کامیابی کا ’’پہلا قانون‘‘
پر امید رہو ، نا امید نہ بنو
برطانوی طبیعیات دان اور ریاضی دان سر آئزک نیوٹن (1642-1727ء) حرکت کے قوانین (Laws of Motion)کی دریافت کے لیے مشہور ہے۔ اس کے دریافت کردہ حرکت کا تیسرا قانون کہتا ہے کہ اس دنیا میں ہر عمل کے لیے ایک مساوی اور مخالف رد عمل ہوتا ہے
for every action, there is an equal and opposite reaction.
لیکن ایک اور قانون بھی ہے جس کا مشاہدہ خود نیوٹن کی زندگی میں کیا جاسکتا ہے۔ اسے کامیابی کا قانون کہا جا سکتا ہے۔نیوٹن کے والد کا انتقال ان کی پیدائش سے تین ماہ قبل ہو گیا تھا۔ اس کی ماں نے جلد ہی دوسری شادی کر لی۔ نتیجتاً نیوٹن اپنے والدین کی شفقت سے محروم ہو گیا۔ نیوٹن کے ایک سوانح نگار لکھتے ہیں— آئزک(نيوٹن)اپنے گھر میں ایک یتیم کی طرح سمجھا جاتا تھا، اس کا بچپن خوشگوار نہیں تھا
Basically, treated as an orphan, Isaac (Newton) did not have a happy childhood.
نیوٹن کے لیے بظاہر یہ ایک مشکل صورتِ حال تھی۔ وہ چاہتا تو اپنے مائنڈ کو شکایتوں کاکباڑ خانہ بنا دیتا۔ لیکن حقیقت میں یہ ان کی زندگی کا سب سے بڑا پلس پوائنٹ بن گیا۔ بچپن کے دنوں میں خارجی دنیا نیوٹن کے لیے کوئی کشش نہیں رکھتی تھی ، اور وہ ہر وقت سوچ میں غرق رہتا تھا ۔ اس بنا پر اسےخیالوں میں گم (Woolgatherer)، یا بے دھیان انسان کہا جانے لگا۔ لیکن بعد میں پتہ چلا کہ نیوٹن بے دھیان انسان نہیں تھا، بلکہ وہ بہت زیادہ غور وفکر میں مشغول رہتا تھا۔ اسی مسلسل فکری عمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے حرکت کے تین قوانین کو دریافت کیا، جس سے سائنسی دنیا میں انقلاب پیدا ہوگیا۔
نیوٹن کے لیے والدین کی شفقت سے محرومی بظاہر ایک منفی واقعہ تھا ، لیکن قانونِ فطرت کے مطابق ، یہ اس کے لیے فائدےکا سودا ثابت ہوا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ والدین کی شفقت سے محرومی نے اسے اپنی پوشیدہ فکری صلاحیت کو پروان چڑھانے کا موقع دیا، یعنی فکری صلاحیت کی ترقی ۔ اس طرح نیوٹن اپنی فکری ترقی کے نتیجہ میں اس قابل ہو گیا کہ وہ اپنی زندگی کے مائنس پہلو کو پلس میں تبدیل کرسکے۔
کامیابی کا یہ فطری قانون کسی ایک فرد کے لیےمخصوص نہیں ہے، بلکہ یہ موقع زمین پر بسنے والے تمام عورت و مرد کے لیے کھلا ہوا ہے۔ نیوٹن کی زندگی فطرت کے اس اہم قانون کا عملی مظاہرہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان کو اس کے خالق نے لامحدود پوٹنشل (potential) کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ اس پوٹنشل کو ایکچول(actual) بنانا صرف چیلنج کے حالات میں ممکن ہے۔ اگر چیلنج نہ ہو تو انسان کی شخصیت میں چھپے ہوئے امکانات ظہور میں نہیں آئیں گے، انسانی ارتقا کا عمل مکمل طورپر رک جائے گا، انسان اپنی تکمیل سے محروم رہ جائے گا۔
چیلنج سےکامیابی کی طرف اس کے سفر کو جمود یا مایوسی کے سوا کوئی اور چیز نہیں روک سکتی ہے۔ اگر وہ مایوس یا جمود کا شکار نہ ہو تو اس کی اپنی فطرت خود بخود اس کی رہنمائی کرے گی اور اسے ناقابل یقین حد تک ترقی کی منزل تک لے جائے گی۔تاریخ میں ایسے لوگوں کی بہت سی مثالیں موجود ہیں جو اپنے ابتدائی عمر میں مختلف قسم کی پریشانیوں کا شکار ہو گئے۔ اس کے باوجودانہوں نے اپنے آپ کو مایوسی سے دور رکھا، اوراپنی توانائی کو کسی بامعنی مقصد کی طرف موڑدیا۔ کچھ دنوں کے بعد وہ اعلیٰ کامیابی سے ہم کنار ہوئے جس کے بارے میں وہ اپنے ابتدائی دنوں میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ اس کی ایک مثال انڈیا کے سابق صدر اے پی جے عبدالکلام (وفات 2015)ہیں۔
زندگی میں لوگوں کو اکثر ناخوشگوار حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر یتیمی، حادثات کا سامنا ، مادی نقصان کو برداشت کرنا، تعلیم کا نامکمل رہنا،آبائی وراثت سے محروم ہونا، اچھی نوکری حاصل کرنے میں ناکامی، وغیرہ۔ لیکن وہ لوگ جو ان ناکامیوں کے باوجود کبھی ہمت نہیں ہارتے اور مثبت انداز میں مسلسل کوششیں جاری رکھتے ہیں، وہی آخر میں سپر کامیابی حاصل کرنے والے (super achiever) کے طور پر ابھرتے ہیں۔