علم اور تقویٰ

سورہ البقرہ میں فرمایا گیا ہےکہ:وَاتَّقُوا اللهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللّهُ(2:282)، یعنی اللہ سے ڈرو اور اللہ تم کو تعلیم دیتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ علم کا تقویٰ سے بہت گہرا تعلق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ علم اور صحت فکر دونوں ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ آدمی کے پاس اگر علم یا معلومات کاذخیرہ ہو تو اس کامطلب یہ نہیں کہ وہ درست فکر یا صحیح سوچ کا بھی حامل ہوگا۔

اصل یہ ہے کہ علوم قطعیہ(exact sciences) میں ریاضیات اور تجربات کے ذریعہ ایک یقینی بات سامنےآسکتی ہے ۔مگرجہاں تک علوم ظنی( speculative sciences) کا تعلق ہے، ان میں اس قسم کی قطعیت (certainty)ممکن نہیں۔ اس دوسری قسم کے علوم میں صحت فکر کے لیے  آنسٹی (honesty) لازمی طور پر ضروری ہوتی ہے۔ تقویٰ آدمی کے اندریہی آنسٹی پیدا کرتا ہے۔ یہ آنسٹی اس بات کی ضمانت بن جاتی ہے کہ آدمی کا علم اس کونادرست طرزِفکر سے بچا لے۔

خالق نے انسان کو لامحدود فکری صلاحیت کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ لیکن تفکیری عمل کو درست طورپر جاری کرنے کے لیے ایک فکری گائڈ (intellectual guide) درکار ہے۔ قرآن اسی قسم کا ایک فکری گائڈ ہے، جو اس بات کا ضامن ہے کہ انسان کا تفکیری عمل بھٹکے بغیر درست سمت میں جاری رہے۔ اسلام کی دریافت کے بعد انسان کی زندگی میں ایک نیا تفکیری عمل (intellectual process) شروع ہوجاتا ہے۔ اس کے اندر ایک ارتقا یافتہ ذہن (developed mind) تیار ہوتا ہے۔ اس طرح آدمی اس قابل ہوجاتا ہے کہ چیزوں کو درست زاویۂ نظر سے دیکھ سکے۔ 

تقویٰ ( خوفِ خدا ) کبرو غرور کاقاتل ہے ۔ تقویٰ آدمی کے اندر انانیت (egoism) کاخاتمہ کردیتاہے ۔تقویٰ آدمی کو کِبر اورخودپسندی سے بچالیتاہے ۔تقویٰ آدمی کے اندریہ صلاحیت پیدا کرتا ہے کہ وہ بے لاگ طورپر سوچے اورغیر جانبدارانہ انداز میں اپنی رائے قائم کرسکے ۔ یہی وجہ ہے کہ تقویٰ کوعلم صحیح کاذریعہ بتایاگیاہے ۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom