جنت کا مسافر
خدا کا مطالبہ یہ ہے کہ بندہ اپنے تمام اثاثہ کو خدا کے حوالے کر دے۔ اس کے معاوضہ میں خدا نے آخرت میں اپنی جنت کا وعدہ کیا ہے (التوبہ، 9:111)۔
آدمی اکثر اپنے آپ کو بچا کر رکھتا ہے اور اس کے جواب میں دشواریوں کی ایک فہرست پیش کر دیتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہی دشواریاں وہ قیمتی مواقع ہیں جن کو عذر نہ بنا کر وہ اپنے رب کو خوش کر سکتا ہے۔ آدمی جن مسائل کی بنا پر اللہ کی طرف بڑھنے سے رکتا ہے، وہی در اصل اس کے لیے ابدی جنت میں ترقی کے زینے ہوتے ہیں۔ وہ دشواریاں اس لیے نہیں ہیں کہ آدمی ان کو دیکھ کر رک جائے ، وہ اس لیے ہیں تاکہ آدمی ان کی پرواہ کیے بغیرجنت کے لیے آگے بڑھے۔ وہ ان کو خدا تک پہنچنے کا زینہ بنائے۔
خدا کے نزدیک اس کا سب سے محبوب بندہ وہ ہے جو اپنی تمناؤں کو خدا کے لیے دفن کر دے۔ جو اپنے آرام کو اس کی خاطر چھوڑ دے۔ جو اپنی مشکلات کو نظر انداز کر کے اس کی طرف بڑھ جائے۔ کسی انسان کے لیے حقیقی کامیابی یہ نہیں ہے کہ وہ اس دنیا میں کچھ حاصل کرلے ، کامیاب دراصل وہ ہے جو خدا کی راہ میں اپنا سب کچھ پیش کردے۔
سب سے زیادہ صحت مند وہ ہے جس کی صحت خدا کی راہ میں برباد ہوگئی ہو۔ سب سے زیادہ صاحب مال وہ ہے جو خدا کی خاطر بے مال ہو جائے ۔ سب سے زیادہ بلند مرتبہ وہ ہے جو خدا کے لیے بےمرتبہ ہو گیا ہو ۔ سب سے زیادہ خوش نصیب وہ شخص ہے جواس دنیاکے اندر اپنے رب کی خاطر بالکل لٹا ہوا ہو، پھر وہ اس کے پاس پہنچے۔ کیوں کہ اس کا رب اپنی رحمتوں کو اس کے اوپر انڈیل دے گا ۔ اس حقیقت کو صحابی رسول ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان الفاظ میں نقل کیا ہےکہ دنیا سے زہد ( بے رغبتی) یہ ہے کہ جو کچھ تمہارے ہاتھ میں ہے اس سے زیادہ بھروسہ تم کو اس پر ہو جو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اور جب تم پر کوئی مصیبت آئے تو ثواب کی بنا پر اس کا باقی رہنا تمہارے لیے زیادہ پسندیدہ بن جائے (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 4100 )۔