ڈائری 1986
1مئی 1986
آج مولانا شکیل احمد قاسمی(میرٹھ) سے ملاقات ہوئی۔وہ میرٹھ کے ایک عربی مدرسہ میں صدر مدرس ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ہاپوڑ میں شب برات (شعبان 1406ھ) کے دن جو فساد ہوا تھا وہ کس طرح ہوا تھا۔اس کا قصہ یہ تھا کہ کچھ مسلمان سڑک پر آتش بازی كررہے تھے۔پڑوسی ہندو کے گھر میں چنگاریاں گئیں تو اس نے نکل کر مسلمانوں کو منع کیا۔ اس کے بعد مسلمان اور زیادہ زور کےساتھ آتش بازی كرنےلگے۔گویا وہ کوئی بہت بڑا اسلامی کام ہو۔ اب پڑوسی ہندو نے مزید شدت کے ساتھ منع کیا۔مسلمانوں کو غصہ آ گیا اور ہندو کو مارنے لگے۔اس کا لڑکا جس کا نام نریش تھا اس کو اتنا مارا کہ وہ زخمی ہو کر گر پڑا اور اسپتال جاتے جاتے مر گیا۔
اس کے بعد بستی میں فساد کی فضا پیدا ہو گئی۔ مگر حسنِ اتفاق سے مجسٹریٹ بہت اچھا تھا، اس نے سارے شہر میں پولس پھیلا دی اور نہایت سختی کے ساتھ فساد کو کنٹرول کر لیا۔مولانا شکیل احمد صاحب قاسمی نے بتایا کہ فساد اگرچہ وقتی طور پر رک گیا ہے، مگر مقامی ہندوؤں میں غم وغصہ باقی ہے۔ بظاہر اس کا امکان نہیں ہے کہ وہ اس کو بھول جائیں گے۔ کیوں كه ان کےایک نوجوان نریش کو مسلمانوں نے مارمار کر ہلاک کر دیا ہے۔
میں نے کہا کہ بظاہر یہ کچھ مسلمانوں کی حماقت ہے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کے براہِ راست ذمہ دار ہمارے قائدین ہیں۔مسلم قائدین کا طریقہ یہ ہے کہ وہ پرجوش تقریریں کر کے مستقل طور پر مسلمانوں کو جذباتی بنائے ہوئے ہیں۔وہ ہر معاملہ میں یک طرفہ طور پر ہندوؤں کو اور حکومت کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے دل میں برادران وطن کے خلاف نفرت بھر گئی ہے۔مزید یہ کہ جب اس طرح کے مسلمان بے جا طور پر مشتعل ہو کر مذکورہ قسم کی حرکتیں کرتے ہیں تو ہمارے قائدین کبھی ایسا نہیں کرتے کہ وہ مسلمانوں کو تنبیہ کریں۔وہ ہمیشہ یک طرفہ طور پر ہندوؤں کو برا بھلا کہتے ہیں۔ان سب باتوں کا یہ نتیجہ ہے کہ فساد کا سلسلہ کسی طرح ختم نہیں ہوتا۔
2مئی 1986
آج اسلامک انسٹی ٹیوٹ، تغلق آباد میں ایک خصوصی تقریب تھی۔ یہ تقریب پاکستان کے سفیر ڈاکٹر ہمایوں خان کے اعزاز میں کی گئی تھی۔ انسٹی ٹیوٹ کے خصوصی ہال میں لمبی میز کے کنارے اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمانوں کی بڑی تعداد بیٹھی ہوئی تھی۔ میں بھی اس میں شریک تھا۔
میں اس امید میں شریک ہوا تھا کہ کچھ علمی موضوعات یا اہم اسلامی مسائل پر گفتگو ہوگی اور مسلمانوں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ کے خیالات سننے کا موقع ملے گا۔مگر وہاں گفتگو زیادہ تر شاہ بانو بیگم اور مسلم پرسنل لا کے موضوع کے گرد گھومتی رہی۔
لوگوں نے مجھ سے کہا کہ آپ بھی اپنی رائے دیجئے۔مگر میں خاموش صرف سنتا رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ میرے لیے یہ بات زیادہ خوشی کی نہ تھی کہ مسلمانوں کا اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ کسی مقام پر اکٹھا ہو اور اس کے پاس گفتگو کے لیے جو موضوع ہو وہ شاہ بانو بیگم اور مطلقہ کو گزارہ دینے کا مسئلہ ہو۔
یہ علامتی طور پر پورے جدید دور میں مسلمانوں کی تصویر ہے۔ موجودہ دور مسلمانوں کے لیے نہایت فیصلہ کن دور تھا۔مگر ہمارے قائدین نے جدید دور اور اس کے بنیادی مسائل کو نہ پہلے سمجھا اور نہ آج سمجھ رہے ہیں۔سو برس سے ان کا یہی حال ہے کہ کوئی شوشہ کی چیز لے کر اس کو اچھالتے ہیں۔اس پر دھواں دار تقریریں ہوتی ہیں اور جلسہ اور جلوس کے ہنگامے کیے جاتے ہیں۔چونکہ عوام خواص کے طریقے پر ہوتے ہیں اس لیے وہ بھی وہی بولی بولتے ہیں جو ان کے خواص بول رہے ہوں۔
ہمارے قائدین اگر بنیادی مسائل کو چھیڑتےتو وہی تمام لوگوں کا موضوع گفتگو رہتے۔مگر جب وہ ’’شاہ بانو بیگم‘‘ جیسے مسائل کو چھیڑیں گے تو وہی چیز عوام کا موضوع گفتگو بنے گی جس کو انہوں نے سب سے زیادہ چھیڑا ہے۔
3مئی 1986
مجھے طبیہ کالج سہارن پور کاایک خط (30 اپریل 1986) ملا۔اس میں خواہش ظاہر کی گئی تھی کہ میں ان کے سالانہ میگزین کے لیے ایک پیغام بھیجوں۔
عام طریقہ یہ ہے کہ اس قسم کا خط جب کسی کے پاس آتا ہے تو وہ قلم اور دوات سے ایک تحریر لکھ کر روانہ کر دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان پیغامات میں رسمی کلمات کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔
مگر مجھے رسمی کلمات لکھ کر تسکین نہیں ہوتی۔میں چاہتا ہوں کہ کوئی ایسی بات لکھوں جس کو ہندی میں تتو(core)کی بات کہتے ہیں۔چنانچہ خط ملنے کے بعد میں نے انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا نکالی اور طبیہ کالج کی مناسبت سے اس میںhistory of medicineکا باب پڑھنا شروع کیا۔
اس کو پڑھتے ہوئے ایک بڑی کارآمد چیز مل گئی۔مقالہ نگار نے لکھا تھا کہ قرون وسطیٰ میں مسلمانوں نے طب اور سائنس میں جو غیر معمولی ترقی کی وہ بڑا تعجب خیز واقعہ ہے۔یہ وہ زمانہ ہے جب کہ ساری دنیا میں علمی پسماندگی کا دور تھا۔ اس زمانہ میں علم الافلاک، علم نجوم کے ہم معنی بنا ہوا تھا، اور کیمسٹری کا علم محض کیمیاگری تھا۔جس کا مطلب یہ تھا کہ معمولی دھات کو سونا کس طرح بنایا جائے۔ایسے توہم پرستی کے دور میں مسلمانوں کی علمی ترقی بے حد حیرت انگیز ہے۔(جلد 11،صفحہ828)
انسائیکلو پیڈیا میں صرف اتنی سی بات درج تھی۔میں نے اس میں یہ اضافہ کیا کہ اس کی وجہ توحید کاعقیدہ تھا۔توحید کا عقیدہ آدمی کو توہم پرستی سے نکالتا ہے۔ وہ آدمی کو ہرقسم کے مصنوعی بندھنوں سے آزاد ہو کر سوچنا سکھاتا ہے۔وہ آدمی کو برتر حقیقت کی طرف بڑھنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ یہی وہ چیز تھی جس نے مسلمانوں کو مذکورہ کارنامے کے قابل بنایا۔موجودہ زمانے میں مسلمانوں سے ایسے کارنامے ظاہر نہیں ہو رہے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے لیے توحید محض ایک رسمی عقیدہ ہے، وہ ان کے لیے ذہنی انقلاب کے ہم معنٰی نہیں۔
4مئی 1986
آج انڈیا انٹرنیشنل سینٹر (نئی دہلی) میں ایک پروگرام تھا۔یہ پروگرام انڈیا کے ایک معروف عالم دین کے حلقہ کی طرف سے کیا گیا تھا۔پروگرام کے ابتدا میںمذکورہ عالم دین کی تقریر ہوئی۔ اس کے بعد حاضرین کی طرف سے سوالات وجوابات ہوئے۔حاضرین میں تقریباً نصف ہندو اور نصف مسلمان تھے۔مجموعی طور پر 100 سے کم افراد تھے۔ تقریر اردو زبان میں تھی۔البتہ اس کا انگریزی ترجمہ لوگوں کے درمیان تقسیم کیا گیا۔ انگریزی ترجمہ کا عنوان یہ تھا
Try to understand the problems and sentiments of Indian Muslims.
تقریر تقریباً یک طرفہ طور پر مسلمانوں کی مدافعت تھی۔ ان کی تقریر کا تاثر بظاہر یہ تھا کہ اس معاملہ میں ساری ذمہ داری ہندو فرقہ کی ہے۔
مقرر موصوف نے کہا کہ مسلمان اپنے پرسنل لا کا تحفظ چاہتے ہیں۔یہ ایک فطری بات ہے ، اور مسلمانوں کو اپنے اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے اس کا مطالبہ کرنا چاہیے۔مگر ملک کے پریس اور ملک کے دانشوروں نے جس رد عمل کا اظہار کیا ہے وہ بہت نامناسب ہے۔اس معاملہ میں اتنا زیادہ شور کیا گیا ہے کہ گویا ملک پر ایٹم بم کا حملہ ہو گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ زندگی میں احساس تناسب(sense of proportion) کی بے حد اہمیت ہے۔اگر آپ شیر پر ایئر گن چلائیں اور ایک چھوٹی چڑیا کو رائفل سے ماریں تو یہ احساس تناسب کو کھو دینا ہوگا۔یہی مسلمانوں کے ساتھ کیا گیا ہے۔
مذکورہ عالم دین جب یہ بات کہہ رہے تھےتو میں نے سوچا کہ وہ خود کیا کر رہے ہیں۔مسلم پرسنل لا کے عناصر میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر کی حیثیت سے انہوں نے رات دن جو دھوم مچا رکھی ہے، کیا وہی دھوم وہ اسلام کے دوسرے معاملات کے لیے بھی مچا رہے ہیں۔مثلاً ہندستان کے 80 کروڑ غیر مسلموں تک اسلام کو پہنچانے کے لیے کیا انہوں نے وہ جدوجہد کی ہے جو حقیقی تناسب کے اعتبار سے اس کے لیے کی جانی چاہیے۔
5مئی 1986
میری ایک خاتون رشتہ دار کا واقعہ ہے۔اس کی شادی ہلدوانی میں ہوئی ہے۔شادی کے بعد وہ اپنے سسرال میں بہت خوش رہتی تھی۔والدہ مرحومہ کی بیماری کے زمانے میں ایک مرتبہ ان کو دیکھنے کے لیے ہمارے یہاں آئی تو اس وقت وہ بہت تندرست تھی اور ہر وقت بس ہنسے جا رہی تھی۔
کل معلوم ہوا کہ اس کا دماغی توازن خراب ہو گیا ہے۔اور وہ منٹل کیس کے طور پر آل انڈیا میڈیکل انسٹی ٹیوٹ (ایمس) میں داخل ہے۔چنانچہ میں اپنے گھر والوں کے ساتھ اس کو دیکھنے کے لیے آل انڈیا میڈیکل انسٹی ٹیوٹ گیا۔ وہاں بڑے کمرہ میں مریضہ کے بہت سارے رشتہ دار جمع تھے، جن میں مرد بھی تھے اور عورتیں بھی۔
اس وقت ایک بڑا عجیب واقعہ ہوا۔ مریضہ جو دیوانگی کی حالت میں تھی اور عجیب عجیب حرکتیں کرتی تھی، وہ ہر ایک کو اس کے نام کے ساتھ پکار رہی تھی۔مگر میرے ساتھ اس نے بالکل مختلف معاملہ کیا۔جب میں مریضہ کے سامنے آیا تو مریضہ کی ماں نے مریضہ کو میرے بارے میں بتایا۔مگر مریضہ نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو اللہ والے ہیں۔اس کے بعد وہ بار بار یہ جملہ دہراتی رہی اللہ والے آئے ہیں، اللہ والے آئے ہیں۔
کچھ دیر کے بعد مریضہ نے کہا کہ مجھے ڈر لگ رہا ہے۔چنانچہ لوگوں نے سلا کر اس کے پاؤں پر کمبل ڈال دیا۔اس وقت بھی وہ کہتی رہیکہ اللہ والے آئے ہیں، اللہ والے آئےہیں۔
میں ذاتی طور پر مبہوت کھڑا ہوا اس کو دیکھ رہا تھا۔ اور یہ سوچ رہا تھا کہ انسان بھی کس قدر عاجز ہے۔ایک لمحہ میں کیا سے کیا ہو جاتا ہے۔دولت،تندرستی، آل اولاد کسی چیز کی کوئی حقیقت نہیں۔یہ تمام تر اللہ کے اختیار میں ہے کہ جس شخص کو چاہے جس حال میں رکھے۔جب چاہے کسی کو دے اور جب چاہے کسی سے چھین لے۔
6مئی 1986
4مئی 1986 کو انڈیاانٹر نیشنل سینٹر (نئی دہلی) میں ڈائیلاگ (dialogue) کے نام سے ایک اجتماع تھا۔یہ ڈائیلاگ سینٹر کے کانفرنس روم میں ہوا۔ ہندو اور مسلمان دونوں شریک تھے۔ انڈیا کے ایک دینی قائد جو کہ معروف عالم دین بھی ہیں، ان کی تقریر سے اس کا آغاز ہوا۔تقریر کرتے ہوئے انہوں نے پرجوش طور پر کہا کہ مسلمانوں سے وفاداری کا ثبوت مانگا جا تا ہے۔یہ ہمارے لیے ناقابل برداشت ہے۔کسی کو حق نہیں کہ وہ ہم سے ہماری وفاداری کا ثبوت مانگے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے میں ہرگز ہندستان میں رہنے پر مجبور نہیں۔ مجھے کتنے ہی ملکوں کی یونیورسٹیوں سے آفر مل رہے ہیں اور میں باہر جا کر آرام کے ساتھ رہ سکتا ہوں۔
یہ بات بطور واقعہ صحیح ہو سکتی ہے کہ نہ صرف مذکورہ دینی قائد بلکہ ان کے جیسے دوسرے بہت سے قائدین کو باہر کے مسلم ملکوں کے مدارس اور جامعات سے آفر مل رہے ہوں۔مگر یہ آفر کس چیز کا ہے۔ وہ یقینی طور پر ’’ملازمت‘‘ کا ہے، نہ کہ ’’قیادت‘‘ کا۔مذکورہ دینی قائد اور ان کے جیسے دوسرے قائدین مسلم ملکوں میں جاکر اپنے لیے روزگار ضرور حاصل کر سکتے ہیں، مگر وہ کسی بھی ملک میں اس طرح قائد بن کر نہیں رہ سکتے جیسے کہ وہ ہندستان میں بنے ہوئے ہیں۔
ہندستان میں مذکورہ عالم دین نے 1966 میں اپوزیشن کے ساتھ مل کر مخالف کانگریس(نان کانگریسزم) کی تحریک چلائی۔1985-86 میں وہ مسلم پرسنل لا کے نام پر حکومت کے خلاف جلسہ اور جلوس کی سیاست چلا رہے ہیں۔اسی قسم کی سرگرمیوں کو میں قیادت کہہ رہا ہوں۔اور کسی بھی مسلم ملک میں اس طرح کی قائدانہ سرگرمیاں قطعی ناممکن ہیں۔ مذکورہ دینی قائد اگر کسی مسلم ملک میں جا کر وہاں اس قسم کی سرگرمی دکھائیں تو یقینی طور پر وہاں سے نکال دیے جائیں گے۔کسی بھی مسلم ملک میں قیام کی اجازت انہیں صرف اس قیمت پر ملے گی کہ وہ سیاست اور قیادت کی زندگی چھوڑ کر صرف ملازمت کی زندگی پر قانع ہو جائیں۔
یہاں میں اضافہ کروں گا کہ مذکورہ دینی قائد اور ان کے جیسے مسلم قائدین اگر ہندستان میں بھی قیادت کو چھوڑ کر صرف ملازمت پر قانع ہو جائیں تو یہاں بھی وہ اطمینان کےساتھ رہ سکتے ہیں۔ اس کے بعد کوئی شخص ان سے وفاداری کا مطالبہ کرنے والا نہیں۔
7مئی 1986
ٹائمس آف انڈیا (3مئی 1986) کے صفحہ اول پر ایک تصویر ہے۔اس تصویر میں ایک شخص کو اس طرح دکھایا گیا ہے کہ وہ زمین پر سر رکھ کر سجدہ کر رہا ہے۔تصویر دیکھ کر بظاہر وہ مسجد کا ایک واقعہ معلوم ہوتا ہے۔مگر یہ مسجد کا واقعہ نہیں۔چنانچہ تصویر کے نیچے حسب ذیل الفاظ لکھے ہوئے ہیں
The Punjab Chief Minister, Mr Surjit Singh Barnala, paying obeisance at the Golden Temple, on May 2,1986.
مسٹر سرجیت سنگھ برنالا، پنجاب کے چیف منسٹر ہیں۔ان کی مرضی کے تحت سورن مندر (امرتسر) میں 30اپریل کو پولس ایکشن ہوا۔ پولس ایکشن کی تکمیل کے بعد وہ سُوَرن مندر (گولڈن ٹمپل) گئے جو سکھوں کے نزدیک ان کا سب سے زیادہ متبرک مقام ہے۔جب وہ وہاں پہنچے تو انہوں نے اظہار عقیدت کے طور پر اپنا سر زمین پر رکھ دیا۔اس وقت ان کی ہیئت ٹھیک وہی تھی جو نماز میں سجدہ کرنے والے کی ہوتی ہے۔
نماز میں سجدہ کا جو طریقہ بتایا گیا ہے وہ بڑا عجیب ہے۔حقیقت یہ ہے کہ عبودیت یا submissionکے اظہار کے لیے یہ آخری طریقہ ہے۔اس سے آگے کوئی طریقہ ممکن نہیں ہے۔
submission کا جذبہ ایک فطری جذبہ ہے۔انسان عین اپنی فطرت کے زور پر یہ چاہتا ہے کہ وہ کسی کے آگے اپنے کو جھکا دے۔خدا کے سوا دوسری جن چیزوں کے آگے آدمی ’’سجدہ‘‘ کرے وہ حقیقتاً اپنے جذبۂ عبودیت کا غلط استعمال کر رہا ہے۔آدمی جب خدا کو پائے ہوئے نہ ہو تو وہ جس چیز کو بھی بظاہر نمایاں دیکھتا ہے اس کے آگے اپنے کو جھکا دیتا ہے۔اسی کا نام شرک ہے۔یعنی جو چیز صرف ایک خدا کا حق ہے ، اس میں دوسروں کو شریک کرنا۔اور شرک بلا شبہ سب سے بڑا گناہ ہے۔انسان ’’سجدہ‘‘ کرنے پر مجبور ہے،مگر سچا سجدہ وہی ہے جو خدا کے لیے کیا گیا ہو۔
8 مئی 1986
دو صاحبان تشریف لائے۔ وہ ہریانہ کے رہنے والے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ مجھے اپنے یہاں تقریر کرانے کے لیے لے جائیں۔انہوں نے کہا کہ ہم الرسالہ پڑھتے رہے ہیں ۔ہم کو الرسالہ کے طرز فکر سے اتفاق ہے۔اس انداز پر ہم وہاں ایک اسلامی ادارہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔جس میں مسجد اور مدرسہ، مسافر خانہ اور مختلف قسم کے ہنر سکھانے کا شعبہ ہوگا۔ مقامی طور پر کچھ لوگ اپنی ذاتی لیڈری کے لیے ہماری مخالفت کر رہے ہیں۔اگر آپ ایک دن اور ایک رات کے لیے ہمارے یہاں آجائیں گے تو یہ مخالفین دب جائیں گے۔
اس علاقہ میں الرسالہ ابھی نہیں پھیلا ہے۔میں نے ان حضرات سے کہا کہ اگر آپ مجھ کو وہاں لے جانا چاہتے ہیں تو پہلے آپ الرسالہ کو اپنے علاقہ میں پھیلائیے۔آپ الرسالہ کی ایجنسی لیجیے۔ جب وہاں الرسالہ کے پڑھنے والے قابل لحاظ تعداد میں پیدا ہو جائیں گے اس وقت وہ فضا بنے گی جس میں میرا وہاں جانا مفید ہوگا۔فضا بننے سے پہلے اگر میں وہاں جاؤں تو لوگ میری بات کو سمجھ نہیں سکیں گے اور سفر کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
وہ لوگ مجھ کو اپنے علاقہ میں لے جانے پر کافی اصرار کر رہے تھے، مگر جب میں نے الرسالہ کی ایجنسی قائم کرنے کی بات کی تو ان کا جوش ٹھنڈا پڑ گیا۔اس کے بعد وہ دونوں خاموشی کے ساتھ اٹھ کر چلے گئے۔
یہی ہماری قوم کی عام حالت ہے۔لوگ تعمیری کام کی بات کرتے ہیں، مگر وہ تعمیری کام کی قیمت دینے کے لیے تیار نہیں۔اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کا ذہن بگڑا ہوا ہے۔ لیڈروں نے اپنی جھوٹی سیاست سے پوری قوم کو منفی سوچ میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ایسی حالت میں سب سے پہلا کام یہ ہے کہ ذہنوں کی اصلاح کی جائے۔لوگوں کو حقیقت پسندانہ انداز میں سوچنے والا بنایا جائے۔اس کے بعد ہی کوئی حقیقی تعمیری کام کیا جا سکتا ہے۔ مگر ذہن بنانے کا کام خشک کام ہے، اس لیے کوئی اس کے لیے تیار نہیں ہوتا۔
9مئی 1986
ایک پاکستانی مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ میں نے پوچھا پاکستان میں ہندوؤں کا کیا حال ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اولاًتو ہندو بہت ہی کم ہیں۔ان کی زیادہ تعداد 1947 کے انقلاب میں پاکستان کو چھوڑ کر ہندستان چلی آئی۔ اور جو تھوڑے سے ہندو وہاں رہ گئے ہیں، وہ تہذیبی اعتبار سے بالکل مسلمانوں کی طرح رہتے ہیں۔ کسی بھی اعتبار سے وہ اپنا تشخص باقی رکھنے کی کوشش نہیں کرتے۔
میں نے کہا کہ یہ ایک بہت اہم بات ہے۔اس سے مسلمانوں کو سبق لینا چاہیے۔ پاکستان کی تحریک مسلمانوں نے یہ کہہ کر چلائی تھی کہ غیر منقسم ہندستان کو د و جغرافی حصوں میں بانٹ دیا جائے۔ایک ہندو انڈیا اور دوسرا مسلم انڈیا۔ایک طرف وہ ہو جائیں اور دوسری طرف ہم ہو جائیں۔ مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت نے اس نعرہ کا ساتھ دیا اور ہندستان بھارت اور پاکستان کی شکل میں الگ الگ ہو گیا۔
پاکستان کو ہندوؤں سے تقریباً خالی کرا لیا گیا۔وہاں ایسے حالات پیدا کیے گئے کہ ہندو اپنے الگ قومی تشخص کے ساتھ وہاں نہ رہ سکیں۔وہ رہیں تو صرف اس قیمت پر رہیں کہ وہ مسلم تہذیب میں بالکل ضم ہو جائیں۔موجودہ پاکستان اس کا ایک نمونہ ہے۔اس کے برعکس، ہندستان میں باوجود یہ کہ وہ پاکستانی منطق کے مطابق ہندو انڈیا تھا، مسلمان تقریباً 10 کروڑ کی تعداد میں باقی رہے۔یعنی اس سے بھی زیادہ جتنا کہ وہ موجودہ پاکستان میں ہیں۔ مزید یہ کہ انہوں نے یہاں پورے معنوں میں اپنا قومی تشخص باقی رکھا ہے۔
اس کے باوجود ہندستان کے ہندو مسلمانوں کو برداشت کر رہے ہیں۔ ہندستان میں جو نام نہاد فرقہ وارانہ فسادات ہوتے ہیں وہ تمام تر مسلمانوں کی حماقت یا شرارت سے ہوتے ہیں۔اگر ہندو اسی انتہا پسندانہ ذہن کا ثبوت دیتا جس کا ثبوت پاکستان کے مسلمانوں نے دیا ہے تو آج ہندستان میں مسلمانوں کی تاریخ دوسری نظر آتی۔
حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص انسان کا شکر نہ کرے وہ خدا کا بھی شکر نہیں کر سکتا (مَنْ لَمْ يَشْكُرِ النَّاسَ، لَمْ يَشْكُرِ اللهَ عز وجل)مسند احمد، حدیث نمبر 7504۔ اس حدیث کے مطابق مسلمانوں کو ہندوؤں کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ اگر وہ ہندو کے شکر گزار نہ بنیں گے تو وہ خدا کے شکر گزار بھی نہیں بن سکتے۔
10مئی 1986
مئی 1986 میں مسلم خواتین کے طلاق سے متعلق قانون لوک سبھا اور راجیہ سبھا سے پاس ہو کر باقاعدہ ایکٹ بن گیا۔اس کاسرکاری نام یہ ہے
Muslims Women (Protection of Right on Divorce) Bill 1986.
اس بل پر مسلم قائدین آج کل خوشیاں منا رہے ہیں۔اس کو وہ سیکولر ہندستان میں اسلام کی عظیم فتح سمجھتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ خوش فہمی کےسوا اور کچھ نہیں۔یہ جھوٹی فتح پر جھوٹی خوشی منانا ہے۔اور یہ وہ چیز ہے جس میں مسلمان پچھلے سو سال سے مبتلا ہیں۔
ایک لطیفہ ہے کہ ایک علاقہ میں ایک شیر گھس آیا۔ اس نے جانوروں اور انسانوں کو پھاڑنا شروع کر دیا۔ سارے علاقے میں زبردست خوف وہراس پھیل گیا۔اس وقت ایک بزرگ نے یہ کیا کہ اپنے گھر میں کاغذ کا ایک شیر بنایا۔اور پھر اس کاغذی شیر پر حملہ کر کے اس کا خاتمہ کر دیا۔ بزرگ نے یہ سمجھا کہ انہوں نے شیر پر فتح حاصل کر لی ہے۔حالانکہ انہوں نے جس چیز پر فتح حاصل کی تھی وہ محض ایک کاغذ کی تصویر تھی، نہ کہ حقیقتاً ایک زندہ شیر۔
یہی ماحول موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کا ہوا ہے۔ وہ ایک کے بعد ایک کاغذی شیر بناتے ہیں اور اس کو ہلاک کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اسلام مخالف طاقتوں پر فتح حاصل کر لی۔ مگر اسلام مخالف طاقتیں بدستور موجود رہتی ہیں بلکہ ان میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔
جو شخص بھی حالات پر گہری نظر رکھتا ہو اس کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ مذکورہ مسلم خواتین بل کا کچھ بھی تعلق اصل حالات کی اصلاح سے نہیں ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ مطلقہ مسلم خواتین کا مسئلہ ایک معاشرتی مسئلہ ہے، نہ کہ کوئی قانونی مسئلہ۔ اس قسم کے قوانین سے یہ امید رکھنا کہ اصل مسئلہ اس سے حل ہو جائے گا ایسا ہی ہے جیسے کاغذی شیر کو مار کر یہ سمجھنا کہ زندہ شیر بھی ہلاک ہو گیا ہے۔
ہمارے قائدین کو اگر ملت کا درد ہے تو ان کو معاشرے کی اصلاح میں لگ جانا چاہیے۔ مذکورہ بالا قسم کا عمل ، قرآن کے الفاظ میں، صرف يُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا (3:188)کا مصداق ہے۔یعنی، وہ چاہتے ہیں کہ جو کام انھوں نے نہیں کیے اس پر ان کی تعریف ہو۔
12مئی 1986
آج ایک مجلس میں موت کا ذکر آیا۔ میں نے کہا کہ موت اس دنیا میں سب سے زیادہ یقینی چیز ہے۔وہ ہر آدمی کے اوپر اپنے وقت پر آ جاتی ہے۔مجلس کے ایک صاحب نے کسی قدر بےتکلف انداز میں کہا کہ موت کو کون نہیں جانتا۔یہ تو ایسی چیز ہے جس سے ہر شخص باخبر ہے۔
میں نے کہا کہ لوگ عام طور پر موت کو صرف مانتے ہیں کہ انہوں نے اس کو سنا ہے۔موت ان کے لیے ایک سنی ہوئی بات ہے۔مگر میں اپنے بارے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ موت میری دریافت ہے۔ میں موت کو اس لیے مانتا ہوں کہ میں نے خود اس کو شعوری سطح پر دریافت کیا ہے۔
اس کے بعد میں نے اپنا ایک واقعہ بتایا۔ غالباً 1960 کی بات ہے۔ اس وقت میں اپنے آبائی وطن (بڈھریا) میں تھا۔ میں مکان کی چھت پر سو رہا تھا۔ اور گھر کے بقیہ لوگ نیچے سوئے تھے۔ تقریباً نصف شب میں میری نیند کھلی اور اچانک مجھے اپنا ایک معاملہ یاد آیا۔
ایک صاحب نے مجھے 100 روپے بطور امانت دیا تھا۔ یہ سو روپے کا ایک نوٹ تھا۔اس کو میں نے نیچے کے ایک کمرے کی الماری میں کاغذ کے نیچے رکھ دیا تھا۔ رات کو مجھے یہ خیال آیا کہ اگر اچانک مجھے موت آ جائے تو اس رقم کا کیا ہوگا۔کیونکہ گھر کا کوئی شخص اس کے بارے میں واقف نہ تھا۔ چنانچہ میں بستر سے اٹھا۔لالٹین جلائی اور ایک کاغذ پر یہ لکھا کہ میرے پاس فلاں شخص کا سو روپیہ بطور امانت ہے اور وہ فلاں الماری میں کاغذ کے نیچے رکھا ہوا ہے۔اس طرح کا کاغذ لکھ کر میں نے اس کو اپنی جیب میں رکھا اور دوبارہ بستر پر لیٹ گیا۔
اس وقت میرے ذہن پر موت کا اتنا غلبہ تھا کہ اگر میں مذکورہ قسم کا کاغذ لکھ کر اپنی جیب میں نہ رکھتا تو شاید مجھے دوبارہ نیند نہ آتی۔ مگر جب میں نے یہ کاغذ اپنی جیب میں رکھ لیا تو اس کے جلد ہی بعد دوبارہ مجھے نیند آ گئی۔اگرچہ صبح کو جب میں سو کر اٹھا تو میں ابھی زندہ تھا۔موت ہر آدمی پر لازماً آتی ہے، مگر وہ ہمیشہ اپنے وقت پرآتی ہے۔نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد۔
13مئی 1986
محمدرضا صاحب عجیب وغریب آدمی ہیں۔وہ اپنے آفس میں لڑتے رہتے ہیں۔کسی کی بات نہیں سنتے۔مگر میری بات سن لیتے ہیں۔اگرچہ مجھے اس کی وجہ نہیں معلوم۔
ان کو اپنے دفتر سے کچھ رقم ملی تھی۔ ان کی اہلیہ کو یہ اندیشہ ہوا کہ وہ اپنے مزاج کی وجہ سے رقم ضائع کر دیں گے۔چنانچہ ان کی اہلیہ کا پیغام میرے پاس آیا کہ وہ آپ کی بات سنتے ہیں۔آپ ان سے رقم لے کر اپنے پاس رکھ لیں اور بوقت ضرورت دیتے رہیں۔چنانچہ میں نے یہ رقم (دس ہزار) ان سے لے کر بطور امانت اپنے پاس رکھ لی۔ وہ اکثر آتے ہیں اور حسب ضرورت رقم لے جاتے ہیں۔
آج ہمارے دفتر والوں نے انٹر کام پر بتایا کہ رضا صاحب آئے ہوئے ہیں۔ میں نے کہا کہ ان سے پوچھو کہ انہیں کتنی رقم چاہیے۔ رضا صاحب نے کہا کہ اس وقت میں رقم کے لیے نہیں آیا ہوں۔ صرف ملاقات کرنا ہے۔ چونکہ رضا صاحب اپنے غیر معتدل ذہن کی وجہ سے اکثر غیر متعلق اور طویل باتیں کرتے ہیں۔ میں نے کہہ دیا کہ اگر رقم کی ضرورت ہو تو لے لیں مگر اس وقت ملاقات کا موقع نہیں ہے۔
رضا صاحب واپس چلے گئے۔مگر اس کے چند منٹ بعد مجھے احساس ہوا کہ میں نے انہیں اس طرح لوٹا کر سخت غلطی کی ہے۔ غلطی کا احساس ایک بھاری بوجھ کی طرح دل کے اوپر محسوس ہونے لگا۔ فوراً ہی مجھے ایک حدیث یاد آئی اور میں دل ہی دل میں رضا صاحب کے لیے دعا کرنے لگا،دعا کے الفاظ یہ تھے — خدایا رضا صاحب کی مدد فرما۔خدایا رضا صاحب کے احوال درست کر دے۔
اس قسم کی دعائیں میں دل ہی دل میں تقریباً آدھے گھنٹے تک کرتا رہا۔ اس کے بعد اچانک ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میرے دل کا بوجھ اتر گیا ہے۔ جو دل پہلے سخت بوجھل محسوس ہو رہا تھا وہ اچانک بالکل ہلکا ہو گیا۔
شاید یہی مطلب ہے اس آیت کا جس میں ارشاد ہوا ہے: إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ (11:114)۔ یعنی بیشک نیکیاں دور کرتی ہیں برائیوں کو۔
آدمی سے اگر کوئی غلطی ہو جائے تو اس کو چاہیے کہ غلطی کی مناسبت سے کوئی نیک عمل کرے۔یہ نیک عمل اس کی غلطی کو ان شاء اللہ زائل کر دے گا۔
14مئی 1986
یمین الاسلام خان میرے بھتیجے ہیں۔وہ انجینئر ہیں اور لکھنؤ میں آبپاشی کے محکمہ میں سپرنٹنڈنٹ ہیں۔ آج وہ دہلی آئے۔ بات چیت کے دوران انہوں نے ایک سبق آموز مقولہ بتایا
جب آپ ہنستے ہیں تو دنیا آپ کے ساتھ ہنستی ہے۔مگر جب آپ روتے ہیں تو دنیا آپ کے اوپر ہنستی ہے۔
یہ ایک بہت بامعنی مقولہ ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ دنیا میں ایک آدمی دوسرے آدمی سے بننے کی حد تک دلچسپی رکھتا ہے۔کسی کی بگڑ رہی ہو تو اس سے دوسروں کو کوئی دلچسپی نہیں۔
بہت سے لوگوں کا یہ مزاج ہے کہ جب وہ کسی سے ملتے ہیں تو اس کو اپنا غم سنانے لگتے ہیں۔مگر اس سے زیادہ حماقت اور کچھ نہیں۔ اس دنیا میں ہر آدمی اپنے مسائل سے دوچار ہے۔ کسی کو یہ موقع نہیں کہ وہ دوسرے کے مسائل میں دلچسپی لے۔وہ دوسرے کے درد میں اس کا حصہ دار بن سکے۔
حقیقت پسندی کی بات یہ ہے کہ اس دنیا میں آدمی پر جو کچھ بیتے وہ خود اس کو سہے۔وہ خود اپنے مسائل کو حل کرنے کی تدبیر کرے۔
یہ دنیا ایک ایسی دنیا ہے جہاں ہر آدمی کو اپنی لڑائی خود لڑنی پڑتی ہے۔ یہاں کوئی شخص دوسرے کے لیے نہیں لڑتا۔ہرآدمی اپنی ناکامی کا خود ذمہ دار ہے۔ ایک شخص نہ دوسرے شخص کی کامیابی میں شریک ہو سکتا ہے اور نہ اس کی ناکامی میں۔
15مئی 1986
موجودہ زمانے میں بہت سی نیوز ایجنسیاں ہیں۔ان میں مشہور نیوز ایجنسیاں حسب ذیل ہیں: اسوسی ایٹڈ پریس (AP)، یونائیٹڈ پریس انٹرنیشنل (UPI)، رائٹر، فرنچ پریس ایجنسی (AFP)۔
اے ایف پی کے بارہ ہزار خریدار (سبسکرائبرز)ہیں۔جو 150 سے زیادہ ملکوں سے تعلق رکھتے ہیں۔وہ اخباروں کے علاوہ ریڈیو، ٹیلی ویژن،بینکوں، انٹرنیشنل تنظیموں کو خبریں سپلائی کرتی ہیں۔یہ نیوز ایجنسی ہر روز چھ مختلف زبانوں (فرانسیسی، انگریزی، جرمن،اسپینی، پرتگالی، عربی) میں ایک ملین الفاظ بھیجتی ہے جن کو ایک ہزار ملین افراد پڑھتے ہیں۔
اس نیوز ایجنسی کو یہ کامیابی ڈیڑھ سو سال میں حاصل ہوئی ہے۔ابتداء ًاس کو چارلس ہواس (Charles-Louis Havas, 1783-1858) نے 1835 میں قائم کیا۔ اس وقت کبوتروں (carrier pigeon) کے ذریعے دور کے مقامات تک خبریں بھیجی جاتی تھیں۔اس کے بعد ٹیلی گراف کا زمانہ آیا۔پھر وائر لیس کا۔پھر ریڈیو کا اور اب وہ سیٹلائٹ کے ذریعہ خبریں پہنچانے کے دور میں داخل ہو گئی ہے۔اے ایف پی پہلے الفاظ کی ترسیل کا نام تھی۔اب وہ سیٹلائٹ کے ذریعے فوٹو کی ترسیل کا کام بھی کر رہی ہے۔ اس وقت اس کے تین فوٹو گرافک سینٹر ہیں،پیرس، واشنگٹن اور ٹوکیو( ٹائمس آف انڈیا، 15 مئی 1986)۔
مسلمان ان مغربی نیوز ایجنسیوں کی شکایت کرتے ہیں کہ وہ خبروں کو مغربی نقطۂ نظر سے پیش کرتی ہیں اور مسلمانوں کےنقطۂ نظر کو نظر انداز کرتی ہیں۔مگر یہ سراسر لغو شکایت ہے۔اس دنیا میں کوئی شخص دوسرے کا کام نہیں کرتا۔مسلمان اگر یہ چاہتے ہیں کہ ان کی خبریں ان کے نقطۂ نظر کے مطابق دنیا میں پھیلیں تو وہ بھی ’’ڈیڑھ سو سالہ‘‘ عمل کے نتیجے میں ایک اعلیٰ سطح کی نیوز ایجنسی عمل میں لائیں۔اس کے سوا اس مسئلہ کا کوئی حل نہیں۔
16مئی 1986
نظام الدین( دہلی) میں ہمارے مرکز کے سامنے سڑک کے دوسری طرف ایک سردار جی کا دو منزلہ مکان ہے۔اس مکان میں بہت سے عرب طلبا کرایہ دار کے طور پر رہتے ہیں۔آج ایک بجےدن میں، میں جمعہ کی نماز کے لیے مسجد کی طرف جا رہا تھا۔راستہ میں ان میں سے تین عرب طلبا ملے۔انہوں نے مجھے سلام کیا۔ میں نے بھی ان کو سلام کا جواب دیا۔ اس کے بعد میں نے پوچھا من ای بلد انتم (آپ کا تعلق کس ملک سے ہے)۔ان میں سے ایک نوجوان خاص لہجہ میں بولا من بلاد اللہ فلسطین (اللہ کے ملک فلسطین سے)۔اس نے یہ جملہ کہا اور پھر فوراً اپنے ساتھیوں کے ساتھ آگے بڑھ گیا۔
ان فلسطینی طلبا سے میری ملاقات بہت کم ہو سکی ہے۔ مگر چونکہ وہ بالکل سامنے والے مکان میں قیام پذیر ہیں، اس لیے میں ان کو پچھلے ایک سال سے زیادہ عرصہ سے دیکھ رہا ہوں۔ سب سے زیادہ عجیب بات ہے کہ یہ لوگ اگرچہ یہاں تعلیم کی غرض سے آئے ہیں، مگر بہت کم ایسا ہوا ہے کہ وہ پڑھتے ہوئے دکھائی دیں۔ممکن ہے وہ اپنے بند کمروں میں پڑھتے ہوں، مگر اپنی چھت پر اور اپنے صحن میں وہ ہمیشہ تفریح کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اور تفریح کا یہ سلسلہ منٹوں نہیں بلکہ گھنٹوں جاری رہتا ہے۔ایک روز میں نے دیکھا کہ وہ ایک سپیرے کو پکڑ لائے اور تقریباً آدھے دن تک سب جمع ہو کر سانپ کا کھیل دیکھتے رہے اوراس کے ساتھ تصویریں کھینچواتے رہے۔ اکثر ان کے کمرے سے ٹیپ ریکارڈر بجنے کی آواز آتی ہے جو بہت دیر تک جاری رہتی ہے۔ کبھی ایئر گن لے کر سارا دن چڑیوں پر نشانہ لگاتے رہتے تھے، وغیرہ۔
مجھے اپنے باہر کے سفروں میں بعض ایسے فلسطینی ملے ہیں جو نہایت سنجیدہ تھے، مگر غالباً بیشتر فلسطینیوں کا مزاج وہی ہے، جس کا نقشہ اوپر کی مثال میں نظر آتا ہے۔جو لوگ اس قدر غیر سنجیدہ ہوں، جو اتنی بےدردی کے ساتھ اپنے وقت کو برباد کریں وہ موجودہ مقابلہ کی دنیا میں کس طرح کامیاب ہو سکتے ہیں۔
17 مئی 1986
نئی دہلی کے ایک ہال میں مسلمانوں نے ایک جلسہ کیا۔ اس میں مسلمانوں کے ایک مشہور قائد نے تقریر کی۔ جلسہ میں ہندو صحافی اور دانشور بھی بلائے گئے تھے۔تقریر کا خاص موضوع اسلامی شریعت تھا۔ہال میں شاہ بانو کے معاملہ پر مسلمانوں نے جو زور و شور دکھایا ہے ، اس کی وجہ سے غیرمسلموں میں شریعت کے بارے میں عمومی طور پر ایک تجسس پیدا ہو گیا ہے۔ یہ جلسہ 4مئی 1986 کو ہوا۔خصوصی مقرر نے پر جوش تقریر کی۔ مگر تقریر میں زیادہ تر اس قسم کی باتیں تھیں کہ شریعت ہم کو جان سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ہم کسی قیمت پر شریعت کے اندر مداخلت کو برداشت نہیں کر سکتے ،وغیرہ۔
ایک ہندو نے تقریر کے بعد کہا کہ موجودہ دور میں اس قسم کی باتیں قبول نہیں کی جا سکتیں۔ اگر آپ یہ کہیں کہ ہماری شریعت میں لکھا ہے کہ بہوکو تیل چھڑک کر جلا دو تو کیا آپ اپنی بہو کو جلا دیں گے اور ملک خاموش رہے گا۔آپ کو اپنے قانون کی معقولیت بتانی ہوگی۔صر ف دعویٰ کافی نہیں ہو سکتا۔
یہی موجودہ زمانہ میں ہمارے تمام لکھنے اور بولنے والوں کا حال ہے۔ ’’مداخلت فی الدین‘‘ کے نام پر وہ زبردست جوش دکھائیں گے ، مگر دین کی معقولیت ثابت کرنے کے لیے محنت نہیں کریں گے۔حالانکہ زمانہ عقل کا زمانہ ہے۔ آج کا آدمی عقل کی سطح پر ہر چیز کو جانچتا ہے۔ دین کوعصری اسلوب میں پیش کرنے کا حکم ہے،مگر مسلمان اس کو صرف اسلوبِ ماضی میں پیش کر رہے ہیں۔
انہیں تجربات سے متاثر ہو کر میں آج کل ایک کتاب مرتب کر رہا ہوں جس کا نام ہے ’’خاتونِ اسلام‘‘۔میرا یہ موضوع نہیں۔میرا اصل موضوع دعوت ہے۔مگر مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ انہوں نے شاہ بانو کے مسئلہ کو لے کر شریعت کا ہنگامہ کھڑا کر دیا ،مگر شریعت کو زمانہ کے اسلوب میں پیش کرنے کے لیے وہ کچھ نہیں کر رہے ہیں۔ اس لیے مجھ كو يه ذمه داري قبول كرني پڑي۔
18مئی 1986
مسٹر سرجیت سنگھ برنالا اس وقت پنجاب کے چیف منسٹر ہیں۔ان کے حکم سے 30 اپریل 1986 کو مسلح پولس امرتسر کے گوردوارہ(سورن مندر) میں داخل ہو گئی۔ تاکہ وہاں سے دہشت پسندوں کو نکالے۔
یہ واقعہ سکھ روایات کے مطابق جرم تھا۔ اس سے گوردوارہ کا تقدس مجروح ہوا۔ چنانچہ اکالی تخت نے مسٹر برنالا کے نام نوٹس جاری کیا۔وہ نوٹس کے مطابق17مئی 1986 کو اکالی تخت کے سامنے حاضر ہوئے۔ مسٹر برنالا نے اکالی تخت کے سامنے اپنے جرم کا اقرار کیا۔ اس کے بعد اکالی تخت کی طرف سے ان کے لیے سزا کا اعلان کیا گیا ۔اس سزا کی پانچ دفعات تھیں۔انگریزی اخبار کی رپورٹنگ کے مطابق اس کی ایک دفعہ یہ تھی
To perform the service of dusting the shoes at any gurudwara for one week.
وہ ایک ہفتہ تک کسی گوردوارہ میں جوتا صاف کرنے کی خدمت انجام دیں (ٹائمس آف انڈیا، 18 مئی 1986)۔مسٹر برنالا نے سر جھکا کر اعلان کیا کہ وہ اکالی تخت کے فیصلہ کو قبول کرتے ہیں۔
سکھ حضرات نے آج کل آزاد سکھستان بنانے کے لیے توڑ پھوڑ کی جو سیاست چلا رکھی ہے اس سے مجھے صد فی صد اختلاف ہے۔ میں اس کو صرف حماقت سمجھتا ہوں۔ مگر مذکورہ واقعہ بتاتا ہے کہ سکھ حضرات کی مذہبی تنظیم کتنی مضبوط ہے۔یہی طاقت ایران میں شیعہ پیشواؤں کو حاصل تھی۔ مگر عجیب بات ہے کہ ایران میں بھی ایسی طاقت کا استعمال تخریب کے لیے کیا گیا اور پنجاب میں بھی اس کا استعمال صرف تخریب کے لیے ہو رہا ہے۔
19مئی 1986
’’ہر آدمی جھوٹے اسلام میں آگے ہے، مگر وہ سچے اسلام سے دور ہے‘‘— بے اختیار میری زبان سے نکلا۔ آج کل کے مسلمانوں کو میں دیکھتا ہوں تو تمام مسلمان،خواہ وہ اصاغر ہوں یا اکابر، مجھے اسی ایک سطح پر نظر آتے ہیں۔ ہر آدمی کا یہ حال ہے کہ وہ اسلام پر پُر جوش تقریریں کر رہا ہے۔ ہر آدمی اسلام پر مضامین لکھ کر چھاپ رہا ہے۔ ہر آدمی اسلام کا جھنڈا اٹھائے ہوئےکھڑا ہے۔مگر جب عملی تجربہ کیجیے تو ہر مسلمان ایسا نظر آئے گا جیسے وہ اسلام سے بالکل خالی ہو۔
آج کل کے مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے خلاف ایک لفظ نہیں سن سکتے۔مگر دوسروں کے خلاف ہر آدمی تقریر وتحریر کا مجاہد بنا ہوا ہے۔اپنی ذات کے معاملہ میں اس کے سوچنے کا انداز دوسرا ہے اور دوسروں کے بارے میں اس کے سوچنے کا انداز دوسرا۔ کسی کو ایک امانت سونپ کر آپ یہ امید نہیں کر سکتے کہ وہ اس امانت میں خیانت نہیں کرے گا۔کسی شخص کو آپ ایک سچی نصیحت کریں تو آپ کی یہ امید کبھی پوری نہ ہوگی کہ وہ نصیحت کو مانے اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھا لے۔ ایک شخص کے اندر انانیت جاگ اٹھے تو ناممکن ہے کہ قرآن وحدیث کا کوئی بھی حوالہ اس کو دوبارہ اپنے غلط موقف سے دور کرسکے ۔
آج مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ خواہ کتنی ہی کھلی ہوئی غلطی کرے وہ کبھی اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کرے گا۔وہ ایک بار بے انصافی کی طرف قدم اٹھا دے تو اس کو کسی بھی طرح انصاف کی طرف واپس لانا ممکن نہیں ہے۔موجودہ زمانے کے مسلمان فکری زوال کے اعتبار سے آخری حد تک پہنچ چکے ہیں۔ حتیٰ کہ ان کا حال دیکھ کر کبھی کبھی مجھے اندیشہ ہونے لگتا ہے کہ وہ، بائبل کے الفاظ میں، ’’مردود چاندی (rejected silver) ‘‘ تو نہیں ہو گئے ہیں،جس طرح ان سے پہلے کی اہل کتاب قومیں اپنے زوال کے زمانے میں ہو گئی تھیں، جب کہ خدا نے ان کو ریجکٹ کردیا تھا۔جیسا کہ بائبل میں بیان کیا گیا ہے
وہ سب کے سب نہایت سرکش ہیں ۔ وہ غیبت کرتے ہیں ۔ وہ تانبا اور لوہا ہیں۔ وہ سب کے سب مُعاملہ کے کھوٹے ہیں۔ دھونکنی جل گئی ۔ سیسا آگ سے بھسم ہو گیا ۔ صاف کرنے والے نے بے فائدہ صاف کیا۔ کیوںکہ شریر الگ نہیں ہوئے۔ وه’’مردود چاندي‘‘ كهلائيں گے۔کیوں کہ خداوند نے اُن کو رد کر دیا ہے۔(یرمیاہ، 6:28-30)
They are all hardened rebels, going about to slander. They are bronze and iron; they all act corruptly. The bellows blow fiercely to burn away the lead with fire, but the refining goes on in vain; the wicked are not purged out. They are called REJECTED SILVER, because the Lord has rejected them. (Jeremiah 6:28-30)