پیٹنٹ کا قانون
دور جدید میں ایک نیا ظاہرہ وجود میں آیا ہے۔ وہ ہے ایک موجد کو اس کي ایجاد پر محدود وقت کے لیے استعمال کی اجارہ داری دینا۔ اس کو قانون کی زبان میں پیٹنٹ (patent) کہا جاتا ہے۔ یہ انٹلیکچول پراپرٹی (intellectual property) کی ایک قسم ہے جو اس کے مالک کو قانونی حق دیتا ہے کہ وہ اپنی ایجاد کردہ چیز کو دوسروں کو محدود مدت کے لیے اس کی اجازت کے بغیر استعمال کرنے یا فروخت کرنے سے روک دےیا اس پر کچھ رائلٹی حاصل کرے۔ یعنی پیٹنٹ کا قانون ایک مقررہ مدت کے لیے صاحبِ ایجاد کو اس کے عمل کے اوپر خصوصی حقوق فراہم کرتا ہے۔
A patent is a temporary Government grant of a monopoly to the inventor in return for complete disclosure about the invention to the Government.
یہ ایک عارضی گرانٹ ہوتا ہے۔اس لیے کہ کوئی ایجاد بھی ایک انسان کی تنہا کوششوں کا نتیجہ نہیں ہوتی ہے، بلکہ اس میں پچاس فیصد سے زیادہ براہ راست یا بالواسطہ تعاون فطری وسائل اور دوسرے انسانوں کا ہوتا ہے۔ اس کی رعایت کرتے ہوئے انسان کو اس کی ایجاد کے لیے محدود وقت کا پیٹنٹ حق دیا جاتا ہے۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مطابق، پہلا ریکارڈ شدہ پیٹنٹ 1421 ءمیں اٹلی کے معمار اور انجینئر فلیپو برونیلیچی(Filippo Brunelleschi, 1377-1446) کو دیا گیا تھا۔
پیٹنٹ کا قانون کائنات کی ایک فطری حقیقت کی یاد دہانی کراتا ہے۔ وہ ہے مخلوق کے اوپر اس کے خالق کی اجارہ داری کو قبول کرنا۔ انسان کی ایجاد کے برعکس، خالق کی ایجاد میں کسی کی کوئی شرکت نہیں ہوتی ہے،یعنی خالق نے کسی شریک کی مدد کے بغیر تنہا اپنی مخلوق کوایجاد (پیدا) کیا ہے، اور ہر لمحہ وہ اس کی نشو ونما کے اسباب فراہم کررہا ہے۔ اس لیے خالق کی ایجاد پر خالق کی اجارہ داری محدود مدت کے لیے نہیں ہوسکتی ہے، بلکہ مخلوق کے اوپر خالق کی اجارہ داری ابدی ہے۔
خالق نے اپنے تخلیق کا ثبوت انسان کے سامنے واضح طور پر رکھ دیا ہے ۔ یہ ثبوت قرآن کے اندر بیان کیے گئے ہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ انسان کھلے ذہن کے ساتھ اس کتاب کا مطالعہ کرے اور سمجھنے کی کوشش کرے۔ اس سے یہ حقیقت انسان کے سامنے کھل جائے گی کہ اس کا خالق اس سے کیا چاہتا ہے۔اور ایسا کرنے کی صورت میں انسان کو کیا فائدہ حاصل ہوگا۔
جس طرح دنیوی رواج کے مطابق، ایک انسان اپنی ایجاد پر رائلٹی(royalty)کا حقدار ہوتا ہے، اسی طرح اللہ رب العالمین بھی اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی خلق اور ایجاد پر اس کو رائلٹی ادا کی جائے۔ ہر عورت اور مرد اپنی ذات،اور دنیا میں موجود جن چیزوں سے بھی وہ فائدہ اٹھاتا ہے، اس کی رائلٹی وہ خالق کو ادا کرے۔
A royalty is a legally binding payment made to an individual or company for the ongoing use of their assets, including copyrighted works, franchises, and natural resources.
وہ رائلٹی ہے، اللہ کی عبادت اور اس کے لیے سبمیشن۔یہ ایک انسان کے لیے فطری بائنڈنگ ہے۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہےاے لوگو ! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تم کو پیدا کیا اور ان لوگوں کو بھی جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں، تاکہ تم دوزخ سے بچ جاؤ۔ وہ ذات جس نے زمین کو تمہارے لیے بچھونا بنایا اور آسمان کو چھت بنایا، اور اتارا آسمان سے پانی اور اس سے پیدا کیے پھل تمہاری غذا کے لیے۔ پس تم کسی کو اللہ کے برابر نہ ٹھہراؤ، حالاں کہ تم جانتے ہو (2:21-22)۔
اگر کائنات پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے سوا تمام مخلوقات خالق کے آگے جبلت(instinct)کے تحت اپنے آپ کو سرینڈر کیے ہوئے ہیں۔ صرف انسان ایسی مخلوق ہے جس میں سے کچھ لوگ خالق کے آگے مکمل طور پر سرینڈر کیے ہوئے ہیں، اور کچھ لوگ سرینڈر نہیں کیے ہوئے ہیں (الحج، 22:18)۔ ایسا اس لیے ہے کہ منصوبہ تخلیق کے تحت رب العالمین نے انسان کو اپنے آگے جھکنے کے معاملے میں آزادی دے رکھی ہے، اور اس کی یہ مرضی ہے کہ انسان اپنے آزادانہ ارادے کے تحت اپنے خالق یعنی رب العالمین کے آگے جھک جائے، اور وہ اپنے شعوری ارادے کے تحت اس کو اپنا رب تسلیم کرلے، اور بطور ٹوکن خالق کو اپنی طرف سےکچھ رائلٹی ادا کرے۔ جو لوگ ایسا کریں گے، ان کے لیے خدا نےاپني رحمت سے ایک ابدی انعام تیار کررکھا ہے، یعنی ابدی جنت میں سچائی کی سیٹ کا پروانہ عطا کرنا۔ (ڈاکٹر فریدہ خانم)