مطالعۂ حدیث
شرح مشکاۃ المصابیح
(حدیث نمبر110-123)
110
مطر بن عكام رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا جب الله كسي بندے كے لیے فيصله كرتا هے كه فلاں مقام پر اس كي موت هو تو اس مقام پروہ اس كے لیے كوئي ضرورت ركھ ديتاهے (مسنداحمد، حدیث نمبر 21983؛ سنن الترمذي، حدیث نمبر2146)۔
تشریح خدا اپني مصلحتوں كے تحت هر مرد اور عورت كے لیے يه فيصله فرماتاهے كه اس كو كتنے دن تك موجوده دنيا ميں رهنا هے اور كس مقام پر اس كي وفات هونے والي هے۔ جب كسي كا وقت آتا هے تو اس كے لیے ايسے حالات پيدا هوتے هيں كه وه زمين كے اسي مقام پر پهنچ جائے جهاں اس كي موت مقدر تھي۔
اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا کوخالق نے ایک مقصد کے تحت پیدا کیا ہے، اور وہ ہر لمحہ اس کی نگرانی کر رہا ہے۔ انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ خالق کے اس منصوبۂ تخلیق کو جانے اور زندگی کی منصوبہ بندی میں آخری حد تک اس کی رعایت کرے، جس طرح وہ دنیا کے سفر میں منصوبہ بندی (planning) کا اہتمام کرتاہے۔ وہ اپنے آپ کو ہر طرح غفلت کا شکار ہونے سے بچائے — جنت کسی انسان کو اسی عمل کی بنیاد پر ملے گی جو خالق کے منصوبۂ تخلیق کے مطابق ہو، نہ کہ کسی خودساختہ عمل یا خوش فہمیوں کی بنیاد پر۔
111
عائشه رضي الله عنها كهتي هيں كه اے خدا كے رسول مومنوں كي اولاد كا كيا حكم هے۔ آپ نے فرمايا كه وه اپنے باپوں كے تابع هيں۔ ميں نے كها كه اےخدا كے رسول، كيا كسي عمل كے بغير۔ آپ نے فرمايا كه الله خوب جانتا هے جو وه كرنے والےتھے۔ پھر ميں نے كها كه مشركين كي اولاد كا كيا حكم هے۔ آپ نے فرمايا كه وه اپنے باپوں كے تابع هيں۔ ميں نے كها كه كيا كسي عمل كے بغير۔ آپ نے فرمايا الله خوب جانتا هے جو وه كرنے والے تھے۔ (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر4712)
تشریحاس حديث ميں مذكوره مسئله كا عمومي حكم بتايا گيا هے۔نابالغ بچوں کے بارے میں درست بات وہ ہے، جو ابن عبد البر نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے بیان کی ہے۔ حضرت عائشہ کے مطابق، حضرت خدیجہ نے مشرکین کی اولاد کے تعلق سے پوچھا تو آپ نے کہا کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ ہوں گے، پھر اس کے بعد ان سے پوچھا گیا تو آپ نے کہا کہ اللہ تعالی خوب جانتا ہے کہ وہ کیا کرنے والے تھے، پھر اس کے بعد پوچھا گیا تو یہ آیت نازل ہوئی:وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى(6:164)۔ یعنی، اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔ چنانچہ آپ نے کہا کہ وہ فطرت پر ہیں، تو وہ جنت میں ہوں گے (هُمْ عَلَى الْفِطْرَةِ وَهُمْ فِي الْجَنَّةِ)۔ الاستذکار لابن عبد البر، جلد3، صفحہ113۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جنت میں دیکھا، آپ نے دیکھا کہ ان کے اردگرد بہت بڑی تعداد میں چھوٹے چھوٹے بچے موجود ہیں۔ ان كے بارے ميں آ پ نے کہا: وَأَمَّا الولْدَانُ الَّذِينَ حَوْلَهُ فَكُلُّ مَوْلُودٍ مَاتَ عَلَى الفِطْرَةِ، قَالَ فَقَالَ بَعْضُ المُسْلِمِينَيَا رَسُولَ اللهِ، وَأَوْلاَدُ المُشْرِكِينَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَوَأَوْلاَدُ المُشْرِكِينَ۔(صحیح البخاری، حدیث نمبر 1386 ؛صحیح مسلم، حدیث نمبر2275)۔ یعنی يه وه بچے ہیں، جن کا انتقال فطرت پر ہوا ہے۔ تو کچھ مسلمانوں نے کہااے اللہ کے رسول، مشرکین کی اولاد بھی ان میں ہیں۔ آپ نے کہا ہاں، مشرکین کی اولاد بھی۔
امام النووی نے کہا ہے کہ دنیا میں مشرکین اور منکرین کی اولاد کا حکم وہی ہے جو ان کے والدین کا حکم ہے (أَنَّ أَوْلَادَ الْكُفَّارِ حُكْمُهُمْ فِي الدُّنْيَا حُكْمُ آبَائِهِمْ)، لیکن آخرت کے بارے میں صحیح بات یہ ہے کہ اگر وہ بالغ ہونے سے پہلے انتقال کرجائیں تو جنت میں ہوں گے۔ (شرح صحیح مسلم، جلد12، صفحہ 50)
112
عبدالله بن مسعود رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا زنده گاڑنے والي اور زنده گاڑي هوئي دوزخ ميں هيں۔(سنن ابی داؤد، حدیث نمبر4717)
تشریحاس حدیث کی وضاحت قرآن کی دو آیتوں کو ملاکر پڑھنے سے سمجھ میں آتی ہے۔ وہ آیت یہ ہے: وَاِذَا الْمَوءُودَةُ سُىِٕلَتْ۔ بِاَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ (81:8-9)۔ یعنی، اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی۔
اسلام كا ايك بنيادي اصول يه هے كه ايك شخص كے عمل كي سزا دوسرے شخص كو نهيں دي جاسكتي۔ اللہ تعالیٰ کسی کا فیصلہ اس کے ذاتی عمل کی بنیاد پر کرے گا ۔ اس لیے بظاهر يه ناقابل قياس هے كه گاڑي جانے والي بے قصور بچي كو گاڑنے والے(خواه مرد يا عورت)كے جرم ميں شامل كيا جائے۔ غالباً يهاں كلام كا رخ گاڑنےوالےكي طرف هے، مگر شدت غضب كي بنا پر كلام كا مذكوره انداز اختيار كيا گيا۔
113
ابو الدرداء رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا الله اپني مخلوق ميں هر بنده كے متعلق پانچ چيزوں سے فارغ هوچكا هے۔ اس كي موت سےاور اس كے عمل سے اور اس كے ٹھكانے سے اور اس كے نشان قدم سے اور ا س كے رزق سے۔ (مسند احمد، حدیث نمبر 21722)
تشریحاس حديث ميں جن پانچ چيزوں كا ذكر هے ان كا تعلق دراصل ان امتحاني پرچوں سےهے جن ميں هر آدمي كا امتحان ليا جانا مقدر هے۔ آدمي كو چاهیے كه وه ا س بحث ميں نه پڑے كه اس كو كون سا پرچه ملا اوركون سا نهيں ملا۔ اس كو چاهیے كه وه اپنا پورا دھيان صرف اِس پهلو پر لگائے كه جو امتحاني پرچے اس كے لیے مقدر كیے گئے هيں ان كو وه كاميابي كےساتھ حل كرسكے۔اِس دنیا میں کامیابی کا راز یہ نہیں ہے کہ آدمی مادّی سازوسامان اپنے گرد اکٹھا کرلے۔ یہاں کامیابی کا راز یہ ہے کہ آدمی کو امتحان کاجو پرچہ دیاگیا ہے اس پرچے کو حل کرنے میں وہ کامیاب ہو جائے۔"نشان قدم" یعنی دنیا میں کس کس جگہ انسان اپنا قدم رکھے گا۔
114
عائشه رضي الله عنها كهتي هيں كه ميں نے رسول الله صلي الله عليه وسلم كو يه كهتے هوئےسنا جو آدمي تقدير ميں كسي چيز پر بحث كرے گا اس كے بارےميں اس سے قيامت كے دن پوچھا جائے گا۔ اور جو تقدير كے معاملے ميں بحث نهيں كرےگا اس سے اس كي بابت سوال نهيں هوگا۔ (سنن ابن ماجه، حدیث نمبر83)
تشریحانسان اپني محدوديت كي بنا پر تقدیر كے معاملےميں حتمي رائے نهيں قائم كرسكتا۔ ايسي حالت ميں جو آدمي خوض سے بچے اور اجمالي علم پر قناعت كرے تو وه آخرت كي پكڑ سے بچ گيا۔ اور جو آدمي اس معاملے ميں خوض اور بحث كركے حتمي رائے تك پهنچنا چاهے وه دنيا ميں ذهني پراگندگي ميں مبتلا هوگا اور آخرت ميں اس جرم ميں پكڑا جائے گا كه اس نے اپني فطري محدوديت كا اعتراف نهيں كيا اور بے فائده طور پر ايسي بحثوں ميں پڑا جن كا جواب معلوم كرنا اس كے لیے ممكن هي نه تھا۔
115
ابن الديلمي (تابعی) كهتےهيں كه ميں ابي ابن كعب كے پاس گيا۔ ميں نے ان سے كها كه ميرے دل ميں تقدير كے بارےميں كچھ شك پيداهوگيا هے۔ پس آپ مجھے كوئي بات بتائيں۔ شايد الله اس كو ميرےدل سےنكال دے۔ انھوں نے كها كه اگر الله تعالي اپنے آسمان كے لوگوں كو اور اپني زمين كے لوگوں كو عذاب دے تو وه اس عذاب پر ان كے حق ميں ظالم نه هوگااور اگر وه ان پر رحم فرما دے تو اس كي رحمت يقيناً ان كےاعمال سے بهتر هے۔ اور اگر تم احد پهاڑ كے برابر سونا صدقه كرو تو الله تم سے اس صدقه كو قبول نهيں كرے گا، يهاں تك كه تم تقدير پر ايمان لاؤ اور تم يه جانو كه جو تمهيں پهنچا وه تم سےرك نهيں سكتا تھا اور جو تم سے رك گيا وه تم كو پهنچ نه سكتا تھا اور اگر تم اس كے سوا كسي اور چيز پر مرے تو دوزخ ميں جاؤگے۔ وه كهتےهيں كه پھر ميں عبد الله بن مسعود كے پاس گيا تو انھوں نے بھي ايسي هي بات كهي۔ پھر حذيفه بن اليمان كے پاس گيا تو انھوں نے بھي ايسي هي بات كهي۔ پھر ميں زيد بن ثابت كے پاس گيا تو انھوں نے بھی رسول الله صلي الله عليه وسلم سے اس قسم كي حديث بيان كي۔ (مسنداحمد، حدیث نمبر 21589 ؛ سنن ابی داؤد، حدیث نمبر4699؛ سنن ابن ماجه، حدیث نمبر77)
تشریحاس حديث ميں جو بات كهي گئي هےوه بندوں كي نسبت سے هے۔ بندوں كو چاهیے كه وه اس حقيقت كا مكمل اعتراف كريں كه ان كا رب قادر مطلق هے۔ انسان کو اس کے رب کی طرف سے اتنی زیادہ نعمتیں ملی ہوئی ہیں کہ ان کا شمار ممکن نہیں۔ اس كا حق بندوں كے اوپر اتنا زياده هے كه وه بندوں كے ساتھ جو معامله بھي كرے وه اس كي طرف سے ظلم نه هوگا۔ اس قسم كا عقيده ايمان بالله كا ايك لازمي تقاضه هے۔ تاهم جهاں تك خدا كا تعلق هے، اس كي شانِ كمال كا يه بھي ايك پهلو هے كه اس نے يه فيصله فرماديا هے كه اس كي رحمت اس كے غضب كے اوپر غالب رهے گي: وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ(7:156)۔اس لیےاگر کسی نے غلط عمل نہ کیا ہو تو وہ اس کو ناحق نہیں پکڑے گا۔
116
نافع تابعي كهتے هيں كه ايك آدمي عبدالله ابن عمر كے پاس آيا۔پھر اس نے كها كه فلاں شخص نے آپ كو سلام كها هے۔ انھوں نے كها كه مجھےيه بات پهنچي هے كه اس نے دين ميں نئي بات نكالي هے۔ پس اگر اس نے دين ميں نئي بات نكالي هے تو ميري طرف سے اس كو سلام نه پهنچانا۔ كيوں كه ميں نے رسول الله صلي الله عليه وسلم كو يه كهتے هوئے سنا هے كه ميري امت ميں —يا يه كه — اس امت ميں خسف (دھنس جانا) اور مسخ (چهره بگڑ جانا) اور قذف (پتھر برسنا) هوگا تو وه اهل قدر پرهوگا۔ (سنن الترمذي،حدیث نمبر1252؛ سنن ابی داؤد، حدیث نمبر4613؛ سنن ابن ماجه، حدیث نمبر4061)
تشریحمذكوره صحابي نے جو بات كهي اس كا مطلب يه نهيں هے كه ايسے لوگوں سے سلام وكلام نه كيا جائے۔ صحابي كا قول ہیمرنگ (hammering)کے انداز میں اظهارِ بے زاري كے لیے هے، نه كه سلام کا مسئله بتانے كے لیے۔ تقدير كے معاملےميں مجمل ايمان كا حكم ديا گيا هے۔ جو شخص اس معاملےميں مجمل علم پر نه ركے بلكه اس معاملے ميں كُلّي علم تك پهنچنے كے لیے غير ضروري بحث و مباحثہ میں پڑے ، وه نہ صرف لوگوں کے درمیان کنفیوزن پھیلانے کا جرم کر رہا ہے، بلکہ وہ بدعت كا فعل بھی كررها هے اور بدعت اسلام ميں بهت بڑا جرم هے۔
117
ابو هريره رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا كه جب الله نے آدم كو پيدا كيا تو اس نے ان كي پشت پر هاتھ پھيرا۔ پھر ان كي پشت سے وه تمام جانيں باهر نكل آئيں جن كو الله ان كي نسل سے قيامت تك پيدا كرنے والا تھا۔ پھر الله نے ان ميں سے هر انسان كي دونوں آنكھوں كے درميان ايك چمك ركھي۔ پھر ان سب كو آدم كے سامنے پيش كيا۔ انھوں نے كها كه اے ميرے رب يه كون لوگ هيں۔ فرمايا كه تمهاري اولاد۔ آدم نے ان ميں سے ايك كو ديكھا تو اس كي دونوں آنكھوں كے درميان كي چمك ان كو بهت اچھي لگي۔ انھوں نے كها كه ميرے رب يه كون هے۔ فرمايا كه داؤد۔ انھوں نے كها كه اے ميرے رب، تو نے اس كي عمر كتني ركھي هے۔ فرمايا كه ساٹھ سال۔ انھوں نے كها کہ ميري عمر سے چاليس سال لے كر اس كي عمر ميں اضافه كردے۔ رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا كه جب آدم كي عمر ميں چاليس سال ره گئے تو موت كا فرشته ان كے پاس آيا۔ آدم نے كها كه كياميري عمر پوري هونے ميں چاليس سال باقي نهيں هيں۔ فرشته نے كهاكه كيا آپ نے اپني عمر كے چاليس سال اپنے بيٹے داؤد كو نهيں دے دیے تھے۔ لیکن آدم نے انكار كيا تو ان كي اولاد بھي انكار كرتي هے، آدم بھول گئے تو ان كي اولاد بھي بھولتي هے۔ آدم نے خطا كي تو ان كي اولاد بھي خطا كرتي هے۔ (سنن الترمذي، حدیث نمبر3076)
تشریحاس حديث جس واقعہ کا ذکر ہے اس كا تعلق بظاہر غیبی امور سے هے۔ لیکن اس واقعہ کے ریفرنس میں انسان کی فطری کمزوریوں کو بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً بھولنا، غلطی کرنا، وغیرہ۔ انسان ان فطری کمزوریوں پر قابو نہیں پاسکتا ہے۔ لیکن اسی كے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے یہ دروازہ بھی کھول دیا ہے کہ جب بھی اس سے کوئی غلطی یا بھول چوک ہوجائے، اور اس کو اس بات كا احساس ہوجائے تو وہ توبہ اور ندامت کا طریقہ اختیار کرے،جیسا کہ اس کے باپ آدم نے کیا تھا (البقرہ، 2:37)۔ وہ ایسا ہرگز نہ کرے کہ غلطی کے ارتکاب کے بعد اکڑ اور سرکشی میں پڑجائے۔ اکڑ اور سرکشی ابلیس کا طریقہ ہے ۔
غيبي امور كے بارےميں صحيح مسلك يه هے كه ان كو جيسا هے ويسا هي مان لياجائے۔ ان ميں خوض اور تعمق سے پرهيز كيا جائے۔
118
ابو الدرداء رضي الله عنه كهتے هيں كه نبي صلي الله عليه وسلم نے فرمايا الله نے آدم كو پيدا كيا اور جب ان كو پيدا كرلیا تو اس نے ان كے دائيں مونڈھے پر مارا۔ اس سے سفيداولاد نكالي۔ یہ سب چيونٹيوں کی مانند تھے۔ پھر اس نے ان كے بائيں كندھے پر مارا اور اس سے سياه اولاد نكالي۔ وه گويا كه كوئله تھے۔ پھر داهنے والوں كے متعلق فرمايا كه وه جنت كي طرف هيں۔ اور مجھ كو پرواه نهيں۔ اور بائيں كندھے والوں كے متعلق فرمايا يه دوزخ كي طرف هيں، اور مجھ كو پرواه نهيں(مسند احمد، حدیث نمبر 27488)۔
تشریحاس حديث سے معلوم هوتا هے كه انساني نسل كي تخليق باقاعده منصوبے كے تحت هوئي هے۔ انسان كو چاهیے كه وه اس منصوبے كو سمجھے اور اس كي تعميل كركے اس كاميابي كو حاصل كرلے جو اس كے خالق نے اس كے لیے مقدر كي هے۔اس منصوبۂ تخلیق کا مرکزی کردار انسان ہے، اور تخلیق کی منزل جنت (Paradise) ہے۔جو کہ انسان کے لیے معیاری دنیا (ideal world) ہے۔آغاز سے اختتام تک یہ ایک لمبا سفر ہے، جو مختلف مراحل سے گزرتا ہے، اور آخر کار وہ ابدی جنت تک پہنچتا ہے۔
خالق نے اپنے تخلیقی نقشہ کے مطابق، اُس دنیا کو ایک جوڑا دنیا (pair world) کی شکل میں بنایا ہے۔ ایک وہ دنیا جس میں ہم پیدا ہونے کے بعد رہتے ہیں۔ دوسری وہ دنیا جہاں ہم موت کے بعد چلے جاتے ہیں۔ انسانوں کو اُس کے پیدا کرنے والے نے ایک ابدی مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا ہے۔ مگر اُس نے اس کی زندگی کو دو مرحلوں میں تقسیم کردیا ہے۔ قبل ازموت دور اور بَعد از موت دور۔موت سے پہلے کی دنیا آزمائشی مقام(testing ground) کے طورپر بنائی گئی ہے اور موت کے بعد کی دنیا دارُالجَزاء (world of reward) کے طورپر۔
موجودہ دنیا چوں کہ ٹسٹ کے لیے بنا ئی گئی ہے اس لیے یہاں ہر عورت و مرد کو آزادی حاصل ہے۔ مگر یہاں دنیا میں موجود ہر چیز ناقص اور محدود صورت میں ہے۔ گویا کہ موجودہ دنیا ایک قسم کا اگزامینیشن ہال(examination hall) ہے۔ یہاں ٹسٹ دینے کے بقدر ضروری سامان موجود ہیں مگر پُرمسرت زندگی گزارنے کے لیے جو اعلیٰ چیزیں درکار ہیں وہ یہاں موجود نہیں۔ اگزامنیشن ہال کے اندر کوئی طالب علم اپنی مطلوب زندگی کی تعمیر کرنا چاہے تو اس کو صرف مایوسی ہوگی۔ یہی مایوسی ان لوگوں کو ہورہی ہے جو موجودہ ٹسٹ کی دنیا میں اپنے مطلوب مستقبل کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔قبل از موت دنیا میں کسی عورت یا مرد کو کیا کرنا ہے کہ وہ بعد از موت دنیا میں اپنی مطلوب دنیا (desired world) پاسکے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ اپنی آزادی کو خالق کے منشا کے مطابق استعمال کرے۔
119
ابو نضره تابعي كهتے هيں كه اصحاب رسول ميں سے ايك شخص جن كا نام ابو عبد الله تھا، ان كے پاس ان كے اصحاب عيادت كے لیےآئے۔ اس وقت وه رورهے تھے۔ انھوں نے ان سے پوچھا كه تم كو كيا چيز رلا رهي هے۔ كيا رسو ل الله صلي الله عليه وسلم نےتم سے يه نه كها تھا كه اپني مونچھيں كٹواؤ پھر اس كے پابند رهو يهاں تك كه مجھ سے مل جاؤ۔ انھوں نے كها كه هاں مگر ميں نےرسول الله صلي الله عليه وسلم كو يه كهتے هوئے سنا هے كه الله تعالي نے (اپني مخلوق ميں سے) ايك حصے كو اپنے داهنے هاتھ كي مٹھي ميں ليا اور (باقي) دوسرے حصے كو دوسرے هاتھ كي مٹھي ميں ليا۔ اور فرمايا كه يه اِس كے لیے هے اور يه اُس كے لیے هے اور مجھ كو پرواه نهيں۔ ابو عبد الله صحابي نے كها اور ميں نهيں جانتا كه ميں دونوں ميں سے كس مٹھي ميں هوں۔ (مسنداحمد، حدیث نمبر 17593)
تشریح ’’يه اِس كے لیے هے اور يه اُس كے لیے هے (هذه لهذه، وهذه لهذه) ‘‘کا مطلب يه هے كه دائيں مٹھي والے جنت كے لیے هيں اور بائيں مٹھي والے جهنم كے لیے۔ اس حديث سے معلوم هوتاهے كه سچا مومن اميد اور خوف كے درميان جيتا هے۔ كھلي بشارت بھي اس كي اس انديشه ناك حالت كو ختم نهيں كرتي۔ ايمان الله كي محبت اور خوف کا ایک ایسا مقام ہے جس میں آدمی اللهسے ڈرتا ہے مگراسی کی طرف بھاگتا ہے،اسي سے خوفمحسوس کرتا ہے مگر وه اسی سے پانے کی امید بھي رکھتاہے۔ یہ ایک ایسا اضطراب ہے جو سراپا اطمینان ہے اور ایسا اطمینان ہے جو سراپااضطراب ہے۔يهي وه نفسياتي حالت هے جو مومن كے كردار كي تشكيل كرتي هے۔ اللہ رب العالمین کی معرفت اور اس کے منصوبہ ٔتخلیق کی دریافت انسان کے اندر امید اور خوف کی ایک ایسی ملی جلی کیفیت پیدا کردیتي ہے جس میں بندہ کبھی یہ طے نہیں کر پاتا کہ ان دونوں میں سے کس کو فوقیت دے۔یہ سب کچھ کر کے اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھنے کا وہ اعلیٰ ترین احساس ہے جس میں آدمی کو صرف اپنی ذمہ داریاں یاد رہتی ہیں اور اپنے حقوق کو وہ بالکل بھول جاتا ہے۔صحابی رسول ابوعبد اللہ کے الفاظ اسی حقیقت کا اظہار ہیں۔
120
عبد الله بن عباس رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا الله نے آدم كي پشت (میں موجود تمام اولاد) سے نَعمَان (عرفہ) ميں عهد ليا۔ اس نے آدم كي پيٹھ سے ان كي ساري اولاد نكالي۔ پھر ان كو آدم كے سامنے چيونٹيوں كي طرح بكھير ديا۔ پھر ان سے روبرو كلام كيا۔ فرمايا كه كيا ميں تمهارا رب نهيں هوں۔ انھوں نے كها هاں، هم گواه هيں۔ تاكه تم لوگ قيامت كے دن يه نه كهو كه هم اس سے غافل تھے۔ يه كهو كه شرك تو همارے باپ داداؤں نے كيا، هم تو ان كے بعد کی نسل سے هيں۔ كيا تو هم كو اس پر هلاك كرے گاهے جو باطل پرستوں نے كيا۔ (مسنداحمد، حدیث نمبر2455)
تشریحاس حديث ميں جس معاملے كا ذكرهے اس كا مطلب، دوسرے لفظوں ميں يه هے كه انسان كي فطرت ميں خالق كا شعور پيدائشي طورپر ركھ دياگيا هے۔ اگر بالفرض كچھ لوگوں تك خدا كے دين كي دعوت براهِ راست طورپر نه پهنچے تب بھي مذكوره معاملے كي صورت ميں وه بالواسطه طورپر هر ايك كو پهنچ چكي هے۔ اس بنا پر كسي بھي شخص كے لیے آخرت كي باز پرس سے بچنا ممكن نهيں۔
121
ابي ابن كعب رضي الله عنه نے قرآن کی آیتاور جب تمهارے رب نے اولاد آدم كي پشتوں سے ان كي ذريت كو باهر نكالا....(7:172)كي تشريح ميں كها كه الله نے ان كو جمع كيا پھر ان كو گروه گروه كيا۔ پھر انھيں صورت اور گويائي دي۔ پھر وه بولے۔ پھر الله نے ان سے عهد اور ميثاق ليا اور ان كو خود ان كے اوپر گواه بنايا۔ الله نے كها كيا ميں تمهارا رب نهيں هوں۔انھوں نے كها كه هاں۔ فرمايا كه ميں تمهارے اوپر سات آسمانوں اور سات زمينوں كو اور تمهارے والد آدم كو گواه بناتا هوں۔ تاكه تم قيامت ميں يه نه كهو كه هم كو اس كي خبر نه تھي۔ جان لوكه ميرے سوا كوئي اور معبود نهيں اور نه ميرے سوا كوئي رب هے۔ ا ور تم ميرے ساتھ كسي چيز كو شريك نه ٹھهرانا۔ ميں تمهارے پاس اپنے رسول بھيجوں گا۔ وه تم كو ميرا عهد اور ميثاق ياد دلائيں گے۔ اور ميں تمھارے اوپر اپني كتابيں اتاروں گا۔ انھوں نے كها كه هم گواه هيں كه تو همارا رب هے اور تو همارا معبود هے۔ تيرے سواكوئي اور همارا رب نهيں۔ پس انھوں نے اس كا اقرار كيا۔ اور آدم كو ان كے اوپر بلند کیا گيا۔ انھوں نے ان سب كو ديكھا۔ چنانچہ انھوں نے (ان کے درمیان )امير اور فقير اور خوب صورت، اور بدصورت ديكھے۔ تو آدم نے كها كه اے ميرے رب تو نے اپنے بندوں كے درميان برابر ی كيوں نه ركھي۔ الله نے كها كه ميں نے يه چاها كه ميرا شكر اداكيا جائے۔اسی طرح آدم نےان كے درميان پيغمبروں كو چراغوں كي مانند ديكھا ، ان پر نور تھا۔ ان سے دوسرا خصوصي عهد رسالت اور نبوت كے متعلق ليا گيا۔ اسعہد کو الله تعالي نے قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا ہےاور جب ہم نے پیغمبروں سے ان کا عہد لیا اور تم سے اور نوح سے اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ بن مریم سے (33:7)۔ عيسيٰ بھي انھيں روحوں ميں تھے ان كو مريم كي طرف بھيجا۔ حضرت اُبی بیان کرتے ہیں عیسٰی کی روح مريم كے منه سے ان کے جسم میں داخل ہوئی تھی۔ (مسنداحمد، حدیث نمبر 21232)
تشریحپيغمبروں كا كام ياد دهاني هے۔ خدا كو جو دين مطلوب هے، اس كو پيشگي طورپر هر انسان كي فطرت ميں ركھ دياگيا هے۔ پيغمبر يا ان كي تبعيت ميں داعي اس لیے اٹھتے هيں تاكه لوگوں كو ان كا فطري سبق ياد دلائيں اور ان كو اس عهد پر قائم هونے كي تلقين كريں جو انھوں نے پيشگي طورپر اپنے رب سے ليا هے۔انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی فطرت کو آلودہ ہونے سے بچائے تاکہ وہ حق کی آواز کو سنتے ہی فوراً پہچان لے، اور حق کا ساتھی بن جائے۔
122
ابو درداء رضي الله عنه كهتے هيں كه ايك دن هم رسو ل الله صلي الله عليه وسلم كے پاس بيٹھے هوئے واقع هونے والي چيزوں كے بارے ميں بات چيت كررهے تھے۔ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا اگر تم سنو كه كوئي پهاڑ اپني جگه سے هٹ گيا هے تو اس كو مان لينا۔ ليكن اگر تم يه سنو كه كسي شخص كي جبلّت بدل گئي هے تو تم اس كو هرگز نه ماننا۔ كيوں كه جو شخص جس جبلّت كے ساتھ پيدا كيا گيا هے وه اسي كي طرف جائے گا۔ (مسنداحمد، حدیث نمبر 27499)
تشریحاصل یہ ہے کہ ايك انسان اور دوسرے انسان كے درميان هميشه فرق(difference) رهتاهے۔ كوئي بھي دو انسان يكساں نهيں هوسكتے۔ خالق نے ہر مرد اور ہرعورت کو مسٹر ڈفرنٹ اور مِز ڈفرنٹ کے روپ میں پیدا کیا ہے۔ ڈفرینس خود فطرت کالازمی حصہ ہے اور جب دو ڈفرنٹ لوگ باہم ملیں تو کامیاب زندگی کی ضمانت صرف یہ ہو سکتی ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ایڈ جسٹ کرکے زندگی گذاریں۔ اس معاملہ میں فریقین کے لیے ایڈجسٹمنٹ کے سوا کوئی اورآپشن (option)نہیں۔
یہ ايك تنو ّع (diversity)كا معامله هے اور وه ایک عظیم نعمت ہے۔ اس کی وجہ سے یہ ممکن ہوتا ہے کہ دو شخصوں کے درمیان تبادلۂ خیال ہو اوران كے اندر ذہنی ارتقاء کا عمل جاری هو۔ اختلاف رائے پر مبنی تبادلۂ خیال کے فائدے بے شمار ہیں۔ اِس کے ذریعے انسان كوموقع ملتاہے کہ وہ دوسرے کے فکري نتيجه سے فائدہ اٹھائیں۔ اِس سے زیر ِبحث مسئلہ کے نئے نئے پہلو سامنے آتے ہیں، اِس سے انسان كي تخلیقی فکر میں اضافہ ہوتا ہے۔
اس لیے صحيح طريقه يه هے كه انساني ذهن کے فطری فرق كو جان كر اس کا مثبت طریقے سے استعمال كيا جائے، نه كه اس كو بدلنے كي كوشش كي جائے۔ اگر فریقین میں مثبت مزاج ہو تو ڈفرینس سے انٹلیکچول ایکسچینج پیداہوگا اور اس ایکسچینج سے انٹیلیکچول ڈیولپمنٹ کا عمل جاری هو گا۔یہی کسی قوم کی ترقی کا سب سے بڑا راز ہے۔ اس کے برعکس،کسی سماج یا گروہ میں تنوّع کو ممنوع (taboo) قرار دینا صرف اِس قیمت پر ہوتا ہے کہ وہ سماج یا گروہ جمود (stagnation) کا شکار ہوجائے۔
123
ام سلمه رضي الله عنها بتاتي هيں كه ميں نے كها كه اے الله كے رسول آپ كو هرسال اس زهريلي بكري كا اثر معلوم هوتاهے جو آپ نے كھائي تھي۔ فرمايامجھے اس كے سوا كچھ نهيں پهنچتا جو ميرے مقدر ميں اس وقت لكھ دياگيا جب آدم اپني مٹي ميں (تیاری کے مرحلہ میں) تھے (سنن ابن ماجه، حدیث نمبر3546)۔
تشریحموجوده دنيا امتحان كي مصلحت كے تحت چل رهي هے۔ يهاں جو كچھ كسي كے ساتھ پيش آتا هے وه اسي مصلحت كے تحت پيش آتا هے۔ مثال كے طورپر يهودي كا رسولِ خدا كو زهر دينا اور آپ كا اس زهر كو انجانے میں كھا لينا غالباً اس لیے تھا كه يهوديوں كي اخلاقي حالت كو آخري حد تك برهنه كيا جائے، تاكه كھلے طور پر يه ثابت هوجائے كه ان كو جو سزا دي جارهي هے وه في الواقع اس كے مستحق هيں۔ اس واقعه كا تعلق يهوديوں كو ڈسكريڈٹ كرنے سے تھا ،نه كه رسول الله صلي الله عليه وسلم كو مذكوره خوراك كھلانے سے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب میں تمام انسانوں کے لیے ايك اہم رہنمائی موجود ہے۔ یعنی منفی سوچ سے ذہن کو کیسے ڈائیورٹ (divert)کیا جائے۔ چنانچہ ایک صاحب سے اَنا (ego) کے موضوع پرمیری گفتگو ہوئی۔ میں نے کہا کہ ایگو کو ختم کرنا ممکن نہیں۔ البتہ اُس کو ڈیفیوز (diffuse) کیا جاسکتا ہے، يهي اسلام کا طریقہ ہے۔ اسلام آدمی کی سوچ کے اندر ميں ايك انقلاب لاتا ہے۔ یہ سوچ اس بات کی ضامن بن جاتی ہے کہ جب بھی آدمی کی اَنا بھڑکے تو اُس کی ربانی سوچ متحرک ہو کر اُس کی انا کے بم کو ڈیفیوز کردے۔ میں نے کہا کہ اَنا (ایگو) کوئی برائی نہیں، وہ ایک طاقت ہے۔ آپ کو صرف یہ کرنا ہے کہ اپنے ذہن کو اتنا زیادہ ترقی دیں کہ وہ اَنا کو صرف اچھے استعمال میںلے، وہ اُس کو برے استعمال تک نہ جانے دے۔