سپريم چيز

زندگي ميں سب سے پهلا سوال يه هے كه انسان كے لیے سپريم چيز كيا هے۔ ميں اپنے تجربے كے مطابق كهه سكتا هوں كه كسي انسان كے لیے سپريم چيز ذہنی اطمینان (peace of mind) هے۔ كسي انسان كے لیے سپريم چيز نه تو مال و دولت هے، نه شہرت (fame) هے اورنه طاقت هے، اور نہ عوامی مقبولیت (popularity) ۔ كسي انسان كے لیے سپريم يافت وهي چيز هوسكتي هے جو اس كو فل فل مينٹ (fulfillment)دے۔ اور تجربه يه ثابت كرتا هے كه پيس آف مائنڈ كے سوا كوئي اور چيز انسان كو فل فل مينٹ نهيں ديتي۔

پيس آف مائنڈ كي يه اهميت كيوں هے۔ اس كا سبب يه هے كه پيس آف مائنڈ انسان كي نيچر كے مطابق هے۔ انسان اپنے نيچر كے مطابق يه چاهتا هے كه وه آخري حد تك اپنے آپ كو مطمئن بنا سكے۔ مگر كسي انسان كو اطمينان صرف داخلي کامیابی(achievement) پر هوسكتا هے خارجي کامیابی پر نهيں۔ اسي داخلي يافت كا دوسرا نام انٹلكچول ڈيولپمنٹ يا اسپريچول ڈيولپمنٹ هے۔امريكي دولت مند بل گيٹس (Bill Gates)نے ڈالر كے بارے ميں اپنے تجربے كو ان الفاظ ميں بيان كيا:

‘‘Once you get beyond million dollars, it is the same hamburger.’’

بل گيٹس نےجو بات ڈالر كے بارےميں كهي هے، وهي بات هر خارجي کامیابی كے لیے  درست هے۔ يه خارجي کامیابی خواه دولت هو، يا بزنس هو، يا شہرت هو، یا سوشل میڈیا پر فالوورز کی کثرت ہو، يا پولٹيكل پاور هو، يا اور كوئي مادي چيز هو۔اس قسم کی کوئی بھی چیز انسان کو حقیقی معنی میں ذہنی اطمینان عطا نہیں کرتی ہے۔ مادی طور پر کامیابی حاصل کرنے کے باوجود بھی انسان خود کو ذہنی طور پر بے سکونی کی حالت میں پاتا ہے۔ مثلاً امریکا کے بل گیٹس (Bill Gates)کے لیے اس کی دولت تسکین کا ذریعہ نہیں بنی تو اس نے اپنی دولت کا بڑا حصہ چیرٹی میں دے دیا۔ امریکا کے سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ (Donald Trump)کو وائٹ ہاؤس میں پہنچ کر سکون نہیں ملا۔ چنانچہ اس نے وائٹ ہاؤس کو کویا آب ریشم (cocoon) بتایا، وغیرہ۔

اصل یہ ہے کہ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے معیار پسند (perfectionist)ہے۔ جب کہ موجودہ دنیا ہر اعتبار سے غیر معیاری (imperfect) ہے۔اس صورت حال نے انسان اور موجودہ دنیا کے درمیان ایک تضاد پیدا کردیا ہے۔ اسی تضاد کا یہ نتیجہ ہے کہ کوئی انسان ہر قسم کے دنیوی سامان کو حاصل کرنے کے باوجود مطمئن نہیں ہوتا۔ دنیا کی ہر چیز اس کو اپنے ذہنی معیار سے کم تر معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے وہ ان کو پاکر بھی مطمئن نہیں ہوتا۔بظاہر راحت کے سامان کے درمیان بھی وہ ہمیشہ ایک قسم کے غیر شعوری عدم اطمینان میں مبتلا رہتا ہے۔

فطرت کا یہ قانون ثابت کرتا ہے کہ دنیوی راحت کے سامانوں میں ذہنی سکون تلاش کرنا ایک ایسا بے سود عمل ہے جو کبھی کار آمد بننے والا ہی نہیں۔اس مسئلہ کا واحد ممکن حل وہی ہے، جس کو دین میں قناعت(contentment) کہا گیاہے۔ حدیث میں مومن کی مثال مسافر سے دی گئی ہے (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6416)۔ مسافرکا معاملہ کیا ہے، وہ اپنے آپ کو سفر کی حالت میں سمجھتا ہے، اِس لیے وہ تنگی اور پریشانی کے باوجود سفر کے وقت، یا سواری میں بیٹھ کر اطمینان کے ساتھ اپنا سفر طے کرتا ہے۔اِسی حقیقت پسندانہ سوچ کا نام قناعت (contentment)ہے۔یعنی آدمی صورتِ موجودہ پر دل سے راضی ہوجائے۔

دنیا میںجب بھی کوئی شخص صحیح اصول کے مطابق کمانے کی کوشش کرے تو وہ ضرور اتنی معاش حاصل کرلیتا ہے جو اس کی ضرورتوں کے لیے کافی ہو۔ اگر وہ اس ملے ہوئے پر راضی ہو جائے تو اس کا فائدہ اس کو ذہنی سکون کی صورت میں ملے گا۔ لیکن سکون ہمیشہ قناعت سے ملتاہے اورقناعت کا مطلب ہے ملے ہوئے پر راضی ہوجانا۔

صحابیٔ رسول سعد بن ابی وقاص نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا :اے میرے بیٹے ، جب تم مال طلب کرو تو اس کو قناعت کے ساتھ طلب کرو ۔ کیوں کہ جس کے اندر قناعت نہ ہومال اس کے لیے کافی نہیں ہو سکتا:قَالَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ لِابْنِهِ:يَا بُنَيَّ! إِذَا طَلَبْتَ الْغِنَى؛ فَاطْلُبْهُ بِالْقَنَاعَةِ؛ فَإِنَّهُ مَنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ قَنَاعَةٌ لَمْ يُغْنِهِ مَالٌ(تاریخ دمشق لابن عساکر،جلد20، صفحہ 363)۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: كُنْ قَنِعًا، تَكُنْ أَشْكَرَ النَّاسِ (سنن ابن ماجه، حديث نمبر4217 )۔ یعنی، قناعت کرنے والے بنو، تم سب سے زیادہ شکر کرنے والے بن جاؤ گے— شکر گزاری کا جذبہ انسان کے اندرپیس آف مائنڈ پیدا کرتا ہے۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom