ایک حدیث
ایک حدیث قدسی ان الفاظ میں آئی ہے: إِنَّ اللهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى إِذَا أَحَبَّ عَبْدًا نَادَى جِبْرِيلَ: إِنَّ اللهَ قَدْ أَحَبَّ فُلاَنًا فَأَحِبَّهُ، فَيُحِبُّهُ جِبْرِيلُ، ثُمَّ يُنَادِي جِبْرِيلُ فِي السَّمَاءِ: إِنَّ اللهَ قَدْ أَحَبَّ فُلاَنًا فَأَحِبُّوهُ، فَيُحِبُّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ، وَيُوضَعُ لَهُ القَبُولُ فِي أَهْلِ الأَرْضِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 7485) ۔یعنی بیشک اللہ تعالی جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے، وہ جبریل کو کہتا ہے: بیشک اللہ نے فلاں سے محبت کی ہے، تو تم بھی اس سے محبت کرو۔ تو جبریل اس سے محبت کرتے ہیں، پھر جبریل آسمان میں آواز لگاتے ہیں بیشک اللہ نے فلاں سے محبت کی ہے، تو تم لوگ اس سے محبت کرو، تو آسمان والے اس سے محبت کرتے ہیں، اور اس کے لیے زمین میں قبولیت رکھ دی جاتی ہے۔
میرے اندازے کے مطابق، یہ حدیث لفظی معنی(literal meaning) میں نہیں ہے، بلکہ وہ تمثیل کی زبان میں ہے۔ اس واقعہ کو تمثیل کی زبان میں بیان کیا گیا ہے۔اصل میں اس حدیث میں فطرت کے ایک واقعے کو تمثیل کی زبان میں بیان کیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ جب کوئی انسان خدا سے ڈرنے والا بن جاتاہے تو اس کے دل میں اللہ کے بندوں سے محبت ہوجاتی ہے۔ وہ اللہ کے بندوں کے لیے دعائیں کرتا ہے۔ اس طرح کا عمل اگر کسی انسان کے اندر پیدا ہوجائے تو وہ یک طرفہ نہیں رہتا۔ وہ سفر کرکے دوسرے انسانوں تک پہنچتا ہے۔ جب ایک طرف سے یہ واقعہ ہوتا ہے تو دوسرے انسان کی طرف سے بھی اس کا مثبت رسپانس آنے لگتاہے۔ اس طرح محبت کا یہ عمل فطری طور پر دونوں انسانوں کے درمیان جاری ہوجاتا ہے۔ ایک شخص کے دل میں دوسرے کے لیے وہی جذبات پیدا ہوجاتے ہیں،جو دوسرے کے اندر پہلے کے لیے پیدا ہوئے تھے۔
یہ ایک ایسا تجربہ ہے، جس کو ہر انسان اپنی زندگی میں کرسکتا ہے۔جب بھی ایک شخص کے دل میں دوسرے شخص کے لیے اس طرح کے سچے جذبات پیدا ہوجائیں، تو یہ جذبہ ایک جگہ نہیں ٹھہرے گا، بلکہ وہ سفر کرے گا۔ مجھے اپنی زندگی میں ایسے بعض واقعات معلوم ہیں، جو مجھ کو ذاتی طور پر اس حقیقت کو یقین کے درجے تک پہنچاتے ہیں۔