطینی حروف جاری کیے، عربی میں اذان ممنوع ہوگئی۔ ہیٹ کا استعمال لازمی قرار دے دیا گیا۔ حتیٰ کہ جب ایک خوں ریز انقلاب کے بعد ہیٹ کی جنگ جیت لی گئی تو مصطفیٰ کمال نے مکہ کی موتمر اسلامی (1927) میں شرکت کے لیے ترک پارلیمنٹ کے ایک ممبر ادیب ثروت کو اس حال میں روانہ کیا کہ وہ اس کے واحد مندوب تھے جو اپنے سر پرمغربی ہیٹ رکھے ہوئے تھے۔ یہ گویاتر کی کی فتح عظیم کا اعلان تھا۔
یہی مثال ہر مسلم ملک میں پیش آئی ہے ۔ ان میں ڈگری کا فرق تو ہو سکتا ہے، مگر نوعیت کا کوئی فرق نہیں۔ ہر جگہ یہی ہوا کہ قدیم مذہبی طبقہ نے مغرب سے نفرت اور اجتناب میں زندگی کا راز بتایا اور جدید تعلیم یافتہ طبقہ نے مغرب کی تقلید سے یہ امید کی کہ وہ دوبارہ بام عروج پر جائیں گے۔ مگر یہ مثال کہیں نظر نہیں آتی کہ کچھ لوگ شدت سے اس پہلو کی طرف قوم کو متوجہ کر رہے ہوں کہ قوت و طاقت کے اس راز کو معلوم کروجس سے مسلح ہو کر مغرب تمہارے اوپر اور دنیا کے اوپر چھا رہا ہے۔
ترکی کی یہ تاریخ ایک انتہائی مثال ہے، جو بتاتی ہے کہ موجودہ زمانہ میں مسلم ملک کس طرح حالات کا اندازہ کرنے میں ناکام رہے اور نتیجتاً وقت کے مطابق اپنے عمل کی منصوبہ بندی نہ کر سکے ۔ اسی کے ساتھ ترکی کی تاریخ میں دو اور علامتی مثالیں بھی ہیں۔ ملی کام کے لیے جان دار کارکنوں کا نہ ملنا ، اور تیاری کے بغیر اقدامات ۔
جدید ترکی میں دو شخصیتیں علمی و فکری حیثیت سے انتہائی نمایاں نظر آتی ہیں، ایک نامق کمال (1840-1888) دوسرے ضیاء گوک الپ ( 1875-1924) دونوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ دونوں ترکی کے علاوہ عربی اور فرنیچ زبا نیں جانتے تھے۔ انیسویں صدی کی مسلم دنیا کی دوسری تمام شخصیتوں کی طرح اگر چہ یہ دونوں ہی سیاست سے متاثر تھے۔ اور سیاسی انقلاب کو سب سے بڑا کام سمجھتے تھے ۔ تاہم دونوں میں یہ فرق تھا کہ نامق کمال نسبتاً معتدل اور متوازن فکر کے آدمی تھے۔ وہ عملی سیاست سے متاثر ہونے کے باوجود اسلامی اصطلاحوں میں سوچتے تھے اور ’’ترک اتحاد‘‘ کے بجائے ’’اسلامی اتحاد‘‘ کے الفاظ بولتے تھے ۔ مزید یہ کہ نامق کمال کو ترکی کی جدید نسل میں مقبولیت بھی حاصل ہوئی۔ خالدہ ادیب خانم نے ان کے بارے میں لکھا ہے :
نامق کمال ترکی جدید کی محبوب ترین شخصیت تھی۔ ترکی کے افکار و سیاسیات کی تاریخ میں ان سے زیادہ کسی دوسری شخصیت کی پرستش نہیں کی گئی ؟
Halde Edib, Turkey Faces West, p. 84
دوسری طرف ضیاء گوک الپ ایک آزاد خیال آدمی تھا۔ اس کے فکری نظام میں اسلام بنیادی عامل کی حیثیت نہیں رکھتا تھا۔ اس نے دعوت دی کہ ترکی کی تعمیر نو خالص قومی اور مادی بنیادوں پر کی جائے۔ وہ اسلامی تہذیب کے بجائے مغربی تہذیب کا پر جوش علم بردار تھا۔
ترکی کی بعد کی تاریخ بتاتی ہے کہ ترکی میں نامق کمال جیسے لوگوں کے افکار کو غلبہ نہیں ملا۔ بلکہ ضیاء گوک الپ جیسے لوگ عملاً وہاں کی سیاست وقیادت پر چھا گئے۔ اس کی کم از کم ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ضیاء گوگ الپ کے افکار کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کمال اتا ترک (1881-1924) جیسا طاقوراور مضبوط ارادہ کا آدمی مل گیا تھا۔
اس کے علاوہ ایک وجہ اور بھی ہے ۔ نامق کمال نے اگر چہ اپنی قوم کے ایک طبقہ میں محبوبیت حاصل کی ۔ تاہم اپنے خطیبانہ ادب میں وہ جن خیالات کو پیش کر رہے تھے ، ان کے اندر روایتی لوگوں کے لیے خواہ کتنی ہی اپیل ہو ، جدید افکار کے عالمی سیلاب میں اس کی حیثیت ایک قسم کے رومانی خواب کی تھی۔ اصولی طور پر بلاشبہ یہ بات درست ہے کہ اسلام کو اجتماعی اداروں کی بنیاد ہونا چاہیے۔ مگر ایک ایسی دنیا میں جہاں عملی طور پر سیکولر افکار کا غلبہ ہو، کوئی شخص اپنا علیحدہ جزیرہ تعمیر نہیں کر سکتا۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب کہ عمومی فکری فضا کو اس کے موافق بنا لیا جائے۔
