رمضان کا مہینہ
آج(20مئی 1986 کو)دسواں روزہ ہے۔ اس سال رمضان کا مہینہ عین مئی جون میں پڑا ہے۔مہینہ شروع ہونے سے پہلے مجھے سخت تردد تھا کہ شدید گرمیوں کے موسم میں اس سال کا روزہ کیسے گزرے گا۔ مگر دس روزے اس طرح ختم ہو گئے کہ یہ محسوس ہی نہیں ہوا کہ زندگی میں کوئی بہت غیر معمولی بات پیش آئی ہے۔
عام دنوں میں اگر صبح سے شام تک بھوکا رہنا ہو تو وہ بہت ہی سخت معلوم ہوتا ہے۔حتیٰ کہ ناقابل برداشت ہو جاتا ہے۔ مگر یہی فاقہ کے دن روزے کے مہینے میں اس طرح گزر جاتے ہیں کہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ روزے کا مہینہ کب آیا اور کب چلا گیا۔
روزہ کے بہت سے دینی اور روحانی فائدے ہیں۔ ان میں سے غالباً ایک فائدہ یہ ہے کہ روزہ دینی حوصلہ بڑھانے کا ایک سبق ہے۔ روزہ کے ذریعہ ہر سال آدمی کو یہ تجربہ کرایا جاتا ہے کہ خدا کے راستے کی مشکلوں کو مشکلیں نہ سمجھو۔خدا کے راستے کا کوئی کام بظاہر کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو،اگر تم خدا کے بھروسے پر اس کام کو شروع کر دو تو خدا کی مدد تمہارے ساتھ ہو جائے گی۔ اور وہ کام اس طرح پورا ہو جائے گا کہ آخر کار تمہیں یہ محسوس بھی نہ ہوگا کہ یہ کوئی مشکل یا دشوار گزار کام تھا۔
میری زندگی بے حد سادہ ہے۔ کھانے پینے کے معاملے میں میرا کوئی شوق نہیں۔معمولی سے معمولی چیز کو بھی میں اس طرح کھاتا ہوں جیسے کہ وہ اللہ کی کوئی بہت بڑی نعمت ہو۔ مگر اپنی جسمانی کمزوری کی وجہ سے میرا یہ حال ہے کہ بھوک پیاس مجھے برداشت نہیں ہوتی۔چنانچہ ہر سال روزہ سے پہلے یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ اس سال کا روزہ کیسے گزرے گا۔ مگر جب روزہ کا مہینہ آتا ہے تو وہ کتنی تیزی سے گزر جاتا ہے جیسے کہ پہلی تاریخ کے بعد ہی اس کی تیس تاریخ آ گئی ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات خالص خدا کی مدد سے ہوتی ہے۔روزہ کے ذریعہ روزہ دار کو یہ نمونہ دکھایا جاتا ہے کہ خدا کی مدد ہر مشکل کام کو آسان کر دیتی ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ آدمی وش فل تھنکنگ (wishful thinking)کے بجائے ممکن اسباب استعمال کر کے اللہ کے بھروسے پر اپنے کام کا آغاز کرے ۔(ڈائری، 20مئی 1986)