اصل مسئلہ

فلسطینی تحریک انتفاضہ (uprising)کے بارے میں بہت سی کتابیں چھپی ہیں ۔ ان میں سے ایک 125 صفحہ کی وہ عربی کتاب ہے جو اس وقت ہمارے پیش نظر ہے : اس کتاب کے ایک باب میں کہا گیا ہے کہ رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک مسلم عورت مدینہ کے ایک یہودی بازار میں تھی ۔ ایک یہودی نے اس کی عزت پر حملہ کرنے کی کوشش کی ۔ عورت نے فریاد کی۔ قریب میں موجود ایک مسلمان نے اس کوسنا اور فوراً ہی تلوار لے کر یہودی کی گردن مار دی (سیرت ابن ہشام، جلد2، صفحہ48)۔

اسی طرح عموریہ میں ایک مسلم عورت کور ومیوں نے گرفتار کر لیا ۔ اس نے فریاد کرتے ہوئے کہا: وَا ‌مُعْتَصِمَاه(ہائے معتصم )۔ ایک مسلمان نے اس پکار کو سنا اور اس کو بغداد کے خلیفہ معتصم تک پہنچایا ۔ خلیفہ معتصم فوراً فوج لے کر روانہ ہوا اور عموریہ پہنچ کر مسلم خاتون کو رہائی دلائی (المنتظم فی التاریخ لابن الجوزی، جلد 11، صفحہ29)۔ تاریخ اسلامی کے ان دو واقعات کو نقل کرنے کے بعد صاحب کتاب لکھتے ہیں :

کتنی ہی بار فلسطین میں اور لبنان کے خیمہ گاہوں میں اور مختلف ملکوں میں بیواؤں اور یتیموں اور بوڑھوں اور بچوں کے منھ سے فریاد اور اعانت طلبی کی پکار بلند ہوئی ۔ مگر مسلمانوں کی طرف سے انہیں کوئی جواب نہیں ملا۔ امت میں کوئی رہنما اور کوئی لیڈر اور کوئی جماعت اور کوئی حاکم ان کی مدد کے لیے حرکت میں نہیں آیا ۔ گویا کہ روئے زمین کے مسلمانوں کے لیے ان کے بھائیوں کا معاملہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔

صاحب کتاب کے یہ آخری الفاظ بالکل خلاف واقعہ ہیں ۔ حقیقت عین اس کے برعکس ہے۔ اصل واقعہ یہ ہے کہ فلسطین میں اور دوسرے ملکوں میں مظلوم مسلمانوں (عورتوں اور مردوں ) کی پکار پر بے شمار لوگ اٹھے ۔ 1948ء میں حسن البنا (وفات 1949ء ) مسلمانوں کی بہت بڑی جمعیت کے ساتھ اٹھے اور لبیک یافلسطین کا نعرہ لگاتے ہوئے یہودیوں کے خلاف جہاد کیا ۔ 1965ء میں جمال عبدالناصر نے حکومت کی پوری طاقت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا ۔ مگر یہ ساری کوششیں غیر موثر ثابت ہوئیں۔ اسی طرح ساری دنیا میں لاکھوں مسلمانوں نے اپنے مظلوم بھائیوں کی حمایت میں جہاد کیا اور اسی راہ میں اپنی جانیں دیدیں ۔

مدینہ میں یا عَمور یہ میں مظلوم خواتین کی مدد کے لیے جو قربانی دی گئی وہ مقدار کے اعتبار سے اس سے بہت کم ہے جو موجودہ زمانہ میں اس قسم کے مظلوم عورتوں اور مردوں کے لیے دی گئی ہے ۔ مگر نتیجہ بالکل مختلف ہے ۔ مدینہ میں اور عَموریہ میں نسبتاً کم قربانیوں سے جو مقصد حاصل کر لیا گیا تھا ،وہ موجودہ زمانہ میں زیادہ قربانی کے باوجود حاصل نہ کیا جا سکا۔

صاحب کتاب اور اس قسم کے دوسرے مسلمانوں کی غلطی یہ ہے کہ وہ اپنی سوچ کا آغاز ’’مدینہ ‘‘ اور ’’عموریہ ‘‘ سے کر رہے ہیں ۔ حالاں کہ یہ صحیح نہیں ۔ انہیں اپنی سوچ کا آغاز ’’مکہ ‘‘سے کرنا چاہیے ۔ ’’مدینہ ‘‘ اور ’’عموریہ ‘‘تواسلامی تاریخ میں مرحلۂ تیاری (formative period)کی انتہا تھے، وہ اس کا آغاز نہ تھا۔مرحلۂ تیاری کا آغاز تو مکہ سے ہوا ۔ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے زوال کی بنا پر ان کی تیاری کا معاملہ دوبارہ پیچھے کی طرف لوٹ گیا ہے ۔ان کے اندر اس قسم کے زندہ افراد موجود نہیں ہیں، جس قسم کے زندہ افراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیار کیے تھے۔فرد کی تیاری کے اعتبار سے آج ہم اپنی تاریخ کے آغاز میں ہیں ، ہم اپنی تاریخ کے اختتام میں نہیں ہیں ۔ موجودہ مسلم رہنما اس راز کو سمجھ نہ سکے۔ اس لیے وہ ایسے اقدامات کرتے رہے جس کا نتیجہ ناکامی کے سوا کسی اور صورت میں نکلنے والا نہ تھا ۔

اس معاملہ کو سمجھنے کے لیے ہمیں پیچھے لوٹ کر مکہ کے ابتدائی دور میں جانا ہو گا ۔ اس اعتبار سے جب ہم مکہ کے حالات کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہاں ہم کو ’’مدینہ ‘‘اور عموریہ ‘‘سے بالکل مختلف تصویر نظر آتی ہے ۔ مثلاً ابن اسحاق کہتے ہیں کہ عمار بن یا سر ، ان کے باپ اور ماں سمیہ بنو مخزوم کے حلیف اور مولی تھے اور اسلام قبول کر چکے تھے۔ چنانچہ بنو مخزوم کے قبیلہ کے لوگ دوپہر کے وقت جب گرمی خوب تیز ہو جاتی تو ان سب کو لے کر مکہ کے باہر نکلتے اورصحرا کی گرم ریت پر لٹا کر تکلیف دیتے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس سے گزرتے اور وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فریاد کرتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہتے:صَبْرًا يَا ‌آلَ ‌يَاسِرٍ، فَإِنَّ مَوْعِدَكُمُ ‌الْجَنَّةُ(مستدرک الحاکم، حدیث نمبر 5646)۔ یعنی، آل یا سر صبر کرو، تمہارے لیے جنت کاوعدہ ہے ۔

عمار بن یاسر کی ماں سمیہ کو خود اسی طرح عذاب دے کر انہوں نے ما رڈالا ۔ مگر وہ کسی حال میں اسلام کو چھوڑنے پر راضی نہ ہوئیں (فَأَمَّا أُمُّهُ فَقَتَلُوهَا، وَهِيَ تَأْبَى إلَّا الْإِسْلَامَ)سیرت ابن ہشام، جلد 1، صفحہ 279 ۔

حقیقت یہ ہے کہ مدینہ اور عموریہ کے واقعہ کو اس وقت تک سمجھا نہیں جاسکتا جب تک مکہ کے مذکورہ واقعہ کو اس سے ملا کر نہ دیکھا جائے ۔ کیا وجہ ہے کہ مدینہ میں جس قسم کے واقعہ پر اقدام کیا گیا ، مکہ میں اسی قسم کے شدید تر واقعہ پر کوئی اقدام نہیں کیا گیا ۔ اس کا سبب یہ تھا کہ مکہ کا زمانہ تیاری اور استحکام کا زمانہ تھا ۔ تیاری اور استحکام کے زمانہ میں اقدام غیر موثر ہوتا ۔ اس لیے مکہ میں صبر کیا گیا ۔ صبر دراصل تیاری اور استحکام کی قیمت ہے ۔ جو لوگ ابتدائی مرحلہ میں صبر نہ کریں، وہ بعد کے مرحلہ میں تیاری اور استحکام کے درجہ کو بھی نہیں پہنچ سکتے ۔

’’مکہ ‘‘میں ناقابل برداشت صبرکیا جاتا ہے ، اسی وقت یہ ممکن ہوتا ہے کہ ’’مدینہ ‘‘میں ناقابل برداشت کو برداشت کرنے کی حاجت نہ رہے ۔ جو لوگ مرحلۂ تیاری میں صبر اورقربانی کا ثبوت نہ دے سکیں، وہ مرحلۂ استحکام کی منزل کو بھی نہیں پہنچ سکتے ۔

یہی موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا اصل مسئلہ ہے ۔ صدیوں کے عمل کے نتیجہ میں مسلمان دوبارہ اپنی تاریخ کے آغاز میں پہنچ گئےتھے ۔ اب ضرورت تھی کہ دوبارہ ان کے درمیان تیاری کا وہی عمل جاری کیا جائے جو مکہ میں جاری کیا گیا تھا ۔ مگر موجودہ زمانہ کے مسلم رہنما اس راز کو سمجھ نہ سکے ۔ انہوں نے اپنے آپ کو تاریخ کے اختتام والے مرحلہ میں فرض کر کے عملی اقدامات شروع کر دیے ۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ ضروری تیاری کے بغیر اقدام پیغمبر اور اصحاب پیغمبر کے لیے بھی مفید نہ ہو سکتا تھا (3:152) ، پھر وہ موجودہ مسلمانوں کے لیے کیوں کر مفید ہوجاتے ۔ یہی وجہ ہے جس نے ان کے عملی اقدامات کو بے فائدہ اور غیر موثر بنا دیا ۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom