یہ اخلاقی بحران کیوں
مسٹر رجَت ملہوترا ایک انٹرنیشنل بینک میں مینیجر ہیں۔ بینک نے اپنے اعلیٰ عہدے داروں کو مختلف ملکوں میں سیاحت کے لیے بھیجا۔ اِس ٹیم میں مسٹر رجت ملہوترا بھی شامل تھے۔ 15 دسمبر 2007 کو تھائی لینڈ سے اُن کا ٹیلی فون آیا۔ انھوں نے کہاکہ میں ایک خدا پر عقیدہ رکھتا ہوں۔ میں دوسری زندگی کو اور جنت، دوزخ کو مانتا ہوں۔ سفر میں اکثر میں اپنے ساتھیوں سے خدائی موضوعات پر بات کرتا ہوں، مگر میں نے دیکھا کہ اِن لوگوں کو اِس طرح کے موضوعات سے کوئی دل چسپی نہیں۔
لیکن جب ہم لوگ کسی بڑے شہر میں پہنچتے ہیں تو میں دیکھتا ہوں کہ یہ لوگ شاپنگ کے لیے ٹوٹ پڑتے ہیں۔ میرے سوا، ٹیم کا ہر آدمی نہایت دل چسپی کے ساتھ خریداریاں کرتا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ یہ فرق کیوں ہے۔ کیوں ایسا ہے کہ وہ خدا کے موضوع پر بات کرنے میں کوئی دل چسپی نہیں لیتے، لیکن جب شاپنگ کا موقع آتا ہے تو یہ لوگ نہایت دھوم کے ساتھ شاپنگ کرتے ہیں۔ میں جب اُن سے اِس کا سبب پوچھتا ہوں تو وہ یہ کہتے ہیں کہ جب ہم واپس ہو کر گھر پہنچیں گے تو ہمارے گھر والے ہم سے پوچھیں گے کہ تم فلاں فلاں ملک میں گئے، وہاں سے تم ہمارے لیے کیا لائے۔ انھوں نے کہا کہ میں دیکھتا ہوں کہ یہ لوگ ٹیلی فون پر برابر اپنے گھر والوں سے بات کرتے رہتے ہیں اور خوشی کے لہجے میں یہ کہتے ہیں کہ ہم تمھارے لیے یہ چیز لارہے ہیں اور وہ چیز لا رہے ہیں۔
اس موضوع پر میں نے غور کیا تو مجھے ایک عرب عالم کی بات یاد آئی۔ یہ محمد العارف ہیں۔ وہ اِس وقت مانچسٹر (برطانیہ) میں رہتے ہیں۔ ایک سفر کے دوران اُن سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ برطانیہ آکر مجھے یہ دریافت ہوئی کہ موجودہ زمانے کی اخلاقی بُرائیوں کی جڑ کیا ہے۔ وہ ہے— انعام کو مُنعم سے الگ کردینا۔ آج کا انسان، خدا کے انعامات کو تو خوب خوب استعمال کررہا ہے، لیکن وہ خدا کا اعتراف نہیں کرتا جو کہ منعم ہے، جو اِن تمام انعامات کو دینے والا ہے۔ یہ تجزیہ بلا شبہہ درست ہے اور یہی موجودہ زمانے کی تمام برائیوں کی اصل جڑ ہے۔
موجودہ زمانے کی سب سے بڑی فکری بُرائی یہ ہے کہ اِس زمانے میں خالق کو مخلوق سے الگ کردیا گیا۔ انسان کا اپنا وجود اور اس کے باہر کی تمام چیزیں خدا کی پیدا کی ہوئی ہیں۔ انسان اِن چیزوں کو آخری ممکن درجے تک استعمال کررہا ہے، لیکن وہ اپنے آپ کو اِس سے بے نیاز سمجھتا ہے کہ وہ خدا کا اعتراف کرے، جو تمام موجودات کا خالقِ حقیقی ہے۔ خالق اور مخلوق کے درمیان اِسی تفریق کے نتیجے میں موجودہ زمانے کی تمام برائیاں پیدا ہوئی ہیں۔
دونوں قسم کے ذہن سے دو الگ الگ کلچر پیدا ہوتے ہیں۔ خالق کااعتراف آدمی کے اندرذمّے داری کا ذہن پیدا کرتا ہے۔ اِس سے مسئولیت (accountability) کا احساس جاگتا ہے۔ یہ احساس آدمی کو مجبور کرتا ہے کہ وہ دنیا میں اخلاقی ڈسپلن کے ساتھ زندگی گزارے، کیوں کہ اس کو یہ ڈر ہوتا ہے کہ اگر اس نے اپنی اخلاقی ذمے داری کو پورا نہیں کیا تو لازمی طورپر وہ خدا کی پکڑ میں آجائے گا۔ خدائی قانون کے مطابق، وہ سخت سزا کا مستحق بن جائے گا جس سے بچنا اُس کے لیے ممکن نہ ہوگا۔ اِس کے برعکس معاملہ اُس انسان کا ہے جو اپنے آپ کو خدا کی پکڑ سے آزاد سمجھتا ہو۔ایسے آدمی کا حال یہ ہوگا کہ وہ انسانوں کی بستی میں خوش پوش حیوان کی مانند رہنے لگے گا، اُس کا پورا کردار غیرذمے دارانہ کردار بن کر رہ جائے گا۔
موجودہ زمانے میں یہ غیر ذمّے دارانہ کلچر اپنی آخری حد تک پہنچ چکا ہے۔ آج کا انسان اپنے آپ ہی کو سب کچھ سمجھتا ہے۔ وہ اِس نفسیات میں جیتا ہے کہ میں جو چاہوں کروں، مجھے کسی اور سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ اِس غیر ذمے دارانہ کلچر کے نمونے ہر روز سماج میں اور میڈیا میں سامنے آتے رہتے ہیں۔ بطور نمونہ یہاں میں صرف دو حوالے نقل کروں گا۔
اگر آپ آج کل کے کسی بڑے انگریزی اخبار کو پڑھیں تو آپ اُس کے ہر شمارے میں جدید سماج کے نمونے اس کے تقریباً ہر صفحے پر پائیں گے۔ ہر شمارے میں برہنگی (nudity) اتنی زیادہ نمایاں ہوگی کہ آپ کا جی چاہے گا کہ آپ اخبار پڑھنا ہی بند کردیں۔ مثال کے طور پر 17 دسمبر 2007 کے ٹائمس آف انڈیا (Delhi Times) کے صفحۂ اوّل کو دیکھیے۔ اُس میں ایک فلم ایکٹریس کی رنگین تصویر چھپی ہے۔ اِس کے ساتھ جو خبر شائع ہوئی ہے، اس کے اوپر جلی حرفوں میں یہ عنوان درج ہے— مجھے اپنے کسی فیصلے پر ندامت نہیں ہوتی:
I don’t regret any decision.
فلم ایکٹریس کا یہ جملہ نمائندہ طورپر یہ بتارہا ہے کہ آج کے انسان کا اصل اخلاقی مسئلہ کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ جدید افکار و نظریات کے تحت، ایسا ہوا ہے کہ انسان کے اندر ضمیر (conscience) کا عمل تقریباً ختم ہوگیا۔ ضمیر ایک فطری آواز ہے جوانسان کو صحیح اور غلط کا احساس دلاتی ہے، لیکن موجودہ زمانے میں جدید افکار و نظریات کے تحت، انسان کی ایسی کنڈیشننگ ہوئی ہے کہ اس کے اندر ضمیر کا عمل تقریباً ختم ہوگیا۔ اور جب ضمیر کا عمل ختم ہوجائے تو اس کے بعد عملی طورپر یہی ہوگا کہ انسان اور حیوان کے درمیان اخلاقی اعتبار سے کوئی فرق باقی نہ رہے۔
جنگل کے حیوان اپنی جِبلّت (instinct) پر قائم رہتے ہیں۔ ان کی جبلت میں صحیح اور غلط، یا حق اور باطل کا فرق موجود نہیں، اِس لیے وہ اِس قسم کے احساسات سے خالی ہو کر زندگی گزارتے ہیں۔ لیکن انسان پیدائشی طورپر صحیح اور غلط، یا حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے کا احساس لے کر پیدا ہوتا ہے۔ جدید افکار و نظریات کے تحت، اِباحیت(permissiveness) کا جو کلچر پیدا ہوا، اس میں اور اس انسانی احساس میں ایک تضاد پایا جاتاتھا۔ اِس تضاد کو دور کرنے کے لیے نہایت خوب صورت نظریات گھڑے گئے اور پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے اس کو تمام لوگوں میں پھیلا دیا گیا۔ بطور نمونہ یہاں اِس کی ایک مثال درج کی جاتی ہے۔
نئی دہلی کے مشہور انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا(16 دسمبر2007) میں مسٹر جیمس (Mames P Krehbiel) کے نام سے اخبار کے صفحہ 27 پر ایک مضمون چھپا ہے۔ اُس کے مندرجات کے مطابق، اس کا عنوان یہ ہے— اپنے آپ کو خطا کار نہ سمجھو:
Don’t feel guilty
اِس مضمون میں جدید ذہن کی نمائندگی کرتے ہوئے یہ کہاگیا ہے کہ خطا کا احساس آدمی کے اندر سیلف بلیم (self-blame) کی نفسیات پیدا کرتاہے، ایسا آدمی شکست خوردہ ذہنیت کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے، اس کا کانفڈینس لیول (confidence level) بہت گر جاتا ہے، ایسے آدمی کے اندر غیرضروری طورپر منفی مزاج پیدا ہوجاتا ہے، وہ حالات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ کھو بیٹھتا ہے، ماں باپ کی روک ٹوک اور اخلاقی پابندیوں کی بات کو اِس مضمون میں نگیٹیو پیرنٹنگ (negative parenting) بتایا گیا ہے، کیوں کہ اِس سے بچے کے اندر اپنے بارے میں کم تری کا احساس پیداہوتا ہے، وغیرہ۔
یہ بلا شبہہ صورتِ حال کا غلط تجزیہ ہے۔ آدمی کے اندر جب غلطی کا احساس پیدا ہوتا ہے تو وہ اس کے اندر اپنی اصلاح (self-correction) کا جذبہ ابھارتا ہے، نہ کہ سیلف ڈفیٹ (self-defeat) کا جذبہ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کے اندر اس کا ضمیر کم زور ہونے کے باوجود ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ ایسی حالت میں جو آدمی اپنی غلطی کا اعتراف نہ کرے، وہ ہمیشہ بے یقینی کے احساس میں مبتلا رہے گا۔ اِسی کا دوسرا نام بے حوصلگی ہے۔ اِس کے برعکس، جو آدمی غلطی کرنے کے بعد اس کا اعتراف کرلے، وہ اپنی اصلاح کرکے اپنے اندر مزید یقین پیدا کرلے گا، وہ زیادہ حوصلے کے ساتھ عمل کرنے کے قابل ہوجائے گا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ یقین اور اعتماد کا سر چشمہ آدمی کا یہ احساس ہے کہ میں سچائی کے راستے پر ہوں۔ میں اپنے ضمیر کے مطابق چل رہا ہوں۔ میں نے فطرت کے نظام سے بغاوت نہیں کی ہے۔ میں اُن اصولوں کا پابند ہوں جن کے اوپر پوری کائنات قائم ہے۔ برسرِ حق ہونے کا احساس آدمی کے حوصلے کو بڑھاتا ہے۔ اِس کے برعکس، جو آدمی غلطی کرنے کے باوجود اپنے کو غلط نہ مانے، وہ داخلی بے یقینی کا شکار ہو کر رہ جائے گا۔ یہ واقعہ کبھی شعوری طور پر ہوتا ہے اور کبھی غیر شعوری طور پر، مگر جہاں تک نتیجے کا تعلق ہے، دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
فکری اعتبار سے اِس غلطی کا آغاز بہت پہلے سے ہوتا ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، اِس دور میں عالمی افکار پر سب سے زیادہ جو لوگ اثر انداز ہوئے ہیں، وہ مغربی علما اور سائنس داں ہیں۔ چناں چہ اِس معاملے میں بھی جو صورتِ حال عالمی سطح پر پیدا ہوئی، اِس کی ذمے داری زیادہ تر مغربی علما پر جاتی ہے۔ یہ در اصل مغربی علما ہی تھے جنھوں نے انسانی فکر کی دنیا میں وہ حالات پیدا کیے جس کے نتیجے میں ارادی یا غیرارادی طورپر، وہ صورتِ حال پیدا ہوئی جس کواخلاقی بحران (moral crisis) کہا جاتا ہے۔
اِس معاملے میں سب سے زیادہ نمایاں نام اٹلی کے مشہور سائنس داں گلیلیو (Galileo)کا ہے۔ گلیلیو 1564 میں پیدا ہوا، اور 1642 میں اِس کی وفات ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ گلیلیو وہ شخص ہے جس نے ماڈرن سائنس کی بنیاد رکھی۔ گلیلیو پہلا شخص ہے جس نے دور بین کے ذریعے ستاروں اور سیاروں کا اور شمسی نظام مشاہدہ کیا۔ اگر چہ آخری عمر میں وہ اندھا ہوگیا تھا، لیکن سائنس کے مختلف شعبوں میں اس کی خدمات بہت زیادہ اہم سمجھی جاتی ہے۔
گلیلیو نے ایک طرف یہ تاریخی کام کیا کہ اس نے میتھ میٹکس اور فزکس کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ کیا، جب کہ اس سے پہلے دونوں الگ الگ شعبے بنے ہوئے تھے:
Galileo was the first man who perceived that mathematics and physics, previously kept in separate compartments, were going to join forces. (EB,7/853)
گلیلیو کے اِس عمل سے فزکس کو بہت ترقی ہوئی۔لیکن اِس مثبت کام کے ساتھ گلیلیو نے ایک ایسا کام بھی کیا، جس کے دور رس منفی نتائج برآمد ہوئے۔ وہ یہ کہ گلیلیو نے چیزوں کے کمّیاتی پہلو (quantitative aspect) کو چیزوں کے کیفیاتی پہلو (qualitative aspect) سے جدا کردیا۔ اِس طرح اس نے سائنس کی تحقیقات کو صرف اُن چیزوں تک محدود کردیا جو ناپی اور تولی جاسکتی تھیں، دوسری چیزیں اپنی تمام اہمیت کے باوجود سائنسی تحقیق کا موضوع نہ رہیں، اِس کا یہ نتیجہ ہوا کہ وہ انسان کے لیے غیر اہم قرار پاگئیں، کیوں کہ موجودہ زمانے میں فکری اعتبار سے سائنس کا غلبہ ہے۔ آج کا انسان اُنھیں چیزوں کو اہمیت دیتا ہے، جو سائنس کے اعتبار سے اہم قرار پائیں۔اِس مسئلے کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر الیکسس کیرل (وفات: (1944 نے اپنی کتاب: انسانِ نامعلوم (Man the Unknown, 1935) میں لکھا ہے:
“یہ غلطی جو ہماری تمام مصیبتوں کی ذمے دار ہے، گلیلیو کے تولیدی نظریہ (genial idea) کی ایک غلط تعبیر کا نتیجہ ہے۔ گلیلیو نے چیزوں کی ابتدائی صفات کو، جو اَبعاد اور وزن پر مشتمل ہیں اور جن کی آسانی سے پیمائش کی جاسکتی ہے، اُن ثانوی صفات سے الگ کردیا، جو شکل، بُو اور رنگ وغیرہ سے تعلق رکھتی ہیں اور جن کی پیمائش نہیں کی جاسکتی۔ کمّیت کو کیفیت سے جدا کردیاگیاہے۔ اِس غلطی سے غیر معمولی نتائج پیدا ہوئے۔ انسان کے اندر وہ چیزیں، جن کی پیمائش نہیں کی جاسکتی، اُن چیزوں سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں جن کی پیمائش کی جاسکتی ہے۔ مثلاً فکر اور خیال کاوجود اتنا ہی اہم ہے، جتنا خوں ناب (blood serum) کے طبیعی کیمیاوی توازن کا وجود اہم ہے۔ کمّی اور کیفی اشیا کے درمیان یہ فرق اور وسیع ہوگیا، جب ڈیکارٹ نے جسم اور روح کے درمیان فرق کرنا شروع کیا۔ اِس کے بعد سے دماغ کے مظاہر ناقابلِ تشریح بن گئے۔ مادّی اشیا کو روحانی اشیا سے بالکل الگ کردیاگیا”(Religion and Science, p. 73)
انسانی فکر میں اِس تبدیلی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ خالق اور مخلوق کے درمیان تعلق ختم ہوگیا، یا صرف رسمی طورپر باقی رہا۔انسان دنیا میں اِس طرح رہنے لگا، جیسے کہ وہ کسی کے سامنے جواب دہ نہیں، وہ اپنی قسم کا مالک آپ ہے، اُس کو یہ حق ہے کہ وہ جو چاہے کرے اور جو چاہے نہ کرے۔ اِسی سے ہیومن ازم (Humanism) کا فلسفہ پیدا ہوا، جس کا خلاصہ یہ تھا کہ— خدا کی سیٹ پر اب خود انسان کو قبضہ حاصل ہوگیا۔ چناں چہ ہیومن ازم کے نظریے کو اِن الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے:
Transfer of seat from God to man.
انسان جب اپنے آپ کو خدا کی نسبت سے دیکھے تو اس کے اندر اللہ اکبر کی نفسیات پیدا ہوتی ہے، یعنی ہر قسم کی بڑائی صرف خدا کے لیے ہے۔ میں اُس کے مقابلے میں صرف ایک عاجز مخلوق کی حیثیت رکھتا ہوں۔ ایسا انسان خدا کو کبیر مان کر، اپنے آپ کو اس کے مقابلے میں صغیر بنا لیتا ہے۔ اِس سے انسان کے اندر تواضع (modesty) کی نفسیات پیدا ہوتی ہے۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ عجز اور تواضع کا احساس ہی تمام اعلیٰ اخلاقی اقدار کا سر چشمہ ہے۔
اِس کے برعکس معاملہ اُس انسان کا ہے جو خدا کو حذف کرکے سوچے۔ ایسے انسان کے پاس تقابل کے لیے صرف دوسرے انسان ہوتے ہیں۔ فطری طور پر اس کے اندر یہ احساس ابھرتا ہے کہ کوئی مجھ سے بڑا نہیں، دوسرے جو لوگ ہیں، وہ یا تو میرے برابر ہیں، یا مجھ سے چھوٹے ہیں۔ ہر آدمی کے اندر کوئی نہ کوئی خاص صفت ہوتی ہے، اِس لیے ہر آدمی کو یہ موقع مل جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو بڑا سمجھے۔ وہ اِس کی ضرورت نہ سمجھے کہ اُس کو کسی کے آگے جھکنا چاہیے۔ اِس قسم کا احساس بلا شبہہ تمام اخلاقی اقدار کی نفی کے ہم معنیٰ ہے۔
مثال کے طورپر برطانیہ کا مدبّر لارڈ کَرزن (وفات:1925) غیر معمولی ذہین آدمی تھا۔ اس کا مطالعہ بھی کافی وسیع تھا۔ چناں چہ جب وہ لوگوں سے ملتا تو اس کو محسوس ہوتا کہ دوسرے لوگ اُس سے کم ہیں۔ اس کے اندر اپنے بارے میں برتری کا احساس پیدا ہوگیا۔ لارڈکرزن کے ایک سوانح نگار نے لکھا ہے کہ— اُس کے معاصرین میں کوئی اس کے برابر کا نہ تھا:
He had no equal
اِس احساسِ برتری کی بنا پر لارڈ کرزن کا پورا رویّہ غیر متوازن بن گیا۔ وہ دوسرے تمام لوگوں کے لیے منفی احساس میں جینے لگا، یہاں تک کہ سخت مایوسی کے عالم میں وہ مرگیا۔ یہی کم وبیش اُن تمام انسانوں کا حال ہوتا ہے جو خدا کو حذف کرکے اپنا فکر بنائیں۔ جن کی اخلاقیات کا سرچشمہ خدا نہ ہو، وہ اپنے آپ میں جئیں گے اور اپنے آپ ہی میں مرجائیں گے۔