سوال کی کثرت

صحابی رسول وابصه بن معبد الاسدی کا ایک واقعہ حدیث کی کتابوں میں آیا ہے۔ وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ وہ آپ سے نیکی اور بدی کے تمام سوالات پوچھنا چاہتے تھے (لَا أَدَعُ شَيْئًا مِنَ الْبِرِّ وَالْإِثْمِ إِلَّا سَأَلْتُهُ عَنْه )۔ رسول اللہ نے ان کے سوالات کا جواب نہیں دیا ، بلکہ یہ کہا  اپنے دل سے فتوی پوچھو ، اور اپنے آپ سے فتوی پوچھو ( یہ بات آپ نے تین بار کہی، اس کے بعد کہا) نیکی وہ ہے جس پر تمھارا دل مطمئن ہو، اور بدی وہ ہے جو تمہارے دل میں کھٹکے، اور تمھارے دل میں تردد پیدا ہو، خواہ لوگ اس کے بارے میں تمہیں کوئی بھی فتوی دیں ۔(مسند احمد، حدیث نمبر 18006)

 یہ صرف ایک صحابی کا واقعہ نہیں ہے، بلکہ اس میں تمام اہل ایمان کے لیے رہنمائی ہے۔ رسول اللہ نے سوال کا جواب کیوں نہیں دیا۔ کیوں کہ بہت زیادہ سوال آدمی کو ڈسٹریکشن کی طرف لے جاتا ہے ۔ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ نے ان کے کسی سوال کا جواب نہیں دیا۔ اس کے بجائے ان کو تدبر و تفکر پر ابھارا ۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر آدمی ہر معاملے میں اپنا مفتی خود بن جائے ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مسئلے کو شرعی مسئلہ نہ بناؤ۔ کھلی ممنوعات کے سوا جو چیزیں ہیں، ان میں کامن سنس (common sense) پر عمل کرو۔

 سوال یہ ہے کہ کنفیوژن کسی کو کیوں ہوتا ہے۔ میرے نزدیک اس کا سبب یہ ہے کہ لوگوں کا دماغ زیادہ تر معلومات کا جنگل ہوتا ہے۔ وہ ایسا نہیں کر پاتے کہ تحلیل و تجزیہ (analysis) کرکے مختلف معلومات سے درست نتیجہ نکال سکیں ۔ یعنی وہ متعلق اور غیر متعلق کا فرق سمجھیں۔ وہ بنیادی اور غیر بنیادی میں تمیز کرسکیں اور پھر مختلف معلومات کو ہضم کر کے صحیح نتیجہ نکالیں۔ اسی ناکامی کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کا معلوماتی ذخیرہ ان کو صرف کنفیوژن تک پہنچاتا ہے، وہ انہیں فکری پختگی عطا نہیں کرتا۔

اسلام میں سوال سے زیادہ تدبر اور تفکر پر زور دیا گیا ہے۔ حضرت خضر کے ساتھ پيغمبرموسٰی جب سفر پر روانہ ہوئے تو حضرت خضر نے اُن سے کہا :فَلَا تَسْأَلْنِي عَنْ شَيْءٍ  (18:70) ۔ یعنی تم مجھ سے کسی چیز کے بارے میں سوال نہ کرنا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سوال نہ کرو۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ذہن میں کوئی سوال آئے تو پہلے غور وفکر کرو۔ غور و فکر کر کے آدمی پہلے اپنے آپ کو ذہنی اعتبار سے تیار کرتا ہے۔ سوال کا جواب وہی شخص درست طور پر سمجھتا ہے، جو پہلے سے اپنے آپ کو ایک تیار ذہن (prepared mind) بنا چکا ہو ۔

اس حقیقت کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ ایک صحابی کہتے ہیں يَنْهَى عَنْ... كَثْرَةِ السُّؤَالِ( مسند احمد ، حدیث نمبر 18232) ۔ یعنی رسول اللہ نے زیادہ سوال کرنےسے منع کرتے تھے۔ سوال کی کثرت سے منع کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سوال کرنا حرام ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی پہلے خود سوال کے تقاضے کو پورا کرے، اس کے بعد وہ سوال کرے۔

اس معاملے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ دوسروں سے سوال کرنے سے پہلے آدمی خود غور وفکر کرے۔ اس طرح اس کو ذہنی ارتقا (intellectual development) کا فائدہ حاصل ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے ذہن میں غیر معمولی صلاحیت پیدا کی ہے۔ یہ صلاحیت غور و فکر سے بڑھتی ہے۔ اپنے ذہن کو ترقی دینے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی مطالعہ اور غور وفکر کے ذریعہ اپنے ذہن کو تیار کرتا رہے۔ وہ اپنے اندر زیادہ سے زیادہ اخذ ( grasp) کی صلاحیت پیدا کرے۔ وہ اپنے آپ کو اس قابل بنائے کہ کوئی شخص اس کے سوال کا جواب دے تو وہ اپنی طرف سے اس میں کچھ اضافہ کر سکے۔ حقیقی سوال کرنے والا وہ ہے جو جواب کو سن کر اس میں اپنی طرف سے اضافہ کر سکتا ہو۔

مذکورہ حدیث کا مطلب اگر لفظ بدل کر بیان کیا جائے تو وہ یہ ہو گا — سوال کیوں کرتے ہو۔ اگر تمھارے ذہن میں کوئی سوال آیا ہے تو پہلے خود اپنے ذہن کو استعمال کر کے اس کا جواب معلوم کرنے کی کوشش کرو۔ سوال کو صرف سوال نہ سمجھو، بلکہ اس کو اپنے ذہنی ارتقا کا ذریعہ بناؤ۔ کسی بات کو سن کر فوراً سوال کرنا، عجلت پسندی کی علامت ہے۔کسی بات کو سن کر پہلے غور و فکر کرنا چاہیے ۔ اگر غور و فکر سے وہ بات کی تہہ تک نہ پہنچے تو سمجھنا چاہیے کہ اس نے اپنے ذہن کو تیار کرنے میں کمی کی ہے۔ لہٰذا اس کو سب سے پہلے اپنے ذہنی ارتقا پر مزيد توجہ دینی چاہیے ۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom