ڈائری 1986

16اپریل1986

آج ابو بکر نجار(جنوبی افریقہ) ملنے کے لیے آئے۔ان کا پورا پتہ یہ ہے۔

Shaikh Aboubaker Najaar

President, Islamic Council of South Africa, 12, Elwyn Road, Craw ford, Cape,

P.O. Box 200, Athlone 7760, SA

جناب ابو بکر نجار صاحب نے بتایا کہ جنوبی افریقہ کی کل آبادی 30 ملین ہے۔اس میں نصف ملين مسلمان ہیں۔ مسلمانوں نے وہاں کے قادیانی فرقہ کے خلاف مقامی عدالت میں مقدمہ کیا تاکہ قادیانیوں کو اپنی مساجد اور دینی مقامات میں آنے سے روک دیں۔مگر عدالت نے خلاف فیصلہ دیا اور اب قادیانی پہلے کے مقابلہ میں زیادہ دلیری سے مسلمانوں کے مذہبی مقامات میں آنے لگے ہیں۔اس طرح مسلمانوں کا مسئلہ اور زیادہ بڑھ گیا ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا وہاں کی عدالت میں تعصب ہے؟ انہوں نے کہا کہ بالکل نہیں۔اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ مسلمان اپنے کیس کی مضبوط وکالت نہ کرسکے۔ چنانچہ اب وہاں کے مسلمان یہ چاہتے ہیں کہ وہ مسلم ملکوں سے چندہ وصول کرکے دوبارہ سپریم کورٹ میں اس عدالتی فیصلہ کو چیلنج کریں۔

گفتگو کے دوران میں نے ابو بکر نجار صاحب سے پوچھا کہ کیا ساؤتھ افریقہ میں غیر مسلموں کے درمیان کچھ تبلیغی کام ہو رہا ہے۔انہوں نے کہا نہیں۔

‘‘Tabligh work among non-Muslims is virtually non-existent.’’

مزید سوالات کے دوران انہوں نے بتایا کہ غیر مسلموں میں تبلیغی کام نہ ہونے کے باوجود لوگ اسلام قبول کر رہے ہیں۔خاص طور پر بلیک کمیونٹی میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد کافی ہے۔

یہی صورت حال تقریباً ساری دنیا میں ہے۔خالص کمیونسٹ ملکوں کو چھوڑ کر ہر جگہ یہ صورت حال ہے کہ مسلمان تبلیغی کام تو بالکل نہیں کرتے۔مگر اس کے باوجود ہر ملک میں روزانہ لوگ کثرت سے اسلام قبول کر رہے ہیں۔

ایک طرف مسلمانوں کی وہ سرگرمیاں ہیں ، جن کا مطلق کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا ہے۔دوسری طرف دعوت کے میدان میں اسلام ہر روز اپنی قوت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔مگر مسلمانوں کے لیے اس میں کوئی سبق نہیں۔

17اپریل 1986

ایسٹ برلن(جرمنی) کے ایک کلب میں دھماکہ ہوا جس میں کچھ امریکی باشندے ہلاک ہو گئے۔ صدر امریکہ مسٹر ریگن نے اعلان کیا ہے کہ یہ لیبیا کے صدر معمر قذافی کی دہشت پسندانہ اسکیم کے تحت ہوا ہے۔ چنانچہ انہوں نے انتقامی کارروائی کے لیے اپنی فوجوں کو حکم دے دیا ۔اپریل 1986 میں امریکی جہاز لیبیا کی فضا میں پہنچے اور طرابلس (باب العزیزیہ) پر بمباری کی۔یہ وہ مقام ہے جہاں معمر قذافی کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ اس واقعہ پر ساری دنیا میں شدید رد عمل ہوا۔نئی دہلی کے اخبار ایڈین اکسپریس(17اپریل 1986) کے اداریہ کا عنوان یہ تھا:

Shameful Aggression

(شرمناک جارحیت) ۔اس اداریہ کا آغاز ان الفاظ میں کیا گیا تھا:

‘‘Shock, anger, disgust and alarm. These words sum up the reaction of much of the world to the naked and unprovoked attack the United State launched on Libya.’’

ہزار سال پہلے اس قسم کا واقعہ سیاسی دنیا میں معمول کا ایک واقعہ تھا۔اس وقت اس قسم کے واقعہ پر نہ کوئی رد عمل ظاہر کیا جاتا تھا اور نہ آج کل کی طرح پریس کے ذرائع تھے کہ منٹوں میں اس کی خبر ساری دنیا میں پھیل جائے اور لوگوں کے بیانات چھپ کر ہر جگہ پہنچ جائیں۔

یہ زمانہ کا فرق ہے۔ اس فرق نے موجودہ زمانہ میں اسلام کی دعوت کے لیے ایسا نیا امکان کھول دیا ہے جو اس سے پہلے کبھی دنیا میں موجود نہ تھا۔مسلمان اگر اشتعال انگیزی سے بچیں تو وہ جارحیت کے اندیشے کے بغیر ساری دنیا میں اسلام کی دعوت پھیلا سکتے ہیں۔ (2004 میں رونالڈ ریگن کا اور 2011میں کرنل معمر قذافی کاانتقال ہوچکاہے)۔

18 اپریل 1986

لیبیا پر امریکہ کا حملہ آج کل اخبارات کے صفحہ اول کی خبر بنا ہوا ہے۔نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا(18 اپریل 1986) کے صفحہ اول کی پہلی خبر کی سرخی یہ تھی:

‘‘Soviet warship takes up position in the Gulf of Sidra.’’

سویت روس کے سمندری جنگی جہازوں نے خلیج سدرہ میں پوزیشن لے لی۔

یہ خبر بتاتی ہے کہ موجودہ زمانہ میں مسلم ممالک کسی کی حمایت کے بل پر زندہ ہیں۔آج ان کی اپنی ذاتی کوئی قوت نہیں۔وہ صرف اس لیے زندہ ہیں کہ مغرب کی بڑی طاقتیں اپنی قوت کے ذریعہ ان کی سرپرستی کرتی ہیں۔لیبیا کا سرپرست روس ہے، سعودی عرب کا سرپرست امریکہ۔اور اسی طرح دوسرے مسلم ممالک۔

قرآن مجید میں یہود کے بارے میں آیا ہے کہ انہیں کبھی مستقل قوت حاصل نہ ہوگی۔وہ یا تو اللہ کی رسی کے ساتھ رہیں گے یا لوگوں کی رسی کے ساتھ (3:112)۔’’اللہ کی رسی‘‘ سے مراد یہاں اسلامی حکومت ہے اور ’’لوگوں کی رسی‘‘ سے مراد غیر مسلم اقوام کی حکومت۔

یہود کے بارے میں یہ قرآنی پیشین گوئی مسلسل صحیح ثابت ہو رہی ہے۔موجودہ زمانہ میں ان کی حکومت(اسرائیل)امریکہ کی سرپرستی کے بل پر زندہ ہے۔مگر مسلمانوں کا حال بھی موجودہ زمانہ میں اس سے مختلف نہیں۔موجودہ زمانہ کے مسلم ممالک اپنی کوئی ذاتی قوت نہیں رکھتے۔وہ سب کسی نہ کسی غیر مسلم بڑی طاقت کی حمایت کے تحت زندہ ہیں۔کوئی ملک روس کی حمایت کے تحت زندہ ہے اور کوئی امریکہ کی حمایت کے تحت۔

19اپریل 1986

ایک صاحب جماعت اسلامی کے پرانے رکن ہیں۔وہ جماعت کی مجلس نمائندگان کے ممبر ہیں، وغیرہ۔وہ مجلس نمائندگان کے اجتماع کے تحت دہلی آئے تھے۔اس درمیان وہ مجھ سے بھی ملنے کے لیے آئے۔ان سے گفتگو کے دوران ہندستان کےایک معروف عالم دین کا ذکر آیا۔میں نےمذکورہ عالم دین کی بعض باتوں کی تعریف کی۔انہوں نے اپنا تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے اندر قیادت کی مطلق صلاحیت نہیں۔ وہ زمانہ کو نہیں پہچانتے اور جس آدمی کے اندر زمانہ کی پہچان نہ ہو تو وہ کبھی قائد نہیں بن سکتا۔

میں نے پوچھا کہ زمانہ کی پہچان سے آپ کی کیا مراد ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کل یوپی میں اور دوسرے مقامات پر بابری مسجد (اجودھیا) کا مسئلہ چھڑا ہوا ہے۔ تمام مسلمان اس مسئلہ پر سخت مشتعل ہیں۔ مگر مذکورہ عالم دین کا حال یہ ہے کہ وہ اس معاملہ میں کچھ بولتے نہیں۔کئی اجتماعات میں ان سے بابری مسجد کے بارے میں سوال کیا گیا مگر وہ خاموش رہے۔انھوںنے مزید کہا کہ اس وقت جو شخص بابری مسجد کا مسئلہ لے کر اٹھے گا وہ مسلمانوں کا قائد بن جائے گا۔

میں نے سوچا کہ زمانہ کی پہچان کے بارے میں لوگوں کا نظریہ کتنا ناقص ہے۔ یہ بات بجائے خود صحیح ہے کہ قائد کو زمانہ کی پہچان ہونی چاہیے۔مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بابری مسجد جیسے مسائل کو لے کر دھواں دار تقریریں کرنے لگے۔

زمانہ کو پہچاننے سے مراد یہ ہے کہ ان قوتوں کو پہچانا جائےجنہوں نے زمانہ میں فیصلہ کن حیثیت حاصل کی ہے۔جذباتی ابال اور چیز ہے اور زمانی حقیقتیں بالکل دوسری چیز۔قائد کے لیے بلاشبہ ضروری ہے کہ وہ زمانی حقیقتوں کو جانے، اس کے بغیر وہ اپنی قوم کی صحیح رہنمائی نہیں کر سکتا۔

20اپریل 1986

ہندستان کے موجودہ حکمراں نہایت پرجوش طور پر ہندستان کو کمپیوٹرایج میں داخل کر رہے ہیں۔ شاید ان کا خیال ہے کہ صرف اس کام سے ان کا ملک کمپیوٹرایج میں داخل ہو جائے گا کہ مغربی ملکوں سے کمپیوٹر منگائے جائیں اور ان کو ملک کے ہر بڑے دفتر میں نصب کر دیا جائے۔حالانکہ یہ مغالطہ کے سوا کچھ نہیں۔ٹائمس آف انڈیا (19 اپریل 1986) میں مسٹر ایس ایس گل نے اس ذہنیت پر تبصرہ کرتے ہوئے نہایت صحیح طور پر لکھا ہے:

‘‘Modern management techniques and computerized office equipments are only aids to efficient management. They are no substitutes for systems or structures.’’

جدید انتظامی طریقے اور دفتری کمپیوٹر صرف مستعد انتظامیہ کے لیے مددگار ہیں، وہ نظام یا ڈھانچہ کا بدل نہیں۔ انہوں نے اپنے مفصل آرٹیکل میں دکھایا ہے کہ موجودہ حالت میں ہندستان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ دفتروں میں کام کرنے والے کام نہیں کرتے۔سرکاری دفاتر میں ڈیوٹی کے احساس کی آخری حد تک کمی ہے۔ایسی حالت میں کمپیوٹر لگانے کا کیا فائدہ ہوگا ، جب کہ کمپیوٹر کو استعمال کرنے والے ہاتھ اپنے حصہ کا کام ذمہ دارانہ طور پر نہ کریں۔انہوں نے دلچسپ طور پر یہ جملہ لکھا ہے:

‘‘A racing car, pulled by bullocks, will not move faster than a bullock cart.’’

ایک تیز رفتار کار جس کو بیل کھینچ رہے ہوں، وہ بیل گاڑی سے زیادہ تیز نہیں چل سکتی۔

یہی تبصرہ مختلف صورتوں میں خود اسلامی ممالک پر بھی چسپاں ہوتا ہے۔ مثلاً افراد کی ضروری تربیت کے بغیر ملک میں شرعی قانون کو لاگو کرنا، وغیرہ۔

22 اپریل 1986

پاکستان جن نعروں سے بنا ان میں سب سے اہم نعرہ یہ تھا:

پاکستان کا مطلب کیا— لا الہ الا اللہ

یہ مسلم لیگ کا نعرہ تھا۔ اس کے بعد جب پاکستان بن گیا تو کچھ دینی جماعتوں اور دینی قائدین نے یہ کہنا شروع کیا کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے۔اس لیے یہاں اسلامی قانون کی حکومت ہونی چاہیے۔ایک دینی رہنما نے مزید یہ دعویٰ کیا کہ پاکستا ن کی عظیم اکثریت اسلام چاہتی ہے۔صرف تھوڑے لوگ ہیں جو اتفاقاً حکومت پر قابض ہو گئے ہیں وہی غیر اسلام چاہتے ہیں۔

مگرپاکستان میں سیکولر پارٹیوں کا غلبہ ثابت کرتا ہے کہ معاملہ ایسا نہیں ہے۔ مثلاً 1اپریل 1986 میں بے نظیر بھٹو لندن سے لاہور پہنچی تو لاہور کے لوگ ان کے استقبال کے لیے امنڈ پڑے۔سڑکوں پر یہ نعرہ لگ رہا تھا:

 پاکستان کی تقدیر— بے نظیر بے نظیر

(ٹائمس آف انڈیا،20 اپریل 1986)۔بے نظیر بھٹو اوران کی پارٹی کا نظریہ واضح طور پر غیرمذہبی ہے۔آج بے نظیر بھٹو کو پاکستان میں اتنی مقبولیت حاصل ہے کہ جماعت اسلامی جیسی دینی جماعتیں الیکشن کے میدان میں ان کا مقابلہ نہیں کر سکتیں، یہاں تک کہ جنرل ضیاء الحق بھی نہیں۔

اسی طرح سیاست کے علاوہ دوسرے میدانوں میں بھی غیر دینی عناصر، خواہ وہ مثبت ہو یا منفی، کا غلبہ ثابت کرتا ہے کہ واقعہ وہ نہیں ہے، جیسا کہ وہاں کے کچھ دینی رہنما دعویٰ کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس چیز کے نتیجہ میں پاکستان وجود میں آیا ہے، وہ اسلام کے نام پر غیر حکیمانہ سیاست چلانے کا سب سے بڑا مظاہرہ تھا۔ ایسی سیاست کا انجام وہی ہو سکتا تھا جوہوا۔

23 اپریل 1986

ایک نوجوان ملنے کے لیے آئے، جن کا نام و پتہ یہ ہے:

Suhrab Alam

Aftab Book Depot, Sabzi Bagh, Patna-4

انہوں نے بتایا کہ میری زندگی اس سے پہلے بہت زیادہ غلط تھی۔ لوگ مجھ سے نفرت کرتے تھے۔اس کے بعد مجھے آپ کی کتاب ’’انسان اپنے آپ کو پہچان‘‘ ملی۔ اس کو پڑھ کر میری زندگی بالکل بدل گئی۔اس کے بعد میں نے آپ کی ساری کتابیں پڑھ ڈالیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’پیغمبر انقلاب‘‘ میں آپ نے جو منتخب حدیثیں لکھی ہیں ان کو میں نے پڑھا۔مجھے ایسا لگا جیسے میں بالکل نئی حدیثیں پڑھ رہا ہوں،ایسی حدیثیں جن کو میں نے کبھی پڑھا نہیں تھا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام کی کہانی ابھی تک اَن کہی کہانی (untold story) بنی ہوئی ہے۔ 21 اپریل 1986ءکو بھوپال میں میری ایک تقریر تھی، جس میں کثرت سے ہندو صاحبان موجود تھے۔ اس موقع پر میں نے کہا کہ 1962ء کی ہند- چین جنگ کے بعد حکومت کی طرف سے بہت سے بیانات اور دستاویزیں شائع ہوئے۔ اس کے بعد ہندستانی فوج کے ریٹائرڈ لفٹننٹ جنرل مسٹر برج موہن کول (وفات 1972ء)نے اعلان کیا کہ ہند - چین کی کہانی کا اصل باب ابھی غیر بیان شدہ پڑا ہوا ہے۔چنانچہ انہوں نے ایک کتاب لکھی جس کا نام ہے— اَن کہی کہانی:

‘‘The Untold Story, Allied Publishers, 1967’’

میں نے اپنی تقریر میں کہا کہ میں بھی آج آپ کو اسلام کی Untold Story سنانا چاہتا ہوں۔ اس کے بعد میں نے وہ حدیثیں سنائیں جن کا تعلق توحید، اخلاق،عدل،مساوات انسانی اور دوسرے امورِ خیر سے ہے۔ہندو مسلم دونوں بہت متاثر ہوئے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے مقامی صدر مسٹر سارنگ نے تقریر کےبعد کھڑے ہو کر کہا کہ یہ تو وہ اسلام ہے جو ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کو اختیار کر لینا چاہیے۔

ایک صاحب نے یہ تجویز پیش کی کہ اسلام کے تعارف پر اسی انداز پر ایک کتاب تیار کی جائے اور اس کا نام Untold Story ہو۔

24 اپریل 1986

امریکہ کے لیے لیبیا کے معمر قذافی کی ’’دہشت پسندی‘‘ پریشانی کا سبب بنی ہوئی تھی۔امریکہ کے صدر ریگن نے اس کے خلاف باربار وارننگ دی اور پھر اپریل1986 میں طرابلس پر حملہ کر دیا۔اس حملہ میں معمرقذافی کی رہائش گاہ کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ہوائی بمباری سے کافی نقصان ہوا۔تاہم معمر قذافی بچنے میں کامیاب ہو گئے۔

اس کے فوراً بعد معمر قذافی ساری دنیا کے اخبارات میں صفحہ اول پر چھپ رہے تھے۔ملک کے اندر اور ملک کے باہر ان کی امیج کافی بڑھ گئی۔امریکہ اپنے مقصد میں ناکام رہا اور معمر قذافی اپنے مقصد میں کامیاب۔امریکہ کے سابق صدر جمی کارٹر (پیدائش 1942ء) نے لیبیا پر امریکی بمباری کو ایک غلطی (mistake) قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ:

‘‘Col. Gaddafi was an outcaste. Now he is a hero.’’ (Times of India, 20 April 1986)

یہ ایک مثال ہےجس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی کے خلاف عملی اقدام ایک بے حد نازک معاملہ ہے۔اس کو حد درجہ سوچے سمجھے فیصلہ کے تحت ہونا چاہیے۔اگر ناقص اندازہ کی بنیاد پر اقدام کیا گیا تو وہ کاؤنٹر پروڈکٹیو(counter-productive) ثابت ہوگا۔یعنی اس کا نتیجہ اس کے برعکس نکلے گا جو اقدام کرنے والے نے بطور خود اپنے ذہن میں فرض کر لیا تھا۔خواہ اقدام کرنے والا امریکہ جیسا طاقتور ملک ہی کیوں نہ ہو اور جس کے خلاف اقدام کیا گیا ہے وہ لیبیا جیسا کمزور ملک۔

25 اپریل 1986

پاکستان کے ایک اخبار میں ایک کتاب ’’قادیانیوں سے خطاب‘‘ کا اشتہار نظر سے گزرا۔ اس اشتہار کے الفاظ یہ ہیں:

’’انسداد قادیانیت آرڈننس کے بعد قادیانی اب پاکستان میں غیر مسلم اقلیت قرار دیے جا چکے ہیں تو اب پاکستانی مسلمانوں پر یہ فرض پہلے سے بھی زیادہ شدت سے عائد ہوتا ہے کہ قادیانیوں کو اسلام کی دعوت دیں۔اور قادیانی دجل کا پردہ چاک کریں۔اسی فرض کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کتاب تیار کی گئی ہے۔اس کو فی الفور منگوا کر اپنے حلقہ کے قادیانیوں میں تقسیم کر کے ایک اہم دینی فریضہ پورا کریں‘‘۔(ہفت روزہ المنبر، فیصل آباد، 15 مارچ 1986)

مسلمان موجودہ زمانہ میں اسلامی دعوت کا نام لیتے ہیں، مگر ان کے اکابر تک اس سے بے خبر ہیں کہ اسلامی دعوت حقیقتاً کیا ہے۔وہ’’ اسلامی دعوت‘‘ کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ ’’ غیر مسلموں کے دجل  یعنی سازش کا پردہ چاک‘‘ کیا جائے۔حالانکہ اس قسم کے معاملہ کا اسلامی دعوت سے کوئی تعلق نہیں۔یہ لفظی کُشتی ہے ،نہ کہ اسلامی دعوت۔

اسلامی دعوت سراسر ایک خیرخواہی کا عمل ہے۔اس کا سرچشمہ داعی کا یہ درد ہے کہ وہ ایک بھٹکے ہوئے انسان کو راہ راست پر لے آئے۔یہ اپنی حیثیت کے اعتبار سے محبت کا عمل ہے، نہ کہ نفرت اور تحقیر کا عمل۔لوگ دعوت اور مناظرہ بازی میں فرق نہیں کرتے،اس لیے وہ ایسے الفاظ بولتے ہیں، جس کا ایک نمونہ اوپر کے اقتباس میں نظر آتا ہے۔

26 اپریل 1986

مولانا کبیر الدین فاران(ہماچل پردیش) سے ملاقات ہوئی۔ وہ ذہین آدمی ہیں۔گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ میرے اندر تنقیدی مزاج ہے۔ مجھے کسی رائے سے اختلاف ہوتا ہے تو میں فوراً اس کا اظہار کر دیتا ہوں۔

میں نے کہا کہ یہ مزاج بذات خود صحیح مزاج ہے۔ مگر مسلمان عام طور پر’’ اختلافِ رائے‘‘ اور ’’ اختلافِ امر‘‘ میں فرق نہیں کرتے۔اختلافِ رائے یعنی سوچ کا فرق اوراختلافِ امر یعنی عملی مخالفت۔ میرے نزدیک اختلافِ رائے ایک جائز عمل ہے ، مگر اختلافِ امر بالکل ناجائز ہے۔ اختلافِ رائے اور اختلافِ امر میں فرق کی مثالیںاصحابِ رسول کے یہاں بھی موجود ہیں۔ حضرت عثمان کے زمانے میں صحابیِ رسول ابو ذر رضی اللہ عنہ حج کے لیے گئے ۔ وہاں ان کومعلوم ہوا کہ خلیفہ ثالث عثمان رضی اللہ عنہ نے یہاں چار رکعتیں پڑھی ہے ۔ ابو ذر رضی اللہ عنہ نے سخت الفاظ میں اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور کہا : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ چکا ہوں۔ آپ نے صرف دو رکعت نماز پڑھی۔ پھر ابو بکر وعمر کے ساتھ بھی میں نے دو رکعت نماز پڑھی ۔ اس کے بعد ابوذر رضی اللہ عنہ اٹھے اور چار رکعت نماز ادا کی ۔ لوگوں نے کہا : آپ نے امیر المومنین پر چاررکعت کے لیے اعتراض کیا اور خود وہی کر رہے ہیں ۔ انھوں نے جواب دیا : الْخِلَافُ أَشَدُّ (مسنداحمد، حدیث نمبر21460)۔یعنی،عملی مخالفت اس سے بھی زیادہ سنگین ہے ۔ 

اسی قسم کا واقعہ مشہور صحابیِ رسول عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بھی ہے۔ انھوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کے منیٰ میں چار رکعت پڑھنے پر بہت ہی سخت الفاظ میں ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور پھر خود چار رکعت پڑھی ۔ جب پوچھا گیا تو فرمایا : اختلاف کرنا برا ہے (الْخِلاَفُ شَرٌّ)سنن ابو داؤد، حدیث نمبر1962 ۔اس کے برعکس، مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ جب انہیں رائے کے معاملہ میں اختلاف ہو جائے تو وہ سمجھ لیتے ہیں کہ امر اور نظم (system)سے اختلاف کرنا بھی ان کے لیے درست ہے۔اسی کمزوری کی وجہ سے مسلمانوں سے کوئی متحدہ کام نہیں ہو پاتا۔

حدیث ’’اخْتِلافُ ‌أُمَّتِي ‌رَحْمَة‘‘(المقاصد الحسنۃ للسخاوی، حدیث نمبر 39) کا مطلب بھی یہی ہے۔یعنی میری امت کا اختلاف رحمت ہے۔اس حدیث میں اختلافی رائے کے اظہار کو رحمت کہا گیا ہے، نہ کہ عملی اختلاف و انتشار کو۔افراد کو ہر کام میں اجتماعی نظم کا پابند رہنا چاہیے۔البتہ اختلافِ رائے كو مثبت طريقے سے ظاهر كرنے کے معاملہ میں ان پر کوئی پابندی نہیں۔ انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے وہ کسی بھی شخص سے رائے کے معاملہ میں اختلاف کر سکتے ہیں خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا۔

27 اپریل 1986

مولانا حکیم بشیر حسن انصاری (محبوب نگر) مرکز میں تشریف لائے۔گفتگو کے دوران انہوں نے ایک لطیفہ بیان کیا۔

کہا جاتا ہے کہ ایک نواب صاحب تھے، جن کا نام عبید تھا۔ایک روز نواب عبید اپنی شان وشوکت کے ساتھ نکلے۔ ان کے جلوس میں ان کے خادم بھی زرق برق گھوڑوں پر سوار ہو کر چل رہے تھے۔خادموں کا حلیہ بتا رہا تھا کہ نواب نے اپنے خادموں پر بڑی عنایات کی ہیں۔ایک غریب شخص نے اس منظر کو دیکھا تو اپنے اور ان خادموں کے فرق کو دیکھ کر وہ بہت متاثر ہوا۔ وہ خدا سے کہہ اٹھا:

مولا شدن از عبید بیا موز

یعنی عبید نے اپنے خادموں کو کس طرح نوا زرکھا ہے۔اور آپ میرے مولا ہیں اور میں آپ کا خادم ہوں۔مگر میں آپ کی نوازش سے محروم ہوں،’’مولابننا آپ عبید سے سیکھیے‘‘۔

کچھ عرصہ بعد ایسا ہوا کہ نواب عبید اپنے خادموں سے کسی بات پر ناراض ہو گئے۔ اور حکم دے دیا کہ ان کو کوڑے مارے جائیں۔ مذکورہ غریب شخص دوبارہ ادھر سے گزرا۔ اس نے دیکھا کہ خادموں پر کوڑے پڑ رہے ہیں۔ مگر وہ سب ’’عبید، عبید‘‘ پکار رہے ہیں۔وہ جس سے مار کھا رہے ہیں ، اس سے فریاد بھی کر رہے ہیں۔اس وقت غیب سے آواز آئی:

بندہ شدن از بندگان عبید بیاموز

(بندہ ہونے کو عبید کے بندوں سے سیکھو)۔ یعنی تم خدا کا بندہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہو اور جب خدا کی طرف سے معمولی تکلیف پہنچی تو شکایت کرنے لگے۔عبید کے بندے اس سے بڑی تکلیف اٹھا رہے ہیں، پھر بھی وہ شکایت کے بجائے اسی کو پکار رہے ہیں۔وہ اسی کی طرف اپنی توجہ لگائے ہوئے ہیں۔

یہ اگرچہ ایک لطیفہ ہے، مگر اس میں منصوبۂ تخلیق کا ایک بڑا سبق چھپا ہوا ہے۔

28 اپریل 1986

ٹائمس آف انڈیا (28 اپریل 1986) صفحہ 8 پر ایک خبر حسب ذیل سرخی کے ساتھ چھپی ہے:

‘‘USSR had alerted Libya against the raid.’’

یہ خبر جس کی ڈیٹ لائن قاہرہ کی ہے، اس میں بتایا گیا ہے کہ واشنگٹن نے لیبیا پر اپنے حملہ (15اپریل 1986) سے ایک گھنٹہ پہلے سوویت یونین کو با خبر کر دیا تھا۔ سوویت یونین نے فوراً اس کی اطلاع کرنل قذافی کو کر دی۔یہی پیشگی اطلاع تھی جس کی بنا پر امریکہ کا حملہ ناکام ہو گیا۔

خبر میں امریکی حملہ کو’’Biggest American Mistake‘‘ کہا گیا ہے۔پیشگی اطلاع پا کر کرنل قذافی نے فوراً دو اقدامات کیے۔ انہوں نے اپنے جنگی جہازوں کو پڑوسی ملک سوڈان میں بھیج دیا۔ اور خود اپنی رہائش گاہ عزیزیہ کیمپ سے منتقل ہو کر دوسری جگہ چلے گئے۔ اس طرح کرنل قذافی خود بھی حملہ سے محفوظ رہے اور ان کے روسی ساخت کے جنگی جہاز بھی۔

یہ انکشاف مسٹر صلاح منتصر نے کیا ہے جو اکتوبر میگزین (قاہرہ)کے ایڈیٹر ہیں۔یہ خبر اگر صحیح ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کو اس کی ترقیوں نے ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی (over confidence) میں مبتلا کر دیا ہے۔اور ضرورت سےزیادہ خود اعتمادی ہمیشہ آدمی کے لیے الٹی پڑتی ہے۔ خواہ وہ امریکہ جیسی سپر پاور کیوں نہ ہو۔

29اپریل 1986

موجودہ زمانہ میں مسلم لیڈروں نے مسلمانوں کو صرف ایک ہی بات بتائی ہے۔ اور وہ ہے—  اپنے مسائل کے لیے دوسروں سے لڑنا۔ جو مسئلہ اپنی کمزوری کی وجہ سے پیدا ہو اس کو دوسروں کے اوپر ڈالنا۔ شاہ بانو بیگم کاکیس(1985ء) کے سلسلے میں تمام مسلم لیڈروں نے متحدہ طور پر سپریم کورٹ اور حکومت کے خلاف پر شور مہم چلائی۔یہ میرے نزدیک قوم کے ساتھ غداری ہے۔کیونکہ اس سے مذکورہ ذہن مزید پختہ ہو جاتا ہے۔

اس کو ایک تقابلی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔نظام الدین ویسٹ (نئی دہلی )میں ہمارے مکان کے سامنے ایک ہندو بیوہ عورت ہے۔وہ گھروں کے دھلے ہوئے کپڑے پریس کرتی ہے۔معلوم ہوا کہ اس کام سے وہ روزانہ 60-70 روپے کما لیتی ہے۔ یعنی تقریباً دو ہزار روپے مہینہ۔اس کے مقابلہ میں شاہ بانو بیگم کو لیجیے۔ وہ سات برس تک مقدمہ لڑتی رہی۔اس کے بعد عدالت نے اس کو 180 روپے ماہوار دیے جانے کا فیصلہ کیا۔ اب غور کیجیے کہ دونوں میں سے کون زیادہ فائدہ میں ہے۔شاہ بانو بیگم کے اندر اگر تعمیری مزاج ہوتا تو وہ کسی مفید کام میں مشغول ہو کر زیادہ نفع حاصل کر سکتی تھی۔مگر اس کو اس کے معاشرے نے صرف لڑائی جھگڑے کا ذہن دیا تھا۔چنانچہ وہ شوہر سے علیحدگی کے بعد اس سے مسلسل لڑتی رہی اور بالآخر اس کے حصے میں نقصان کے سوا اور کچھ نہ آیا۔

حقیقت یہ ہے کہ ہمارا اصل مسئلہ کریمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 125 نہیں ہے۔جس کے خلاف ہمارے تمام اکابر جہاد کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں۔ بلکہ لڑائی بھڑائی کا وہ ذہن ہے جس کے سب سے زیادہ ذمہ دار خود ہمارے یہی لیڈر ہیں۔مسلم لیڈروں کا حال یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر تعمیری مزاج پیدا کرنے کے لیے کچھ نہیں کرتے۔البتہ حکومت کے خلاف مہم چلانے کا کوئی شوشہ انہیں ہاتھ آ جائے تو اس پر خوب جوش دکھاتے ہیں۔ان کی یہی سیاست ہے جس نے مسلمانوں کے اندر اِس سرے سے اُس سرے تک تخریبی مزاج (destructive behaviour)پیدا کر دیاہے۔ مسلمان اس قابل ہی نہیں رہے ہیں کہ وہ مثبتانداز میں سوچیں اور تعمیری انداز میں کچھ کریں۔

30 اپریل 1986

ہندستان میں 20 ہزار اخبارات نکلتے ہیں، جن کی مجموعی اشاعت(circulation) 50 ملین ہے۔یہ تعداد 1952ء کے مقابلہ میں چوگنی زیادہ ہے۔

خالص قانونی اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہے کہ ہندستان کے اخبارات بھی اتنا ہی آزاد ہیں جتنا کہ امریکہ یا جاپان یا مغربی یورپ کے اخبارات۔مگر عملاً یہ بات درست نہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسرے ترقی یافتہ ملکوں کا اخبار نویس اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کی پوزیشن میں ہے۔جب کہ ہندستان کا اخبار نویس اس پوزیشن میں نہیں ۔

دوسرے ترقی یافتہ ملکوں کا اخبار نویس اتنا دولت مند ہوتا ہے کہ اس کو کم از کم چھوٹی موٹی رشوتوں سے خریدا نہیں جا سکتا۔جب کہ ہندستان کا حال یہ ہے کہ رعایتی قیمت پر ایک پلاٹ،کم شرح پر ایک فلیٹ یا یورپ کا ایک تفریحی سفر(pleasure trip)بھی اس کے قلم کو متاثر کرنے کے لیے کافی ہے۔چنانچہ ہندستان کے تاجر اور یہاں کی حکومت دونوں اخبار نویس کو مذکورہ قسم کی رشوتیں دے کر پریس کی قانونی آزادی کو خرید رہے ہیں۔

انڈین اکسپریس(30 اپریل 1986ء) کے ایک آرٹیکل میں بتایا گیا ہے کہ دہلی کے بہت سے انگریزی اخبار نویس بڑے بڑے تاجروں سے باقاعدہ رقمیں پاتے ہیں۔تاکہ وہ ان کے موافق چیزیں لکھیں اور چھاپیں۔

اتر پردیش کی حکومت نے پانچ اخبار نویسوں کو یورپ کے تفریحی سفر پر روانہ کیا۔ ان کو چیف منسٹر کے ریلیف فنڈ اور جنرنلسٹس ویلفیئر فنڈ سے پندرہ ہزار روپے فی اخبار نویس دیے گئے۔ نیز ان کو پستول برآمد کرنے کا لائسنس دیا گیا۔ اس کا واضح مطلب یہ تھا کہ وہ باہر سے پستول خرید کر لائیں اور ہندستان میں اس کو فی پستول پندرہ ہزار روپے نفع کے ساتھ بیچ دیں۔

کسی حق سے فائدہ اٹھانا اسی وقت ممکن ہو تا ہے جب کہ اس کے موافق حالات بھی لوگوں کے لیے موجود ہوں۔

11مئی 1986

آج میں نے سورہ القمر کی تفسیر مکمل کی ہے۔اس سورہ میں یہ آیت چار مرتبہ(آیت نمبر 17, 22, 32, 40) آئی ہے:

وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ

(اور ہم نے قرآن کو نصیحت کے لیے آسان کر دیا تو کیا کوئی ہے نصیحت حاصل کرنے والا)۔

اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کو ایک مشکل پیش آئی ہے۔ اگر اس کا مفہوم ظاہری الفاظ کے لحاظ سے یہ لیا جائے کہ قرآن سے نصیحت حاصل کرنا بالکل آسان ہے تو ایک شخص کو یہ کہنے کا موقع مل جاتا ہے کہ قرآن میں ،معاذ اللہ،گہرے معانی موجود نہیں ہیں، یہ صرف عام لوگوں کی کتاب ہے۔اور اگر یہ مانا جائے کہ قرآن میں گہرے حقائق ہیں جیسا کہ حدیث میں بھی آیا ہے کہ لَا ‌تَنْقَضِي ‌عَجَائِبُه (سنن الترمذی، حدیث نمبر 2906)، یعنی اس کے عجائبات ختم نہیں ہوں گے، تو پھر تفسیر کی معنویت بظاہر مشکل معلوم ہوتی ہے۔جن مفسرین نے اس آیت کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے، ان کی لمبی لمبی عبارتوں کے باوجود متعین طور پر یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس آیت کا مفہوم کیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جن مفسرین نے زیادہ تفصیل کے ساتھ اس آیت کا مفہوم بتانے کی کوشش کی ہے،انہوں نے آیت کو اور زیادہ مشکل بنا دیا ہے۔

اسی الجھن کی بنا پر ایسا ہوا کہ میں نے سورہ القمر کی پوری تفسیر لکھ لی، مگر اس آیت کی تفسیر لکھنے سے رہ گئی۔ آج جب کہ تفسیر کے خاتمہ پر اس آیت کے بارے میں غور کر رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک مضمون کا گويا القا ہوا اور دل نے کہا کہ یہی اصل تفسیر ہے۔’’تذکیر القرآن‘‘ میں یہی تفسیر حسب ذیل الفاظ میں درج ہے:

’’قرآن اگرچہ گہرے معانی کی کتاب ہے۔مگر اس کے انداز بیان میں حد درجہ وضوح (clarity)ہے۔اس وضوح کی بنا پر قرآن کا سمجھنا ہر آدمی کے لیے آسان ہو گیا ہے۔خواہ وہ ایک عام آدمی ہو یا ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ آدمی‘‘۔

تذکیر القرآن کی ترتیب کے سلسلے میں مجھ کو اس طرح کے تجربے بار بار پیش آئے ہیں۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom