ایک سوال
عید الفطر (2019)کی مناسبت سے خطبہ سننے کا موقعہ ملا۔ خطبہ میں مسلمانوں کے بارے میں یہ کہا گیا کہ ان کے خلاف ہندستان میں یہ نعرے لگائے جا رہے ہیں : لَنُخْرِجَنَّكُمْ مِنْ أَرْضِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا(14:13)۔ پھر یہی خطیب صاحب دعوت کی بات بھی کر رہے تھے، دوسرے مقامات سے بھی فون آیا تھا کہ وہاں کے خطیب حضرات بھی یہی بات اسی آیت سے استدلال کررہے تھے۔یہاں میرا سوال یہ ہے کہ دورِ تعذيب کی آیتوں کو اس طرح دور جدید پر منطبق (apply) کرناکہاں تک درست ہے، وضاحت فرمائیں۔( حافظ سید اقبال احمدعمری، عمرآباد، تامل ناڈو)
یہ قرآن کے نام پر مغالطہ (fallacy) پھیلاناہے۔ کیوں کہ ان لوگوں کے پاس ایسا ریفرنس نہیں ہے، جو ثابت شدہ طور پر اس بات کی تائید کرتا ہو۔اس طرح کے معاملے میں برعکس طور پر قرآن یہ پُر امید رہنمائی دیتا ہے: کتنی ہی چھوٹی جماعتیں اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آئی ہیں۔ اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے (2:249)۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ رب العالمین کے بتائے ہوئے اصول کی بنیاد پر اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرنے والی جماعت ضرورغالب آتی ہے، خواہ وہ کتنی ہی کمزور جماعت ہو۔اور اس منصوبہ بندی کی بنیادی شرط صبر ہے۔
جو لوگ حالات حاضرہ پر قرآن کی مذکورہ آیت کو چسپاں کرتے ہیں، ان کے بارے میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ وہ حضرت عائشہ کے اس قول کا مصداق ہیں:أُولَئِكَ قَرَءُوا، وَلَمْ يَقْرَءُوا (مسند احمد، حدیث نمبر 24609)۔یعنی انھوں نے قرآن کی آیت کو پڑھا، لیکن انھوں نے قرآن کے مصداق کو نہیں سمجھا۔ ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ قرآن کا از سر نو مطالعہ کریں۔ ان کو چاہیے کہ وہ دوسروں کو برا بتانے کے بجائے، خود اپنی غلطی کا اعلان کریں۔ اس معاملے میں اصل بات جو جاننے کی ہے، وہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے بر صغیر ہند میں یہ غلطی کی کہ اپنے مدعو کو اپنا حریف بنا لیا۔ یہ بلاشبہ مسلمانوں کی غلطی تھی۔ اب مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں یو ٹرن لیں، اور جن لوگوں کو اپنا حریف بنا رکھا تھا، ان کو اپنا مدعو سمجھ کر مثبت ذہن کے ساتھ اپنے عمل كي منصوبہ بندی کریں۔ اس کے بعد وہ اللہ کی مدد سے بلاشبہ کامیابی حاصل کریں گے۔