دو تاریخی تجربے
سلیمان بن عبد الملک (وفات 99ھ) کی منقبت کے لیے یہ کافی ہے کہ اس نے خلافت راشدہ کی زریں فہرست میں پانچویں خلیفہ راشد(عمربن عبد العزیز ) کا اضافہ کیا۔ مگر عجیب بات ہے کہ اسی اموی حکمراں کے خانہ میں تاریخ ان واقعات کو بھی لکھتی ہے جن کا آخری نتیجہ ان دو عظیم ترین المیوں کی شکل میں برآمد ہوا، جن میں سے ایک کا نام اسپین اور دوسرے کا نام ہندوستان ہے۔ اگر سلیمان بن عبدالملک نے اسپین میں طارق کو اور ہندوستان میں محمدبن قاسم کو معتوب کر کے واپس نہ بلایا ہوتا، تو شاید ان دونوںملکوں کی تاریخ اس سے مختلف ہوتی جو بعد کے دور میں ہمیں نظر آتی ہے۔
اسپین میں کیا ہوا
سلیمان بن عبد الملک نے تخت خلافت پر بیٹھنے کے بعد پہلا کام یہ کیاکہ محض ایک ذاتی شکایت کی بنا پر موسی بن نصیر (19-97ھ) گور نرا فریقہ اور اس کے سپہ سالار طارق بن زیاد (فاتح اسپین) کو ان کے عہدوں سے معزول کر کے واپس بلا لیا۔ اور اول الذکر کو قید اور دوسرے کو نظر بند کر دیا ۔ اس کے قدرتی نتیجہ کے طور پر اسپین کی مسلم حکومت اور مرکز خلافت کے درمیان آغاز ہی میں حریفانہ جذبات پیدا ہو گئے۔ 132ھ میں جب ایک خون آشام انقلاب کے بعد دمشق کی اموی سلطنت ختم ہوئی اور نئے دارالخلافہ بغداد میں عباسی خلافت قائم ہوئی تو اموی خاندان کا ایک لٹا ہوا شہزادہ عبدالرحمن الداخل (113-172ھ) اسپین پہنچا اور وہاں کے حالات سے فائدہ اٹھا کر اسپین میں اپنی حکومت قائم کرلی۔ بنوامیہ کے ایک فرد کی یہ کامیابی عباسیوں کے لیے نا قابل برداشت تھی۔ اس طرح اسپین اور مرکز خلافت کے درمیان رقابت کی ایک اور وجہ پیدا ہو گئی اور نتیجتاً باہمی آویزشوں کا وہ لامتناہی سلسلہ چلا جو صرف اس وقت ختم ہوا جب اسپین میں خود مسلم سلطنت ختم ہوگئی ۔
مرکز خلافت اور اسپین کی یہ رقابت یہاں تک بڑھی کہ جس خلافت نے طارق بن زیاد کو بھاری کمک دے کر اسپین کی مہم پر بھیجا تھا اسی خلافت نے فرانس کے بادشاہ شار لیمین کو اکسایا کہ وہ اسپین پر حملہ کرے۔ نتیجہ یہ ہواکہ اسپین میں ایک عام خانہ جنگی اور بغاوت کی کیفیت پیدا ہوگئی ہرعلاقہ کا گورنرخودمختاری کا خواب دیکھنے لگا۔ امیر قرطبہ کے رشتہ داروں نے اس نازک وقت کو اسپین کے تاج و تخت کے لیے سازش کرنے کا سنہری موقع سمجھا۔ مقامی عیسائیوں کو شہ ملی کہ وہ باغی مسلمانوں کو ساتھ لے کر ہر جگہ شورش پیدا کرتے رہیں۔ اسپین کی اموی خلافت کے بعد اسپین کا ملک چھوٹی چھوٹی مسلم ریاستوں میں تقسیم ہو گیا جنھوں نے قرطبۂ اشبیلیہ ، غرناطہ ، بلنیہ ،طليطلہ ،مالقاوغیرہ شہروں کو اپنا اپنا دارالحکومت بنالیا۔
طارق بن زیاد 92ھ (711ء)میں اسپین میں داخل ہوا تھا اور 897ھ (1492ء) میں اسپین سے مسلم اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ آٹھ سو برس کی اس طویل مدت کا کوئی دن ایسا نہیں گزرا جو بغاوتوں اور شورشوں سے خالی ہو۔ یہ حقیقت ہے کہ اسپین کو اکثر بہت لائق مسلم حکمراں ملے، عدل وانصاف کے اعتبار سے بھی اور تمدن و سیاست کے اعتبار سے بھی، اور بلاشبہ انھوں نے مشکل حالات کے باوجود تمدن اور سیاست دانی کے اعتبار سے اسپین میں ایک عظیم تاریخ بنائی۔ مگر اندرونی حالات اور مرکز خلافت کی شہ کی بنا پر ملک کی عیسائی رعایا مکمل بغاوتوں پر مائل رہتی تھی، جس کی وجہ سے وہ ماحول نہ بن سکا، جس میں اس اہم ترین کام کی بنیاد پڑتی، جس کے لیے اسلام نے کشور کشائی اور جہاں بانی کے میدان میں قدم رکھا تھا، یعنی اشاعت دین کا کام۔ عرب اور اطراف عرب کے اکثر ممالک جتنی مدت میں مکمل طور پر اسلامی آبادی کے ملک بن گئے، اس سے بہت زیادہ مدت پانے کے باوجود اسپین اسلامی آبادی کا ملک نہ بن سکا۔
اسپین میں مسلم حکومت کی مثال تقریبا ًویسی ہی ہے، جیسے آزادی سے قبل ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت کی مثال۔ انگریزوں نے ہندوستان میں اپنے سوسالہ دور حکومت میں ملک کو زبردست تمدنی ترقیات سے مالا مال کیا۔ اگر چہ انھوں نے وہ غلطی نہیں کی، جو اسپین کے مسلمانوں نے کی تھی۔ انھوں نے سارے ملک میں عیسائی مشنریوں کا جال بچھا دیا، اور ان کو بے پناہ سہولتیں عطا کیں، مگر مسیحی مذہب میں اتنی طاقت نہ تھی کہ وہ اس ملک کی آبادی کو اپنا ہم عقیدہ بنالیتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب ہندوستان سے انگریزوں کی ہوا اکھڑی تو عالی شان عمارتیں اور بڑے بڑے پل ان کے کام نہ آسکے، اور انھیں ہندوستان چھوڑ کر وطن واپس جانا پڑا۔
طارق بن زیاد نے جس اسلامی جذبے کے تحت اسپین کی سرزمین پر قدم رکھا تھا، اگر وہ جذبہ جاری رہتا اور وہاں مستحکم حکومت کی روایت قائم ہو سکتی تو اسپین میں مسلمانوں کے سواکسی کا وجو د نہ ہوتا۔ دریا پار کرنے کے بعد اپنی طویل دعا میں اس نے ’’رَبِّ لا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكافِرِينَ دَيَّاراً‘‘ (71:26)کی آیت بطور بد دعا نہیں دہرائی تھی۔ بلکہ یہ اپنے اس عزم کا اظہار تھا کہ وہ اس ملک کو کفر و شرک سے خالی کر کے اسلام کا گہوارہ بنا دینا چاہتا ہے۔ مسلم اسپین کی ابتدائی تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ عیسائی کثرت سے اسلام قبول کر رہے ہیں، مگر چندہی برس بعد وہاں کی سیاست کا رخ اس طرح بدلا کہ تبلیغ دین کا کام پس پشت پڑ گیا۔ 132 ھ میں جب مرکز خلافت میں تبدیلی ہوئی اور بنوامیہ کی جگہ بنو عباس کی سلطنت قائم ہوئی تو اس ذہن کو مزید تقویت ملی، کیونکہ عباسیوں کو جتنی دلچسپی تمدن اور اور علوم وفنون کی ترقی سے تھی اتنی دین کی اشاعت سے نہیں تھی۔ اس طرح بغداد کے اثر سے قرطبہ تمدن اور علوم و فنون کا مرکز توبن گیا، مگر وہ اشاعت دین کا مرکز نہ بن سکا۔
چنانچہ اسپین میں جب حالات بدلے تو وہاں کی مسلم اقلیت پر عیسائی اکثریت آناًفاناً غالب آگئی اور الحمرا کا بے مثال محل مسلمانوں کے کچھ کام نہ آسکا۔ چونکہ عام آبادی میں عیسائیوں کو غلبہ حاصل تھا اس لیے 904ھ میں قرطبہ کو زیر کرنے کے بعد جب مسلمانوں کے خلاف دارو گیر شروع ہوئی تو ان کے لیے وہاں چھپنےکی بھی کوئی جگہ نہیں تھی ، عیسائیوں نے غالب آتے ہی تمام ملک میں اپنی مذہبی عدالتیں قائم کر دیں جن میں ہر روز ہزاروں مسلمان گرفتار کر کے لائے جاتے اور طرح طرح کے جھوٹے الزامات لگا کر آگ میں جلا دیے جاتے۔ 904ء میں ایک عام حکم جاری کیا گیا کہ ہر وہ شخص جو مسلمان ہے وہ مسیحی دین قبول کرلے، ورنہ جہاں اس کو پایا جائے گا قتل کر دیا جائے گا، کچھ مسلمان جہازوں پر سوار ہو کر افریقہ کے لیے روانہ ہوئے مگر ان کو ساحل افریقہ تک پہنچنے سے پہلے ہی سمندر میں غرق کر دیا گیا۔ آخر کار کوئی ایک بھی توحید پرست سرزمین اسپین میں باقی نہ رہا۔ عیسائیوں نے سب کو یا تو تلوار کے گھاٹ اتار دیا۔ یا سمندر میں ڈبودیا ۔ یا آگ میں جلا ڈالا۔
سندھ میں کیا ہوا
خلفائے اربعہ کے بعد اسلامی حکومت بنی امیّہ کے ہاتھ میں چلی گئی، جس کے بانی امیر معاویہ (وفات 60ھ) تھے۔ اس سلسلۂ حکومت کا پانچواں فرماں روا عبد الملک بن مروان تھا۔ 86ھ میں عبد الملک کا انتقال ہوا، انتقال سے پہلے اس نے اپنے دونوں بیٹوں ولید اور سلیمان کو ولی عہد مقرر کر دیا۔ اس نے تمام صوبوں کے گورنر اور عاملوں کے نام فرامین جاری کیے کہ عید الفطر کے اجتماع میں یکم شوال 86 ھ کو ولید وسلیمان کی ولی عہدی کے لیے بیعت لی جائے۔ چنانچہ تمام ممالک اسلامی میں تاریخ مقررہ پر ان دونوں کی ولی عہدی کے لیے بیعت لی گئی۔ یہی موقعہ ہے جب کہ مدینہ کے مشہور محدث سعید بن مسیب کو بیعت سے انکار کرنے پر درے لگائے گئے۔
عبد الملک بن مروان (23-86ھ) کے انتقال کے بعد جب اس کا بڑالڑ کا ولید تخت پر بیٹھا تو اس نے یہ کوشش شروع کی کہ اپنے بعد تخت کی وراثت اپنے بھائی (سلیمان) کے بجائے اپنے بیٹے( عبد العزیز ) کی طرف منتقل کر دے، ولید بن عبد الملک نے پہلے اپنے بھائی سلیمان کو لکھا کہ وہ از خود ولی عہدی سے دست بردار ہو جائے ۔ جب سلیمان اس کے لیے تیار نہ ہوا تو اس نے دوسری تدبیر کی۔ اس نے تمام والیان ملک اور ممتاز افراد کو اپنے حق میں ہموار کیا اور طے کیا کہ ایک روز کسی خاص اجتماع کے موقع پر تمام ممالک اسلامی میں سلیمان بن عبد الملک کی ولی عہدی کی منسوخی کا اعلان کر دیا جائے اور اس کے بجائے عبد العزیز بن ولید کی ولی عہدی پر لوگوں سے بیعت لے لی جائے۔
مگر اس منصوبہ کی تکمیل سے پہلے 15 جمادی الثانی 96 ھ (فروری 815 ء)میں اس کا انتقال ہو گیا۔ ولید بن عبد الملک کے انتقال کے بعد سلیمان بن عبد الملک تخت نشین ہوا تو قدرتی طور پر وہ ان سرداروں کا دشمن ہو گیا جنھوں نے اس کو تخت سے محروم کرنے کی سازش میں اس کے بھائی ولید کا ساتھ دیا تھا۔ انھیں میں سے ایک حجاج بن یوسف تھا جو مشرق کے اسلامی ممالک کا وائسرائے تھا اور مغربی ممالک کا وائسرائے موسی بن نصیر — حجاج کا صدر مقام عراق تھا اور موسیٰ بن نصیر کا قیروان۔ ان دونوں نے ولید کے منصوبہ کی حمایت کی تھی۔ اس لیے دونوں سلیمان کی نظر میں وہ بدترین دشمن تھے، جن سے سب سے پہلے نمٹنانئے حکمراں کے لیے ضروری تھا۔
حجاج ، سلیمان بن عبد الملک کی تخت نشینی سے آٹھ ماہ پہلے شوال 95ھ میں انتقال کر گیا تھا۔ اس لیے سلیمان اب حجاج بن یوسف کو نہیں پاسکتا تھا تاہم حجاج کے رشتے دار اس کے انتقامی جذبات کی تسکین کے لیے موجود تھے، جن میں سر فہرست حجاج کے ابن عم اور داماد محمد بن قاسم کا نام تھا جس نے سندھ (موجودہ پاکستان) میں غیر معمولی فاتحانہ کارنامے دکھا کر حجاج کی شہرت میں اضافہ کیا تھا ۔
محمد بن قاسم نہایت اعلیٰ درجہ کی قابلیت رکھنے والا سپہ سالار تھا۔ ایک مورخ کے الفاظ میں ’’اس نے سندھ و ہند کی فتوحات میں ایک طرف اپنے آپ کو رستم و اسکندر سے زیادہ بڑا بہادر ثابت کیا تو دوسری طرف نوشیروان عادل سے بڑھ کر عادل و رعایا پر ور ظاہر ہوا‘‘۔ یہ نوجوان فتح مند سردار سندھ و پنجاب میں اتنی تیزی سے گھس رہا تھا اوربستیوں کی بستیاں اس کے اثر سے اس طرح دائرہ اسلام میں داخل ہوتی چلی جارہی تھیں کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ عنقریب سارا علاقہ ایک اسلامی علاقہ بن جائے گا۔
ہندوستان کی مہم پر محمد بن قاسم کو حجاج ہی نے روانہ کیا تھا اس کے لیے حجاج نے کتنا اہتمام کیا تھا اس کا اندازہ چند مثالوں سے ہوگا۔
1۔حجاج نے دیگر تمام ساز و سامان کے علاوہ 30 ہزار دینار خصوصی طور پر محمد بن قاسم کے ہمراہ کیے تھے تاکہ ناگہانی ضرورت کے وقت کام آسکیں (تاریخ بند، میر معصوم، صفحہ 80)۔ کہا جاتا ہے کہ فوج کشی کی اس مہم پر کل 6کروڑ در ہم صرف ہوئے تھے۔
2۔ فراہمی سامان کا حجاج کو اس قدر خیال تھا کہ اس نے سوچا کہ محمد بن قاسم کو عربوں کی عادت کی بنا پر کھانے میں سرکہ کی ضرورت ہوگی ۔ چنانچہ اس نے بہت سی روئی سرکہ میں ترکر کے خشک کرایا اور اس کو محمد بن قاسم کے پاس روانہ کیا اور لکھا کہ جب سرکہ کھانے کا جی چاہے تو اس کو پانی میں بھگو کر نچوڑ لیا کرنا۔
3۔پانچ منجنیقین جو بھاری ہونے کی وجہ سے خشکی کے راستے سے روانہ نہ ہوسکتی تھیں، ایک بڑے جہاز پر لدوا کر ساحل سندھ کی طرف روانہ کیں۔یہ منجنیقیں اتنی بڑی تھیں کہ ان میں سے ہر ایک کو چلانے کے پانچ سوں آدمیوں کی ضرورت ہوتی تھی۔
4۔ اس پوری مہم کے دوران حجاج اور محمدبن قاسم کے درمیان ڈاک کا سلسلہ جاری رہا۔ حجاج بصرہ میں تھا اور محمد بن قاسم سندھ میں۔ مگر انتظام یہ تھاکہ ہر تیسرے روز ایک خط حجاج لکھتا تھا اور اسی طرح محمد بن قاسم بھی ساری مصروفیتوں کے باوجود ہر تیسرے روز حجاج کے نام مفصل حالات تحریر کرتا۔ ڈاک کی روانگی کے لیے ایسے خاص انتظامات کیے گئے تھے کہ اگر چہ دیبل (سندھ) اور بصرہ میں ہزاروں کوس کا فاصلہ تھا۔ مگر برابر ساتویں روز بصر ہ سے دیبل اور دیبل سے بصرہ دونوں کے خطوط پہنچ جاتے تھے ۔
محمد بن قاسم نے 95ھ میں ملتان فتح کیا ۔ اب پورا سندھ اس کے قبضہ میں تھا ۔ بحر عرب سے لے کر حدود کشمیر تک تمام را جاؤں اور سرداروں نے اسلام کی عظمت کو تسلیم کر لیا تھا ۔اب اس نے پورے برصغیر میں اسلام کی اشاعت کا منصوبہ بنایا، اور قنوج کی طرف کوچ کرنا شروع کیا۔ اس کا خیال تھا کہ قنوج پر قبضہ کرنے کے بعد بقیہ علاقوں کی فتوحات کا دروازہ کھل جائے گا۔ مگر 96 ھ میں سلیمان بن عبد الملک تخت نشین ہوا ۔ اس کو حجاج کے متعلقین سے حجاج کا بدلہ لینا تھا۔ اس نے ایک طرف حجاج کے بعد یزید بن مہلب کو عراق کا والی مقرر کیا، اور ایک خارجی المذہب صالح بن عبدالرحمن کو خراج وصول کرنے کی خدمت سپرد کی۔ یہ دونوں حجاج کے بدترین دشمن تھے۔ چنانچہ سلیمان کے حکم کے مطابق ان دونوںنے نسل عقیل (خاندان حجاج) کے لوگوں کو طرح طرح سے ماخوذ کر کے قتل کرنا شروع کیا۔
دوسری طرف سلیمان نے محمد بن قاسم کو ولایت سندھ سے معزول کرنے کا حکم جاری کر دیا، جس کا قصوراس کے سوا اور کچھ نہ تھا کہ وہ حجاج بن یوسف کا ابن عم اور داماد تھا، اور حجاج کا نامور عزیز ہونے کی بنا پراس کو ہلاک کر کے سلیمان اپنے انتقامی جوش کو ٹھنڈا کر سکتا تھا۔ سلیمان نے محمد بن قاسم کی جگہ یزید بن ابی کبشہ کو سندھ کا حاکم مقرر کیا، نیا حاکم دربار خلافت کا حکم لے کر سندھ پہنچا۔ اس نے محمدبن قاسم کو گرفتار کیا اور مجرموں کی طرح اس کو ٹاٹ کے کپڑے پہنائے، ہاتھ پاؤں میں زنجیریں ڈالیں اور معاویہ بن مہلب کی حراست میں عراق روانہ کیا۔ یہ بھی محمد بن قاسم کی سعادت مندی تھی، ورنہ سندھ میں وہ اتنا مقبول تھا کہ وہ خلیفہ کے حکم سے بغاوت کر کے خود یزید اور مہلب کو گرفتار کر سکتا تھا۔
فتوح البلدان (صفحہ 464) کے بیان کے مطابق عربی کا مشہور شعراسی وقت محمد بن قاسم کی زبان پر جاری ہوا تھا:
أَضَاعُونِي وَأَيَّ فَتًى أَضَاعُوا لِيَوْمِ كَرِيهَةٍ وَسَدَادِ ثَغْرٍ
یعنی، لوگوں نے مجھے ضائع کر دیا اور کیسے جوان کو ضائع کیا ۔ وہ جو مصیبت کے دن کام آئے اور سرحدوں کو محفوظ رکھے۔
اس کے بعد محمد بن قاسم کو دمشق لے جایا گیا۔ وہاں سلیمان کے حکم سے وہ واسط کے جیل خانہ میں قیدکر دیا گیا۔ اس پر داروغہ جیل کی حیثیت سے صالح بن عبد الرحمن مسلط تھا، جس نے اس کو جیل میں طرح طرح کی تکلیفیں دے کر مار ڈالا۔
ایک مورخ ان واقعات کو بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے:
’’ اگر ولید بن عبد الملک کی زندگی کچھ روزا ور وفاکرتی ۔ یا سلمان ہی عقل و ہوش سے کام لے کر محمد بن قاسم کو چھوڑ دیتا تو شاید ایشیا کی تاریخ کچھ اور ہوتی‘‘۔
یہی مورخ مزید لکھتا ہے ’’ محمد بن قاسم کے زمانہ میں خلقت ِخدا کثرت سے اسلام قبول کرتی جارہی تھی، تبلیغ دین کی جو سچی اور صحیح کوشش اس نے چند روز میں کر کے دکھا دی ۔بعد کی بڑی بڑی سلطنتیں صد یوں میں بھی نہ کرسکیں ۔ اوراس نو عمر سپہ سالار نے چند روز کی حکمرانی میں جو گہرا اثر ڈال دیا تھا۔ ویسا اثر پٹھانوں اور مغلوں کی سلطنتیں پانچ سو برس میں بھی ملک پر نہیں ڈال سکیں، سندھ کے علاوہ بقیہ ملک میں آج مسلمان تھوڑے ہیں اور ملک پر کوئی اثر نہیں رکھتے۔بخلاف اس کے سندھ میں سب سے بڑا غلبہ مسلمانوں کو حاصل ہے اور یہ صرف عربوں اور خاصتاً محمد بن قاسم کی دین ہے ‘‘۔
