جنت ماں کے قدموں کے نیچے
اسلام میں ماں (mother)کو بہت اعلیٰ مقام دیا گیا ہے۔ اس تعلق سےپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مشہور حدیث یہ ہے:الْجَنَّةُ تَحْتَ أَقْدَامِ الْأُمَّهَاتِ (مسند الشہاب القضاعی، حدیث نمبر 119)۔ یعنی،جنت ماؤں کے قدموں کے نیچےہے۔یہ حدیث عام طور پر جس طرح سمجھی جاتی ہے وہ اس کے حقیقی مطلب کے بالکل برعکس ہے۔ اس حدیث کو اس طریقے سے لیا جاتا ہے جس میں ماں کو اعلیٰ مقام دیا گیا ہے۔ یعنی بچہ اگر جنت میں داخل ہونا چاہتا ہے تو وہ مکمل طور پر ماں کی فرمانبرداری کرے ، اس کے بغیر بچہ کو جنت نہیں مل سكتي۔
مگر یہ اس حدیث کا درست مطلب نہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈیوٹی کانشش سوسائٹی کی تعمیر کی ہے۔اسلامی تعلیمات کے مطابق، فرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے فرائض کو ادا کرے،وہ یہ نہ دیکھیں کہ دوسرے کیا کام کرتے ہیں۔اس حقیقت کو رسول اللہ نے دوسرے مقام پر اس طرح بیان کیا ہےایک مومن کو اپنی ذمہ داری ادا کرنا چاہیے اور جہاں تک اس کے حقوق کا تعلق ہے، وہ اس کو خدا سے مانگے (صحیح البخاری، حدیث نمبر 7052) ۔ اس اصول کی بنیاد پر، ’’جنت ماں کے قدموں تلے واقع ہے‘‘ کا مطلب یہ ہوگا کہ بچے کے مقابلے میں ماں کی ذمہ داری بہت زیادہ ہے۔ یہ حدیث اصل میں ایک ماں کو مخاطب کرتی ہے ۔ کیوں کہ بچے کی زندگی میں اس کا بہت اہم رول ہے۔
دوسرے الفاظ میں اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایک انسان کے اندر جنت کا شوق پیدا کرنا ماں کے ہاتھ میں ہے۔ مولانا وحید الدین خاں صاحب لکھتے ہیں کہ’’ماں کی حیثیت سے اپنی اولاد کے لیے اس کا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کو ايك اچھا انسان بنانے کی کوشش کرے۔ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتاہے۔ پیدائش کے اعتبار سے ہر بچہ مسٹرنیچر ہوتا ہے، لیکن بعد کی کنڈیشننگ کے نتیجے میں ہر بچہ اپنی حقیقی فطرت سے دور چلا جاتا ہے۔یہی وه مقام ہے جہاں ماں کو اپنا تعمیری رول ادا کرنا ہے‘‘(الرسالہ، دسمبر 2007)۔
’’کسی بچے کےتقریباً ابتدائی 10سال وہ هيںجن کو،نفسیاتی اصطلاح میں، تشکیلی دور (formative period) کہاجاتا ہے۔ یہ تشکیلی دوربے حد اہم ہے۔ کیوں کہ اِس تشکیلی دور میں کسی کے اندر جو شخصیت بنتی ہے، وہ بے حد اہم ہے۔ یہی شخصیت بعد کی پوری عمر میں باقی رہتی ہے۔‘‘ (الرسالہ،مارچ 2019)
’’ ماں کی حیثیت سے عورت کا رول اگلی نسل کی تیاری ہے۔ انسان کی نسل ایک رواں دریا کی مانند ہے۔ انسانی سماج میں مسلسل ایسا ہوتا ہے کہ پچھلی نسل جاتی رہتی ہے اور نئی نسل اس کی جگہ لیتی رہتی ہے۔ ماں کا کام اِسی نئی نسل کی تیاری ہے۔ ماں کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ہر بار اگلی نسل کے لیے بہتر انسان بنا کر بھیجے۔بہتر انسان کون ہے۔ بہتر انسان وہ ہے جس کے اندر زندگی کا حوصلہ ہو۔ جو منفی سوچ سے بلند ہو اور مثبت سوچ کا حامل ہو۔ جو اپنے ذہن کے اعتبار سے اِس قابل ہو کہ وہ تعمیری بنیادوں پر زندگی کی منصوبہ بندی کرسکے۔ جو اپنے سماج کے لیے کوئی نیا پرابلم پیدا نہ کرے۔ جو اپنے سماج کا دینے والا ممبر (giver member) ہو، نہ کہ صرف لینے والا ممبر۔‘‘ (الرسالہ، دسمبر 2007)
بچے مستقل طور پر اپنی ماں کے ساتھ رہتے ہیں۔ اپنی زندگی کے ابتدائی زمانے میں، وہ اس کو سب سے زیادہ دیکھ رہے ہوتے ہیں اور غیر شعوری طور پر اپنی ماں کی نقل کرتے ہیں۔ مگر ماں جو کام بھی کرتی ہے، وہ اس کا سوچا سمجھا عمل ہوتا ہے۔ اس لیے ماں کو اس بات کا بہت زیادہ خیال رکھنا چاہیے کہ وہ جو کام بھی کرے وہ خدا کی رضا کے مطابق کرے ۔
جنت کی راہ ایک ایسی راہ ہے جو درست پلاننگ، تعلیم، تربیت، اورناشکری کے بجائے شکر، بے صبری کے بجائے صبر اور خدا کی معرفت کی راہ ہے۔ اس بنا پر اس حدیث میں گویا ایک ماں کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ اپنے بچے كو ايك اچھا انسان بنانے ميںاپنا کردار ادا کرے۔ یہ حدیث ماؤں کے لیے ایک سنجیدہ پكار ہے کہ وہ اپني اهميت كو سمجھيںاور اپنے اندر اعليٰ صفات پيدا كريں، کیوں کہ بچے اپنے تشكيلي دور ميں سب سے زياه اپني ماں کی پیروی کرتے ہیں۔(ڈاکٹر فریدہ خانم)