خواتین میں دعوت

 عام طور پر ایسا ہے کہ لوگ ديني کام كے ليے كسي شخصيت كو اپنا رول ماڈل بنالیتے ہیں۔ مثلاً کچھ لوگ ابن تیمیہ کواپنا رول ماڈل بنائے هوئے ہیں، اور کوئی غزالی کو رول ماڈل سمجھے هوئے هے، وغیرہ ۔ پھر ہر ايك اپنے ماڈل کو واحد معیاری ماڈل مان کر اقدام کرتا ہے۔ لیکن جب وہ دیکھتا ہے کہ اس کا گول اس کے لیے اچیویبل (achievable) نہیں ہے تو شعوری یا غیر شعوری طور پر سمجھ لیتا ہے کہ وہ کوئی قابلِ ذکر کام نہیں کرسکتا۔

دوسرے الفاظ میں وہ اپنے عمل کا آغاز عملی اقدام سےکرتا ہے، نہ کہ افراد کی ذہن سازی سے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی گہری تحریک کا صحیح آغاز یہ ہے کہ پہلے افراد کی ذہن سازی کی جائے، اور جب ذہن پوری طرح بن چکا ہو تو اس کے بعد عملی اقدام کیا جائے۔ ذہن سازی کے بغیر اقدام کرنے کا مطلب، بغیر تیار ی کے اقدام کرنا ہے، اور جو اقدام تیاری کے بغیر کیا جائے اس کا انجام پیشگی طورپر معلوم ہے، اور وہ ہے مکمل ناکامی۔

الرسالہ مشن نے اس معاملے میں ایک اچھی مثال قائم کی ہے۔مز فہمیدہ خانم (پیدائش 1964) ایک سیدھی سادی گھریلو خاتون ہیں۔ وہ میری کتابیں مطالعہ کرتی ہیں، اور میری تقریریں سنتی ہیں، اور سی پی ایس کی ممبر ہیں۔ ایک مرتبہ ان کے دل میں یہ خیال آیا کہ وہ دعوت کا کام پوری طرح نہیں کر پارہی ہیں۔ یہ سوچ ان کی زندگی کی انقلابی سوچ ثابت ہوئی۔ انھوں نے اس کے بعد دعا کی، اور اپنے تعلقات کی خواتین سے مل کر ایک واٹس ایپ گروپ بنایا، جس میں انھوں نے خواتین کے ساتھ الرسالہ مشن کی آئڈیالوجی كي بنياد پر ڈسکشن شروع کیا۔

 یہ خواتین واٹس ایپ کے ذریعے جمع ہوئیں۔اس میں نہ صرف انڈیا بلکہ انڈیا کے باہر کی خواتین بھی شامل ہیں۔ یہ لوگ روزانہ آپس میں دین اور آدابِ زندگی کے تعلق سے پہلے ایک سوال رکھتی ہیں، جو ان کو روزمرہ کی زندگی میں پیش آیا ہو۔ پھر اس پر وہ آپس میں ڈسکشن کرتی ہیں۔ یہ ڈسکشن قرآن و حدیث اور الرسالہ کے مضامین پر مبنی ہوتا ہے، یا ذاتی تجربات و مشاہدات پر ۔ اسي كے ساتھ وہ یہ بھی کرتی ہیں کہ مہینہ میں ایک دن سی پی ایس اسکالرس ٹیم کے ساتھ سوال و جواب کی نششت رکھتی ہیں۔ اس سے ان کے بہت سے کنفیوزن دور ہوتے ہیں۔ اور دین کے بہت سے نئے گوشے کھلتے ہیں، اور ان کا انٹلکچول ڈیولپمنٹ ہوتا ہے۔

ٹيم كي ايك ممبر ڈاکٹر سفینہ تبسم (سہارن پور)نے ایک دن یہ تاثر دیاکہ آج میں ڈسکشن میں زیادہ حصہ نہیں لے سكي، مگر سارے میسجزكو پڑھ کر بہت اچھا لگا۔ آج کے ڈسکشن سے میرا ٹیک اوے (takeaway)یہ ہے کہ میں اپنے اور اپنی فیملی كے اندر ایجوکیشن اور انٹلکچول ڈیولپمنٹ پر فوکس کروں گی، اور اس کام کو اس طرح آگے بڑھاؤں گی کہ وہ اگلی نسل تک چلتا رہے۔

اس گروپ میں پوری دنیا کی سو سے زیادہ خواتین شامل ہیں، جواپنا انٹلكچول ڈيولپمنٹ كررهي ہیں، اور دعوت کے کام کو آگے بڑھارهي هيں۔یہ واقعہ جب میں نے سنا تو مجھے ایک حدیثِ رسول یاد آئی۔حدیث کے الفاظ یہ ہیں:جُعِلَتِ الْأَرْضُ كُلُّهَا لِي وَلِأُمَّتِي مَسْجِدًا وَطَهُورًا فَأَيْنَمَا أَدْرَكَتْ رَجُلًا مِنْ أُمَّتِي الصَّلَاةُ فَعِنْدَهُ مَسْجِدُهُ وَعِنْدَهُ طَهُورُهُ(مسند احمد، حدیث نمبر 22137)۔ یعنی پوری زمین کو میرے لیے، اور میری امت کے لیے مسجد اور پاک بنادی گئی ہے۔ پس میری امت کے کسی فرد کے لیے جس مقام پر نماز کا وقت ہوجائے وہیں اس کے لیے نماز کی جگہ ہے اور وہیں اس کے لیے طہارت کا سامان۔

توسيعي اعتبار سے اس حدیث پر غور کیا جائےتو اس سے یہ خوش خبری معلوم ہوتی ہے ۔ يعني ایسا زمانہ آنے والا ہے، جب کہ مذہبی جبر كي حالت ختم ہوجائے گي، اور امت کے لیے پوری طرح یہ موقع ہوگا کہ وہ لوگ جس طرح مسجد میں آزادی کے ساتھ عبادت کرتے ہیں، اسی طرح آزادی کے ساتھ دنیا میں ہر جگہ عباد ت اور دعوت کا کام انجام دےسكيں گے۔ یہاں تک کہ انٹرنیٹ کی ورچول دنیا (virtual world)میں  ھی، یعنی فیس بک اور واٹس ایپ وغیرہ پربھي۔ اور ایک دوسرے كے ساتھبآسانی رابطہ قائم كرنا ان كے ليے ممكن هوجائے گا۔ سی پی ایس خواتین کا یہ کام بلاشبہ قابلِ تعریف ہے۔ ہر ایک عورت اور هر ايك مردموجودہ دور میں اس طرح دینی مشن کو آگے بڑھاسكتے هيں۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom