اللہ کی مدد
قرآن میں ایک حقیقت کو دو مقام پر بیان کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک آیت یہ ہے: وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ (22:40)۔ یعنی اور اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اللہ کی مدد کرے۔ بیشک اللہ زبردست ہے، زور والا ہے۔ دوسرے مقام پر یہ الفاظ ہیں: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ (47:7)۔ یعنی اے ایمان والو، اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدموں کو جمادے گا۔
اس آیت کا مطلب عام طور پر یہ لیا گیا ہے کہ باطل کے خلاف جن لوگوں نے پیغمبر کا ساتھ دیا، صرف ان کے بارے میں یہ آیتیں ہیں۔ مگر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تاریخ کے بارے میں اللہ کا منصوبہ کیا ہے، اس کو جانو، اور اس میں اہل حق کا ساتھ دو۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں آیتیں کسی مخصوص دور کے بارے میں نہیں ہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کا یہ منصوبہ پوری تاریخ کے بارے میں ہے، اور اہل حق سے کہا گیا ہے کہ وہ تاریخ کے خدائی منصوبے کو جانے اور ان لوگوں کا ساتھ دے، جو اس معاملے میں اللہ کے منصوبے کی تکمیل کے لیے کام کررہے ہیں۔
مثلاً ایک حدیث میں آیا ہے کہ میرے لیے ساری زمین مسجد بنادی گئی(صحیح مسلم، حدیث نمبر 522)۔ اس حدیث میں ایک عالمی مسئلے کا ذکر ہے۔ یعنی اللہ کا منصوبہ یہ تھا کہ قرآن کی دعوت عالمی سطح پر پھیلے۔ یہ منصوبہ مکمل طو رپر پیس فل منصوبہ تھا۔ مگر مسلمانوں نے اس منصوبے کو سمجھا نہیں، اور جنگی کارروائی میں مشغول ہوگئے۔ ان آیات یا حدیثِ رسول سے مراد مکمل طو رپر پرامن دعوتی منصوبہ ہے۔ اس کا کوئی تعلق جنگ یا قتال سے نہیں ہے۔اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ساری زمین اہلِ اسلام کے لیے ورک پلیس ہے۔ ساری زمین ان کے لیے ميدانِ كارکی حیثیت رکھتی ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ وہ مکمل معنوں میں پرامن رہیں، اوراس خدائی منصوبہ میں اپنے آپ کولگا دیں۔