سی پی ایس کا مشن

ایک حدیثِ رسول مسند امام احمد میں ان الفاظ میں نقل کی گئی ہے:عَن جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَسَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُإِنَّ النَّاسَ دَخَلُوا فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا، وَسَيَخْرُجُونَ مِنْهُ أَفْوَاجًا (مسند احمد، حدیث نمبر 14696)۔ یعنی صحابی رسول جابر بن عبد اللہ نے کہا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ لوگ فوج درفوج اللہ کے دین میں داخل ہوگئے عنقریب اسی طرح فوج در فوج وہ اس سے نکل جائیں گے۔

ایک شارح نے اس کی تشریح میں یہ الفاظ لکھے ہیں: وَذَلِكَ فِي آخر الزَّمَان عِنْد وجود الأشراط (التيسير بشرح الجامع الصغير، جلد1، صفحہ303)۔ یعنی یہ آخری زمانے میں ہوگا، قیامت کی نشانیوں کے وجود میں آنے کے وقت۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث دو ادوار سے تعلق رکھتی ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دورِ شرک تھا۔ اس وقت رسول اور اصحاب رسول کی دعوتی جدوجہد سے لوگ بڑی تعداد میں شرک سے نکل کر توحید کی طرف آئے۔

اس کے بعد وہ دور آیا، جس کی پیشگی اطلاع ان الفاظ میں کی گئی تھی: سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقّ (41:53)۔ یعنی عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں اور انفس میں۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ حق ہے۔اس دور میں اہل اسلام کو یہ کرنا تھا کہ وہ آفاق و انفس کے دلائل (بہ الفاظ دیگر سائنسی دلائل) کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو دوبارہ توحید پر قائم کریں۔ مگر مسلمانوں نفرتِ مغرب کی وجہ سے اُس دور کو سمجھ نہیں سکے، اور پوری شدت کے ساتھ اس کے مخالف بن گئے، اور منفی ذہن کے ساتھ ٹکراؤ میں مشغول ہوگئے۔

ابتدائے اسلام میں واقعہ یہ ہوا کہ لوگ شرک سے نکل کر توحید میں آئے۔اس کے بعد ایک نیا دور آیا، یعنی سائنس کا دور۔ لیکن جب سائنسی زمانہ آیا تو توحید اور شرک کا مساوات (equation) بدل چکا تھا۔ اب توحید کے مقابلے میں شرک نہیں تھا، بلکہ توحید کے مقابلے میں انکارِ خدا یعنی الحاد کا زور تھا۔ اس وقت کرنے کا کام یہ تھا کہ الحاد کے مقابلے کے لیے مائنڈ کو ایڈریس کرنے والا مضبوط لٹریچر تیار کیا جاتا ۔ تاکہ اگر جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے ذہن میں مذہب کے خلاف کوئی کنفیوزن ہو تو وہ دور جائے۔ لیکن برعکس طور پر ہمارے علما نے جدید تعلیم یافتہ لوگوں پر ارتداد کا فتویٰ لگا دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو لوگ مذہب کے بارے میں کنفیوزن کا کیس تھے، وہ دین سےبیزاری کا کیس بن گئے۔

ہندستان کے ایک معروف عالم دین نے ایک کتاب شائع کی تھی، اس کا ٹائٹل تھاردۃ ولا ابابکر لها (ایک ارتداد ہے، لیکن اس کے مقابلے کے لیے کوئی ابوبکر نہیں)۔اس کتاب کے مصنف نے اس نئے دور کو ارتداد کا دور کہا تھا۔ لیکن مسلمانوں کے لیے عملاً وہ بے خبری کا دور تھا۔ اس زمانے میں مسلمانوں پر شکایت اور نفرت کا ذہن غالب تھا۔ اس لیے وہ اس دور کو سمجھ نہیں سکے۔

یہ سائنس کا دور تھا، جس کو قرآن میں آفاق و انفس کے ظہور کا دور کہا گیا تھا۔ قرآن کے بیان کے مطابق، یہ دور دینِ حق کی تبیینِ مزید (41:53) کا دور تھا۔ مگر بے خبری کی بنا پر پوری مسلم کمیونٹی اس دور کو مخالفِ اسلام دور سمجھ کر اس میں پیدا شدہ مواقع کو اویل کرنے سے محروم ہوره گئی۔ حالاںکہ وہ دین کی سائنسی تبیین کا دور تھا۔ مندرجہ بالا حدیث کو جب قرآن کی اس آیت کے ساتھ ملا کر سمجھا جائے تو اس سے گویا یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائے اسلام میں شرک کا مقابلہ کرنے کے لیے مثبت طرز عمل اختیار کیا گیا تھا، یعنی دعوت کا طریقہ۔جس سے لوگ فوج در فوج اسلام کی طرف آئے۔ یہی طریقہ الحاد کے مقابلے کے لیے اختیار کیا جائے،ایسا ہر گز نہیںهونا چاهيےکہ فتویٰ لگا کر ايسے لوگوں کو دین سے دور کردیا جائے۔

سی پی ایس انٹرنیشنل نے اس دور کو دریافت کیا، اور اس کی تردید کے بجائے دعوت کے نئے دور کے طور پر اس کو استعمال کیا۔ راقم الحروف نے بڑے پیمانے پر عصری اسلوب میں دعوتی لٹریچر تیار کیا ہے، جس کوسی پی ایس کے لوگ اردو، ہندی ، انگریزی اور دوسری زبانوں میں چھاپ کر وسیع پیمانے پر پھیلا رہے ہیں۔ سی پی ایس کے تحت یہ کام بڑے پیمانے پر انجام دیا جا رہا ہے ۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom