گزرا ہوا زمانہ

قرآن کی سورہ عصر کاترجمہ یہ ہے:قسم ہے زمانہ کی۔ بے شک انسان بڑے خسارہ میں ہے ، سوا ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیا اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور ایک دوسرے کوصبر کی نصیحت کی (103:1-3)۔

 عصر کا مطلب ہے گزرا ہوا زمانہ ۔ ’’گزرتے ہوئے‘‘ زمانہ میں انسان ایک ’’ٹھہری ہوئی‘‘ مخلوق ہے۔ وہ بقیہ کائنات کے سرگرم قافلہ کے ساتھ لازمی طور پر بندھا ہوا نہیں ہے ۔ انسانی زندگی کی یہ آزا د نوعیت بتاتی ہے کہ اس دنیا میں کامیابی کے لیے آدمی کو بالارادہ کوشش کرنا ہے ، جب کہ ناکامی اس کی طرف اپنے آپ چلی آرہی ہے ۔

 ایک بزرگ نے کہا کہ سورہ عصر کا مطلب میں نے ایک برف بیچنے والے سے سمجھا جو بازار میں آواز لگارہا تھا کہ لوگو، اس شخص پر رحم کرو جس کا اثاثہ گھل رہا ہے ۔لوگو، اس شخص پر رحم کر وجس کا اثاثہ گھل رہا ہے ۔ اس کی پکار کو سن کر میں نے اپنے دل میں کہا کہ جس طرح برف پگھل کر کم ہوتا رہتا ہے، اسی طرح انسان کو ملی ہوئی عمر بھی تیزی سے گزر رہی ہے ۔ عمر کا موقع اگر بے عملی یا برے کاموں میں کھو دیا جائے تو یہی انسان کا گھاٹا ہے (تفسیر رازی، جلد 32، ص278)۔

 انسان اپنی گزرتی ہوئی عمر کے ساتھ آخرت کے ابدی انجام کی طرف چلا جا رہا ہے ۔ وہ ایسے فیصلہ کن مستقبل کی طرف بڑھ رہا ہے جہاں کامیابی صرف اس شخص کے لیے ہے جس نے اپنے عمل سے اس کا استحقاق پیدا کیا ہو ۔ جو شخص عملی استحقاق کے بغیر وہاں پہونچے اس کے لیے آخرت کے دن ابدی بر بادی کے سوااور کچھ نہیں ۔

موجودہ دنیا ایک انتہائی مکمل دنیا ہے ۔ یہاں انتہائی با معنی قسم کی سرگرمیاں جاری ہیں ۔ اور یہ سب کچھ ایک پابند نظام کے تحت ہورہا ہے۔ وسیع کائنات اپنے بے شمار اجزاء کے ساتھ ایک زبردست خدائی قانون میں جکڑی ہوئی ہے ۔ ہر چیز ٹھیک وہی کرنے پر مجبور ہے جس کے لیے اس کو بنا یا گیا ہے ۔ مگر انسان کا معاملہ بالکل مختلف ہے ۔ انسان ، دوسری تمام چیزوں کے بر عکس ، بالکل آزاد ہے ۔یعنی انسان کی فلاح بھی تمام تر اسی میں ہے کہ وہ بقیہ کائنات کا ہم سفر بن جائے ۔ تاہم اللہ کے منصوبۂ تخلیق کے مطابق، کائناتی طریقہ کو اختیارکرنے یانہ کرنے کا معاملہ تمام تر اس کی اپنی مرضی پر منحصر ہے ، وہ چاہے تو اس کو اپنائے اور چاہے تو نہ اپنائے ۔

کائنات کے مقابلہ میں انسان کی مثال ایسی ہے جیسے ٹرین کے مقابلہ میں اسٹیشن پر کھڑے ہوئے مسافر کی ۔ ٹرین اپنے تمام اجزاء سمیت انجن کے ساتھ بھاگی چلی جارہی ہے ۔ ٹرین کا ہر ڈبہ انجن سے بندھا ہوا ریل کی پٹری پر دوڑ رہا ہے ۔ مگر مسافراور ڈبہ میں یہ فرق ہے کہ ڈبہ تو انجن سے بندھا ہوا اپنے آپ چلا جا رہا ہے ۔ مگر انسان اس وقت ٹرین کا مسافر بنتا ہے جب کہ وہ بالقصد اپنے آپ کو اس کے اندر داخل کر کے اس کا شریک سفر بننے پر راضی ہو جائے ۔ گویا انسان کو ٹرین کا ہم سفر بننے کے لیے تو ارادی عمل کی ضرورت ہے مگر ٹرین سے بچھڑنے کے لیے کسی عمل کی ضرورت نہیں۔ بچھڑنے کا واقعہ اپنے آپ ہو رہا ہے ، ٹھیک ویسے ہی جیسے برف پگھل کر ختم ہونے کا واقعہ اپنے آپ ہورہا ہے۔ مگر اس کو بیچ کر اس سے نفع حاصل کرنے کے لیے بالقصد عمل کی ضرورت ہے ۔ یا جیسے کسی طالب علم کے امتحان میں نا کام ہونے کے لیے توصرف اتنی بات کافی ہے کہ وہ کچھ نہ کرے ۔ لیکن اگر وہ کامیاب ہونا چاہتا ہے تو ضروری ہے کہ وہ امتحان کے نظام میں اپنے آپ کو شریک کرے اور ان تقاضوں کو پورا کرے جو تعلیم کے ذمہ داروں نے مقرر کیا ہے ۔

انسان کی زندگی کا زیادہ بڑا حصہ وہ ہے جو موت کے بعد شروع ہونے والا ہے ۔ موت سے پہلے کی زندگی اس کے پورے عرصہ حیات کا محض ایک ابتدائی وقفہ ہے ۔ یہی مختصر وقت انسان کا اصل سرمایہ ہے۔ کیوں کہ اسی پر اس کی آئندہ آنے والی طویل تر زندگی کا فیصلہ ہوناہے ۔

 اس محدود مدت کو صحیح طور پر استعمال کرنا انتہائی ضروری ہے ۔ اس میں معمولی غفلت بھی نا قابل تلافی نقصان کی صورت میں انسان کو بھگتنی پڑے گی ۔ اس کو صحیح استعمال کرنے والا کون ہے ۔ یہ وہ شخص ہے جو موجودہ دنیا میں تین باتوں کا ثبوت دے سکے ۔ ایک وہ جس کو ایمان کہا جاتا ہے ۔ یعنی حقیقت کا شعور اور اس کا اعتراف ۔ دوسرے عمل صالح ۔ یعنی وہی کرنا جوخالق کی اسکیم آف تھنگس کے مطابق درست ہو اور وہ نہ کرنا جوخالق کی اسکیم آف تھنگس کے مطابق درست نہ ہو ۔ تیسرے حق و صبر کی تو اصی ۔ یعنی سچائی کا ادراک اتنا گہرا ہو کہ آدمی اس کا داعی اور مبلغ بن جائے ۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom