سمت ِ سفر
ایک عربی پرچہ میں ایک مضمون پڑھا ۔ اس کا عنوان یہ تھا :إستیقظوا من النوم أیھّا المسلمون (اے مسلمانو، نیند سے جاگو) ۔ اس کو پڑھ کر مجھے عربی شاعر معروف الرصافی (وفات 1945ء) کی نظم یاد آگئی۔ اس نے طنزیہ انداز میں عربوں کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی تھی۔ اس نظم کا ایک شعر یہ تھا — تم سو جاؤ اور بیدار نہ ہو۔ کیوں کہ سونے والے لوگ ہی کامیاب ہوتے ہیں:
نا مُوا وَلَا تَسْتَیقِظوا لَا فَازَ اِلّا النُّوَّمُ
عربوں سے(یا مسلمانوں سے)یہ شکایت میرے نزدیک خلافِ واقعہ ہے ۔ اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں عرب اور دوسرے مسلمان خوب جاگے ۔ انہوں نے بڑی بڑی سر گرمیاں دکھائیں ۔ البتہ ان سرگر میوں کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا۔ نتیجہ کے فقدان کو لوگ عمل کے فقدان پر محمول کر کے ان سے شکایت کر رہے ہیں۔
مثال کے طور پر فلسطین کے مسئلہ کو لیجیے۔ شیخ حسن البنانے 1948ءمیں اس کے لیے بڑے پیمانہ پر جہاد کیا ۔ الاخوان المسلمون اپنی تاسیس کے وقت سے لے کر اب تک نہایت بلند بانگ طور پر فلسطین کے مسئلہ پر سر گرم رہے ہیں۔ خود فلسطینی لوگ فلسطین کے اندر اور اس کے باہر پر شور طور پر جاگے ہوئے ہیں، اور اسی طرح ساری دنیا کے مسلمان بھی۔ جمال عبدالناصر نے اسی سوال پر 1967ء میں اسرائیل، فرانس اور برطانیہ سے جنگ کی۔ خلیج کی جنگ 1991ءکی ایک وجہ فلسطین کا مسئلہ ہے۔ حتیٰ کہ بہت سے مسلمانوں نے صدام حسین کے روپ میں صلاح الدین ایوبی کو دوبارہ پیدا کر لیا ۔ مگر ساری کوششوں کے با وجود نتیجہ بالکل الٹا نکل رہا ہے۔ اس مدت میں اسرائیل کا رقبہ کئی گنا بڑھ گیا اور اس کی طاقت میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا۔ اور فلسطینیوں کا مستقبل تاریک سے تاریک تر ہوتا جارہا ہے۔
ایسی حالت میں اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ لوگ سورہے ہیں، انھیں جگایا جائے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ لوگ بے فائدہ سمتوں میں دوڑ رہے ہیں، اور ضرورت ہے کہ ان کو غلط سمت سے موڑ کر صحیح سمت میں سرگرم سفر کیا جائے ۔ مسئلہ غلط رخ پر عمل کرنا ہے، نہ کہ سرے سے عمل نہ کرنا ۔ عمل کی صحیح سمت وہ ہے جو نتیجہ خیز ہو، جو عمل نتیجہ خیز نہ ہو وہ صحیح عمل کبھی نہیں ہوسکتا۔ اس دنیا میں نتیجہ صحیح سمت میں عمل کرنے سے ملتا ہے، نہ کہ مجرد عمل کرنے سے ۔