مطالعۂ حدیث
شرح مشکاۃ المصابیح
(حدیث نمبر96-109)
96
عبدالله بن عمر رضي الله عنه كهتے هيں كه ايك دن رسول الله صلى الله عليه وسلم نكلے اور اس وقت آپ كے هاتھ ميں دو كتابيں تھيں۔ آپ نے كها كه كيا تم جانتے هو يه دو كتابيں كيا هيں۔هم نے كها كه نهيں اے خدا كے رسول، إلّا يه كه آپ هميں بتائيں۔ پھر آپ نے داهنے هاتھ والي كتاب كي طرف اشاره كرتے هوئے فرمايا۔ يه ايك كتاب هے جو رب العالمين كي طرف سے هے۔ اس ميں اهلِ جنت كےنام هيں، ان كے باپوں كے نام اور ان كے قبيلوں كے نام هيں۔ پھر ان كي كل تعداد آخر ميں درج كردي هے، اب ان ميں نه كبھي زيادتي هوگي اور نه كمي۔ پھر آپ نے بائيں هاتھ والي كتاب كي طرف اشاره كرتے هوئے كها۔ يه ايك كتاب هےجو رب العالمين كي طرف سے هے۔ اس ميں اهلِ دوزخ كے نام هيں، اس ميں باپوں كے نام اور ان كے قبيلوں كے نام هيں۔پھر ان كي كل تعداد آخر ميں درج كردي هے۔ اب ان ميں نه كبھي زيادتي هوگي اور نه كمي۔ پھر آپ كے اصحاب نے كها كه اے خدا كے رسول۔ پھر كس چيز ميں عمل، اگر سب كچھ هو چكا هے۔ آپ نے فرمايا كه اعتدال کے ساتھ سیدھی راہ پر چلنے کی کوشش کرتے رهو(سَدِّدُوا وَقَارِبُوا)۔ كيوں كه جو شخص جنت كا اهل هے اس كا خاتمه جنت والوں جيسے عمل پر هي هوگا اگر چه وه كوئي بھي عمل كرے۔ اور جو شخص دوزخ كا اهل هے۔ اس كا خاتمه دوزخ والوں جيسے عمل پر هي هوگا اگر چه وه كوئي بھي عمل كرے۔ پھر رسو ل الله صلي الله عليه وسلم نے اپنے دونوں هاتھوں كي طرف اشاره كيا اور دونوں كو ايك طرف ڈال ديا۔ پھر آپ نے فرمايا: تمهارا رب اپنے بندوں سے فارغ هوچكا، ايك گروه جنت ميں اور ايك گروه دوزخ ميں (سنن الترمذي، حدیث نمبر2141)۔
حديث کے یہ الفاظ (سَدِّدُوا وَقَارِبُوا) بتاتے هیں كه حديث كا مطلب كيا هے— اعتدال کے ساتھ سیدھی راہ پر چلنے کی کوشش کرتے رهو۔یہی صابرانہ روش ہے۔یہ کسی آدمی کے سنجیدہ مزاج ہونے کی ایک علامت ہے۔ اس کا تعلق کسی ایک معاملے سے نہیں ہے بلکہ زندگی کے تمام معاملات سے اس کا تعلق ہے۔ جو آدمی اپنے قول و فعل میں اعتدال پر قائم رہے، وہ اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ وہ جذباتیت سے پاک ہے۔ وہ جب بولتا ہے تو سوچ کر بولتا ہے اور جب کرتا ہے تو وہ سوچ سمجھ کر کرتا ہے، وہ سطحیت پسندی (superficiality) سے پاک ہے۔ اس کا کردار اس کی عقل کے تابع ہوتا ہے، نہ کہ اس کے جذبات کے تابع۔ایسا ہی انسان اپنے مقصد میں کامیاب ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو یہ نصیحت کی تھی کہ خود کو راہ راست پر رکھو، بے اعتدالی سے بچو، صبح و شام کی عبادت کرو، اور رات کے کچھ حصے میں۔ میانہ روی اختیار کرو، میانہ روی(moderation)۔ تم منزل تک پہنچ جاؤگے (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6463) ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں موجود مذكوره كتاب ميں درج ناموں سے مراد غالباً ذاتي نام نهيں هيں بلكه صفاتي نام هيں۔ اس كا مطلب يه هے كه جنت اور جهنم كا فيصله جن صفات ( اصول) پر كيا جانا مقدر هے انھيں صفات پر اس كا فيصله هوگا۔ كسي اور صفت يا كسي اور نسبت كي بنياد پر كسي كے لیےجنت يا جهنم كا فيصله هونے والا نهيں۔اب اس معاملہ میں اللہ کا فیصلہ بدلنے والا نہیں۔ چنانچہ جو انسان پوری سنجیدگی اوراعتدال کے ساتھ ان صفات کو اپنانے کی کوشش کرے گا، اس کے بارے میں امید ہے کہ وہ ضرور اللہ کی نصرت اوررحمت سے جنت کا مستحق قرار پائے گا۔
97
ابو خزامه تابعي اپنے والد سے نقل كرتےهيں۔ وه كهتےهيں كه ميں نے رسول الله صلى الله عليه وسلم سے كها كه اے خدا كے رسول، وه جھاڑ پھونك جو هم كراتےهيں اور دوا جس كے ذريعه هم علاج كرتے هيں اور حفاظتي اسباب جس سے هم اپنا بچاؤ كرتے هيں، كيا يه الله كي تقدير كو كچھ بدل ديتي هيں۔ آپ نے فرمايا كه يه خود الله كي تقدير سے هيں (سنن الترمذي، حدیث نمبر2065، سنن ابن ماجه، حدیث نمبر3437)۔
حديث كے آخري الفاظ (هِيَ مِنْ قَدَرِ الله) سے معلوم هوتا هے كه مذكوره قسم كي حديثوں كا مطلب اسبابِ دنیا کو اختیار کرنے سے روکنا نهيں هے۔ كيوں كه اس كے مطابق، خود اسباب ميں تاثير(effect) بھي خدا كي مقدر كي هوئي هے، وه ان اشیاكي ذاتي صفت نهيں۔
98
ابو هريره رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم هماري طرف آئے اور هم تقدير كے مسئله پر بحث كررهے تھے۔ آپ غضبناك هوگئے، يهاں تك كه آپ كا چهره سرخ هوگيا۔ گويا كه آپ كے رخساروں پر انار كے دانے نچوڑ دیے گئے هوں۔ پھر آپ نے فرمايا: كيا تم لوگوں كو اسي كا حكم ديا گيا هے، كيا ميں اسي كے ساتھ تمهارے پاس بھيجا گيا هوں۔ تم سے پهلے كے لوگ تباه كردیے گئے جب كه انھوں نے اس معاملے ميں بحث كي۔ ميں نے تمهارے اوپر لازم كيا كه تم اس معاملے ميں بحث نه كرو(سنن الترمذي، حدیث نمبر2133)۔
تقدير كا مسئله ايك بے حد نازك مسئله هے۔الٰہیات کے میدان میں قدیم زمانے سے یہ بحث جاری ہے کہ اِس دنیا میں انسان آزاد ہے، یا مجبور۔ بظاہر انسان اِس دنیامیں اپنے آپ کو آزاد پاتا ہے، لیکن جب خدا قادرِ مطلق ہے تو یہ بات ناقابلِ قیاس معلوم ہوتی ہے کہ خدا کی قدرتِ کاملہ کے درمیان انسان کو خود مختاری حاصل ہو۔ اِس تصور پر بہت زیادہ لکھا گیا ہے۔ اردو شاعر میر تقی میر (وفات1810 ء) نے اِسی بات کو اِس طرح نظم کیا ہے:
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی چاہتے ہیں سو آپ کرے ہیں، ہم کو عبث بدنام کیا
مگر یہ اعتراض ایک غیر معقول اعتراض ہے۔ کیوں کہ خدا کو اگر ہر قسم کا اختیار حاصل ہے تو اُس کو یقیناً یہ بھی اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی مقام پراپنی قدرت کو محدود کرلے۔اصل یہ ہے کہ انسان اپنی حقیقت کے اعتبار سے اللہ رب العالمین کے آگےمكمل طورپر مجبور مخلوق هے ۔ مگر اللہ تعالی نے اپنے منصوبۂ تخلیق کے تحت اپنی قدرت کو وقتی طور پر محدود کرلیا ہے، اوراس صفتِ اختیار (قدرت) کا ایک شمہ (iota) انسان کو محدود مدت کے لیے بطور عطیہ دے دیا ہے۔ موت گویا اس صفتِ اختیار کے خاتمہ کا اعلان ہے۔
یہ عطیہ ٹسٹ (test) کے لیےہے۔ یعنی انسان اگر اپنے اختیارکا غلط استعمال (misuse) کرے تو اس کی پکڑ ہوگی، لیکن اگر وہ اختیار کا درست استعمال کرے تو اس کو انعام ملے گا۔ اسی کے ساتھ انسان کو قلیل علم دیا گیا ہے (الاسراء،17:85)۔ اپنی اس محدودیت کی بنا پر انسانوں کے لیےتقدیر کی تفصیلی تہہ تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے انسان كو چاهیے كه وه اس معاملے ميں اجمالي علم پر قناعت كرے۔ اس معاملہ میں كلي علم کا حصول اس کے لیے ممکن نہیں۔
یہ قیاس بظاہر ایک نظری قیاس ہے۔ بلیک ہول کی دریافت نے اِس قیاس کے لیے مظاہراتی سطح پر ایک عملی تصدیق فراہم کردی۔ بلیک ہول کا نظریہ تقدیر کے معاملے میں انسانی علم کی محدودیت کو قابلِ فہم بنا رہا ہے۔ ایمسٹرڈم (نیدر لینڈس) میں ماہرینِ طبیعیات (physicists) کی ایک انٹرنیشنل کانفرنس ہوئی۔ اِس موقع پر فزکس کا نوبل پرائز(1980ء) پانے والے ایک سائنس داں مسٹر جیمس واٹسن (James Watson Cronin, 1931-2016) نے اپنے مقالے میں بتایا کہ ہماری کائنات کا 96 فی صد حصہ سیاہ مادّہ (dark matter) پر مشتمل ہے۔ اُس کی روشنی یا ریڈی ایشن ہم تک نہیں پہنچتا، اِس لیے ہم اُس کو براہِ راست طورپر دیکھ نہیں پاتے:
‘‘Dark matter can not be detected directly, because it does not emit or reflect light or radiation.’’
جیمس واٹسن نے مزید کہا کہ — ہم سمجھتے ہیں کہ ہم کائنات کو جانتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم ہر چیز کے صرف 4 فی صد حصے کو جان سکتے ہیں:
‘‘We think we understand the universe, but we only understand four percent of everything.’’ (The Times of India, September 23, 2007, p. 20)
بلیک ہول کا نظریہ تقدیرِ کے مسئلے میں انسانی علم کی محدودیت کو قابلِ فہم بنا رہا ہے۔
99
ابن ماجه نے بھي اسي طرح كي روايت عمروبن شعيب سے، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے اپنے دادا سے نقل كي هے(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر85)۔
100
ابو موسي اشعري رضي الله عنه كهتے هيں كه ميں نے رسول الله صلي الله عليه وسلم كو يه كهتے هوئے سنا: الله نےآدم كو مٹھي بھر خاك سے پيداكيا۔ اس كو الله نے ساري زمين سے ليا تھا۔ پس آدم كي اولاد زمين كےاندازے پرهوئي۔ ان ميں سے كچھ سرخ هيں اور كچھ سفيد اور كچھ كالے اور كچھ درمياني۔ اور كچھ نرم اور كچھ سخت اور كچھ ناپاك اور كچھ پاك(مسنداحمد، حدیث نمبر 19642؛ سنن الترمذي، حدیث نمبر2955؛ سنن ابی داؤد، حدیث نمبر4693)۔
انساني جسم كے تركيبي اجزاء عين وهي هيں جو سيارهٔ زمين كے تركيبي اجزاء هيں۔ البته انسان كےاندر جو روح هے وه غير زميني يا غير مادّي هے۔ انسان كو چاهیے كه وه اپنے آپ كو اپنے مادّي وجود سے اوپر اٹھائےاور اپنے آپ كو ايك غير مادي وجود كي حيثيت سے ترقي دينے كي كوشش كرے۔ وه اپني روح كو اپني اصل هستي سمجھے اور اپنے جسم كو صرف ايك وقتي قيام گاه كا درجه دے۔
101
عبدالله بن عمرو رضي الله عنه كهتے هيں كه ميں نے رسول الله صلي الله عليه وسلم كو يه كهتے هوئے سنا: ’’الله نے اپني مخلوق كو ايك تاريكي ميں پيدا كيا۔ پھر ان كے اوپر اپنے نور كا ايك حصه ڈال ديا۔ پھر جس نے اس نور ميں سے پايا وه هدايت ياب هوا۔ اور جس نے اس كو نهيں پايا وه گمراه هوگيا‘‘۔ اسي بناپر ميں (عبد اللہ بن عمرو )يه كهتا هوں كه الله كے علم پر قلم سوكھ گيا هے (مسنداحمد، حدیث نمبر 6644؛ سنن الترمذي، حدیث نمبر2642)۔
اس حدیث میں تمثیلی زبان میں یہ بتایا گیا ہے کہ انسان كے جسماني وجود كي بقا كے لیے وه اسباب كافي هيں جو زمين پر پائے جاتےهيں۔ مگر انسان كے روحاني وجود كی بقا اور ارتقا صرف اس وقت ممكن هے جب كه اس كو خدا كے فيض سے خصوصي رباني حصه ملے۔’’ الله كے علم پر قلم سوكھ گيا هے‘‘۔ یعنی اللہ کے علم کی بنیاد پر قلم کو جو کائناتی منصوبہ لکھنا تھا، وہ اس نے اللہ کے حکم سے لکھ دیا ہے، اب اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔اس حقیقت کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے— اللہ کی باتوں میں کوئی تبدیلی نہیں (10:64)۔
102
انس بن مالك رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم اكثر يه كهتےتھے: ’’يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ‘‘ (اے دلوں كے پھيرنے والے، ميرے دل كو اپنے دين پر جمادے)۔ ميں نے كها كه اے خدا كے رسول، هم آپ پر ايمان لائے اور جو كچھ آپ لے آئے اس پر۔ پھر كيا آپ همارے اوپر انديشه كرتےهيں۔ آپ نے فرمايا كه هاں۔ لوگوں كے دل خدا كي انگليوں كے درميان هيں۔ وه ان كو الٹتا پلٹتا هے جيسا كه وه چاهتا هے (سنن الترمذي، حدیث نمبر2140؛ سنن ابن ماجه3834)۔
موجوده دنيا ميں انسان كو مكمل طور پر ايك آزاد مخلوق كي حيثيت سے پيدا كياگيا هے مگر اسي كے ساتھ دوسري حقيقت يه هے كه انسان اپني صلاحيت كے اعتبار سے آخري حد تك ايك عاجزمخلوق هے۔ اس عجز كي بنا پر هر وقت اس كے لیے انديشه هے كه كوئي بھي چيز اس كو حق سے هٹا دے۔ يهي عجز كا احساس آدمي كو مجبور كرتا هے كه وه خدا سے بار بار حق پر ثابت قدمي كي دعا كرتارهے۔
اس حقیقت کو ایک دوسری حدیث ِ رسول میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ:سَدِّدُوا، وَقَارِبُوا، وَأَبْشِرُوا؛فَإِنَّهُ لَا يُدْخِلُ أَحَدًا الْجَنَّةَ عَمَلُهُ قَالُوا:وَلَا أَنْتَ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ:وَلَا أَنَا، إِلَّا أَنْ يَتَغَمَّدَنِي اللهُ بِمَغْفِرَةٍ وَرَحْمَةٍ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6467)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنا رویہ درست رکھو اور میانہ روی پر قائم رہو اور پُر امید رہو، کیوں کہ کسی بھی شخص کو اُس کا عمل جنت میں داخل نہیں کرے گا۔ لوگوں نے کہا کہ کیا آپ کو بھی نہیں اے خدا کے رسول، آپ نے فرمایا کہ ہاں مجھ کو بھی نہیں، الا یہ کہ اللہ مجھ کو اپنی مغفرت اور رحمت سے ڈھانپ لے۔
ان دونوں حدیثوں کوملا کر پڑھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ کی رحمت اور مغفرت کے حصول کے لیےاپنی کوشش کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی سے ثابت قدمی کی دعا کرتے رہنا چاہیے۔
103
ابو موسي اشعري رضي الله عنه كهتے هيں کہ رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: دل كي مثال ايسےپر (feather)كي هے جو ايك كھلے ميدان ميں هو۔ اس كو هوائيں اوپر نيچے الٹ پلٹ كررهي هوں (مسنداحمد، حدیث نمبر 19758)۔
انسان اگر اپنے وجود اور اس اتھاہ کائنات کے درمیان تقابلی غور وفکر کرے تو اس کو یہ معلوم ہوگا کہ لامحدود طور پر وسیع کائنات میں اس کی حیثیت ایک انتہائی عاجز مخلوق کی ہے۔اسی طرح فکری اعتبار سے بھی وہ بےحد كمزور هے۔ یعنی هر لمحه وه شیطان کے حملوں كے نشانہ پر رهتاهے۔ ايسي حالت ميں وهي انسان شیطان کے فتنوں سے بچ سكتا هے جس كا شعور پوري طرح زنده هو اوراسي كے ساتھ وه مسلسل خدا سےاس كي مدد مانگتا رهے۔
104
علي بن ابي طالب رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: كوئي شخص مومن نهيں بن سكتاجب تك وه چار چيزوں پر ايمان نه لائے۔ وه گواهي دے كه الله كے سوا كوئي معبود نهيں اور يه كه ميں الله كا پيغمبر هوں اس نے مجھے حق كے ساتھ بھيجا هے۔ اور وه ايمان لائےموت پر اور موت كے بعد دوباره اٹھائے جانے پر اور وه ايمان لائے تقدير پر (سنن الترمذي، حدیث نمبر2145؛ سنن ابن ماجه، حدیث نمبر81)۔
ايمان يه هے كه آدمي دل سے يه يقين كرے كه زندگي كے سوالات كا صحيح جواب صرف وه هے جو خدا كے نزديك ان كا صحيح جواب هے۔ اور يه جواب انسان كو خدا كے پيغمبر كے واسطه سے ملتاهے، نه كه براهِ راست۔قرآن اس سلسلے میں گائڈ بُک کی حیثیت رکھتا ہے۔قرآن میںخدا کی مطلوب زندگی کے بنیادی اصول بتا دیے گئے ہیں، اور حدیث میںاس کی تفصیل موجود ہے۔
105
عبد الله بن عباس رضي الله عنه كهتےهيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: ميري امت ميں دو قسم كے لوگ وه هيں جن كا اسلام ميں كوئي حصه نهيں— مرجیہ اور قدريه (سنن الترمذي، حدیث نمبر2149)۔
مرجیہ سے مرادجبریہ ہیں، یعنی وه لوگ هيں جو بندے كو مجبور محض مانيں، یعنی جو کام بھی انسان کرتا ہے وہ اللہ کی قدرت کے تحت کرتا ہے، اس میں بندے کا کوئی اختیار شامل نہیں ہوتا ۔ اس کے مقابلے میں قدريه سے مراد وه لوگ هيں جو يه مانيں كه انسان اپنے ہر فعل کا خالق خود ہے، وہ هر فعل خود اپني قدرت سے كرتا هے، اس میں اللہ کی قدرت کاکوئی دخل نہیں ہے۔يه دونوں نظريات انتها پسندي پر مبني هيں۔ پهلانظريه جبر ميں انتها پسندي كي پيداوار هے اور دوسرا نظريه اختيار ميں انتها پسندي كا۔ جب كه اصل حقيقت ان دونوں كے درميان هے۔ اسي انتها پسندي كا نام غلو هے، اور غلو آدمي كو خدا كے دين سےهٹا كر خود ساخته دين پر كھڑاكرديتاهے۔
106
عبد الله بن عمر رضي الله عنه كهتےهيں كه ميں نے رسول الله صلي الله عليه وسلم كو يه كهتے هوئے سنا: ميري امت ميں بھي خسف (زمين ميں دھنسنا) اور مسخ (صورت كا بگڑ جانا) هوگا۔ اور يه ان لوگوں پر هوگا جو تقدير كو جھٹلائيں (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر4613؛ سنن الترمذی، حدیث نمبر2152)۔
تقدير كو جھٹلانا اتنا بڑا جرم اس لیے هے كه ايسا آدمي گويا خداكي قدرت اوراس کے علم كا انكار كرتاهے۔ وه خدا كو مانتےهوئے خدا كو اس كا حقيقي درجه نهيں ديتا۔
107
عبدالله بن عمر رضي الله عنه كهتےهيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: قدريه اس امت كے مجوس هيں۔ پس اگر وه بيمار هوں تو ان كي عیادت كو مت جاؤ،اور اگر مريں تو ان كے جنازه ميں شركت نه كرو (مسنداحمد، حدیث نمبر 5584 ؛سنن ابی داؤد، حدیث نمبر4691)۔
قدريه وه لوگ هيں جو يه عقيده ركھيں كه بنده اپنا هر عمل خود اپني قدرت سے كرتا هے، خدا كي قدرت کا اس ميں كوئی دخل نهيں۔ ايسے لوگوں كي مشابهت مجوسيوں (Zoroastrians)سے يه هے كه مجوس خدا كے وجود كو دو ذات ميں تقسيم كرتے هيں۔ اسي طرح مذكوره عقيده ركھنے والے لوگ گويا خداكو اس كي قدرت سے الگ كررهے هيں۔ گويا كه وه دو قادر مان رهے هيں، ايك خدا اور دوسرے انسان۔
108
عمر بن الخطاب رضي الله عنه كهتےهيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: تم لوگ اهل قدر كے ساتھ اٹھنا بيٹھنا نه ركھو اور نه ان كے ساتھ كلام كرو (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر4710)۔
اهلِ قدر سے مراد وه لوگ هيں جوتقدیرِ الٰہی کے منکر ہیں، اور تقدير كے انمسائل ميں بہت زیادہ غور وفکر كرتے ہیں، جوعلم قلیل(الاسراء، 17:85) کی حد سے باہر ہیں۔ ايسے لوگوں سے ملنے جلنے اور بات كرنے ميں يه انديشه هے كه آدمي ذهني انتشار(confusion) ميں مبتلا هوجائے اس لیے اس سے منع فرمايا۔ تاهم جو لوگ علمي صلاحيت ركھتے هوں وه اصلاحي مقصد كے تحت ايسے لوگوں سے مليں تو اس ميں كوئي حرج نهيں۔
109
عائشه رضي الله عنها كهتي هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: چھ آدمي ايسے هيں جن پر ميں لعنت كرتاهوں اورالله نے بھي ان پر لعنت كي هے، اور هر نبي كي دعا قبول هوتي هے۔ الله كي كتاب ميں (اپنی طرف سے)اضافہ كرنے والا، الله كي تقدير كو جھٹلانے والا، طاقت کے زور پر غلبه حاصل كرنے والا تاكه وه اس شخص كو عزت دے جس كو الله نے (اس کی سرکشی کی وجہ سے)ذليل كيا هے اور وه اس شخص كو ذليل كرے جس كو الله نے عزت دي هے۔ اور الله كے حرام كو حلال كرنے والا، اور ميري آل كے متعلق وه باتيں حلال سمجھنے والا جنھيں الله نے حرام كيا۔ اور ميري سنت سے منہ موڑنے والا (المدخل الی علم السنن للبيهقي، حدیث نمبر 146؛ السنۃ لابن ابی عاصم، حدیث نمبر 337)۔
اس حديث ميں جن كاموں كا ذكر هے وه سب سركشي كي نوعيت كے جرم هيں اور سركشي بلا شبه خدا اور رسول كے نزديك سب سے زياده سنگين جرم كي حيثيت ركھتي هے۔ عام قسم كا جرم كسي نه كسي بشري كمزوري كے زير اثر هوتاهے۔ مگر سركشي انانيت كے جذبه كےتحت كياجانے والاايك فعل هے، اور انانيت يا تكبر بلاشبه خدا كي اس دنياميں كسي انسان كا سب سے بڑا جرم هے۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا کو خدا نے ٹسٹ (امتحان) کے لیے بنایا ہے۔اسی ٹسٹ کی مصلحت کی بنا پر خدا نے انسان کو پوری آزادی عطا فرمائی ہے۔ کیوں کہ آزادی کے بغیرٹسٹ ممکن نہیں۔یہ ٹسٹ کس بات کا ہے۔ یہ ٹسٹ اِس بات کا ہے کہ انسان حقیقت پسندی کا رویّہ اختیار کرے، وہ آزادی کے باوجود اپنے آپ کو بے آزادکرلے۔ وہ آزادی کے باوجود اپنے آپ کو خدا کے کنٹرول میں دے دے۔ وہ اختیار رکھنے کے باوجود اپنے آپ کو بے اختیار کرلے۔ یعنی آزادی کے باوجود اپنے اختیار سے خدا کے آگے جھک جانا۔ خدا کا اصل مطلوب دین یہی آزادانہ سر ینڈر ہے۔ جو شخص اس طرح آزاد ہوتے ہوئے خدا کے آگے سرینڈر کرے وہ موت کے بعد کی ابدی زندگی میں جنت کا انعام پائے گا اور جو شخص ایسا نہ کرے وہ موت کے بعد کی زندگی میںجہنم میں داخل ہوگا۔