اجتہاد کیا ہے

 اجتہاد زندگی کی ایک ضرورت ہے۔ اس کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا، وہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اجتہاد کے لفظ کو شرعی اجتہاد کے معنی میں لینا، اس کو محدود بنانا ہے۔ اجتہاد عملی اعتبار سے اس سے زیادہ وسیع مفہوم رکھتاہے، جو فقہاء کے یہاں مروج ہے۔ اجتہاد علمی اعتبار سے تخلیقی طرز فکر(creative thinking) کا دوسرا نام ہے۔

اجتہاد کے لفظ کو محدود شرعی معنی میں لینے کا نتیجہ یہ ہوا کہ اجتہاد ایک مقدس چیز بن گیا، اور لوگوں کے لیے جائز نہ رہا کہ وہ آزادانہ طور پر اجتہادی طرز فکر کو اختیارکریں۔ حالاں کہ علمی اعتبار سے یہ درست نہ تھا۔اجتہاد کی یہ شرط بھی نہیں ہے کہ کسی کے پاس افتاء کی ڈگری موجود ہو۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے:اسْتَفْتِ قَلْبَكَ، وَاسْتَفْتِ نَفْسَك(مسند احمد، حدیث نمبر 18006)۔ یعنی اپنے دل سے فتویٰ پوچھو، اپنے ضمیر سے فتویٰ پوچھو۔ یہاں دل اور ضمیرکامن سنس کے معنی میں ہے، کسی پراسرار معنی میں نہیں۔یہ اجتہادی طرز فکر کی بات ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اجتہاد دراصل تطبیقِ نو (reapplication) کانام ہے۔ اجتہاد چھوٹے معاملے میں بھی ہوتا ہے، اور بڑے معاملے میں بھی۔ اجتہاد انفرادی معاملے میں بھی ہوتا ہے، اور قومی معاملے میں بھی۔ اجتہاد مذہبی معاملے میں بھی ہوتا ہے، اور سیکولر معاملے میں بھی۔ اجتہاد کی شرط صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ آدمی کی نیت درست ہو، یعنی وہ دینِ خداوندی پر عمل کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔

 اجتہاد کے لفظی معنی ہیں بہت زیادہ کوشش کرنا۔ عملاً اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شرعی حکم جو بظاہر اپنی ابتدائی صورت میں قابل عمل نہ رہے، اس کو دوبارہ قابلِ عمل بنانے کی کوشش کرنا۔ چنانچہ اجتہاد کی ایک تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے: بَذْلُ الْوُسْعِ لِنِيلِ حُكْمٍ شَرْعِيٍّ بِطَرِيقِ الِاسْتِنْبَاطِ (ادب المفتي والمستفتي لابن الصلاح، صفحہ 25)۔ یعنی کسی مسئلہ کے حل كے ليے شرعی حکم کو بذریعہ استنباط (inference) معلوم کرنے کی علمی اور فکری کوشش کرنا۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ بدلے ہوئے حالات میںشرعی حکم کی تطبیق نو (reapplication) تلاش کرنا۔

مثلاً مسلمان موجودہ زمانے میں خلافت یا اسلامی حکومت قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں، مگر ان کا یہ مقصد قربانیوں کے باوجود پورا نہ ہوسکا۔ اب اجتہاد یہ ہے کہ مسلمان یہ دریافت کریں کہ قدیم طرز کی خلافت کا قیام اب سرے سے ممکن ہی نہیں رہا۔ اب وہ زمانہ آگیا ہے کہ خلافت کے ماڈل کو چھوڑ کر دوسرے قابل عمل ماڈل کو دریافت کرنا، اور اس کے مطابق ملت کی عمارت تعمیر کرنا۔

اسی طرح قرآن میں ایک تاریخی حقیقت کا بیان ان الفاظ میں آیا ہے: يَا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ وَلَا تَرْتَدُّوا عَلَى أَدْبَارِكُمْ فَتَنْقَلِبُوا خَاسِرِينَ (5:21)۔ اے میری قوم، اس پاک زمین میں داخل ہوجاؤ جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دی ہے۔ اور اپنی پیٹھ کی طرف نہ لوٹو ورنہ نقصان میں پڑجاؤ گے۔

کچھ لوگ اس آیت کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کے ساتھ خاص مانتے ہیں۔ یہ بلاشبہ ایک جذباتی اجتہاد ہے۔ کیوں کہ آیت کے الفاظ عام ہیں تو خاص کرنے کی دلیل اس سے نہیں نکلتی۔قرآن کی اس آیت کے بارے میں موجودہ دور کے علما صحیح اجتہادی اسپرٹ سےتقریباً محروم ہوگئے ہیں۔ ان میں سے کچھ علما اس حد تک گئے ہیں کہ انھوں نے فلسطین کے معاملے میں خودکش حملے کو جائز قرار دیا ہے۔ یہ صرف انتہا پسندی نہیں ہے، بلکہ وہ حرام کو حلال قرار دینے کے ہم معنی ہے، اور یہ غلطی اس لیے ہوئی کہ علماء نے اسرائیل کے مسئلے کو ایک مستثنیٰ مسئلہ قرار دے دیا۔

اصل یہ ہے کہ موجودہ دور کے علماء صحیح اجتہادی اسپرٹ سےتقریباً محروم ہوگئے ہیں۔ وہ اجتہاد کو ایک قسم کی فکری بے راہ روی سمجھتے ہیں۔ حالاں کہ حدیث میںاجتہاد کی اس قدر حوصلہ افزائی کی گئی ہے کہ اگر آدمی سے اجتہاد کرنے میں غلطی ہوجائے، تو اس پر بھی ثواب کی خوش خبری دی گئی ہے (مسند احمد، حدیث نمبر 17774؛صحیح البخاری، حدیث نمبر 7352)۔ چنانچہ اس ڈر سے اجتہاد نہ کرنا کہ کہیں مجھ سے غلطی نہ ہو جائے، یہ ایک بے بنیاد وسوسہ ہے، نہ کہ صحیح اسلامی اسپرٹ۔ حقیقت یہ ہے کہ ملت کے مستقبل کی تعمیر ممکن کی بنیاد پر ہوسکتی ہے، ناممکن کی بنیاد پر نہیں۔اور زمانی اعتبار سے ناممکن اور ممکن کے درمیان کا فرق صرف اجتہاد کے ذریعے معلوم ہوسکتا ہے۔کسی ڈکشنری کو کنسلٹ کرنے سے اس کا جواب ملنے والا نهيں۔ 

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom