سوال وجواب

سوال

آج کل مسلمانوں کے درمیان ایک نیا ظاہرہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ وہ یہ کہ مسلم رہ نما اور مسلم لیڈر بڑے پیمانے پر امن کی باتیں کررہے ہیں۔ وہ جگہ جگہ دہشت گردی مخالف کانفرنسیں منعقد کررہے ہیں، اور میڈیا میں یہ بیان دے رہے ہیں کہ اسلام امن کا مذہب ہے، دہشت گردی سے اسلام کا کوئی تعلق نہیں۔ اِس معاملے میں آپ کا نقطۂ نظر کیا ہے۔ کیا آپ اِس کو کوئی صحت مند ظاہرہ سمجھتے ہیں (محمد ذکوان ندوی، نئی دہلی)۔

جواب

یہ صحیح ہے کہ آج کل دہشت گردی (terrorism) کے خلاف لکھنے اور بولنے کا فیشن ہوگیا ہے۔ اِس موضوع پر مختلف مقامات پر سیمنار اور کانفرنسیں ہوررہی ہیں، انڈیا کے اندر بھی اور انڈیا کے باہر بھی۔ اِسی قسم کی ایک بڑی کانفرنس 30مئی 2008 کو نئی دہلی میں ہوئی۔ میڈیا میں اس کو کافی کور (cover) کیا گیا۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (یکم جون 2008)میں اِس کانفرنس کی رپورٹ چھپی ہے۔ اس کا عنوان یہ ہے:

Fatwa Against Terrorism

دہشت گردی کے خلاف اِس زمانے میں تقریر و تحریر کی جو دھوم ہے، وہ میرے نزدیک سر تاسر بے فائدہ ہے۔ اِس لیے کہ یہ تمام لوگ ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف بے تکان بولتے ہیں، لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ دہشت گردی ہے کیا۔ اِن میں سے کسی نے آج تک دہشت گردی کی تعریف (definition) نہیں دی۔ایسی حالت میں ان کی ساری چیخ وپکار بے معنی ہے۔ اِس لیے کہ وہ لوگ جو مختلف مقامات پر تشدد اور خود کش بم باری (suicide bombing) کررہے ہیں، وہ خود اپنے آپ کو دہشت گرد نہیں کہتے، بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ— ہم آزادیٔ وطن کی لڑائی لڑ رہے ہیں، ہم انسانی حقوق کی لڑائی لڑ رہے ہیں، ہم انصاف کی لڑائی لڑ رہے ہیں، وغیرہ۔ اِس لیے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف جو کچھ کہاجارہا ہے، وہ ان کے اوپر منطبق (apply) نہیں ہوتا۔

پوری دنیا میں، میں واحد شخص ہوں جس نے بتایا کہ دہشت گردی(terrorism) کیا ہے۔ میں نے بتایا کہ غیرحکومتی تنظیموں (NGOs) کا ہتھیار اٹھانا، یہی دہشت گردی ہے۔ اسلامی شریعت کے اصول کی روشنی میں دہشت گردی کی تعریف (definition) یہ ہے— حکومت کے علاوہ کسی غیرحکومتی تنظیم کا ہتھیار اٹھانا:

Use of arms by agencies, other than state.

غیر حکومتی افراد، یا تنظیموں کو صرف پُر امن جدوجہد کا حق ہے، مسلّح جدوجہد کا اُن کو حق نہیں۔

اِس قسم کے مقررین اور محررین کا طریقہ یہ ہے کہ وہ پُرجوش طورپر یہ کہتے ہیں کہ اسلام میں دہشت گردی نہیں، مگر یہ ایک غیر متعلق (irrelevant) بات ہے۔ اِس معاملے میں لوگوں کا کہنا یہ نہیں ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ کچھ مسلمان، اسلام کے نام پر وہ متشددانہ فعل کررہے ہیں جس کو موجودہ زمانے میں دہشت گردی کہاجاتا ہے۔ اِس لیے اِس معاملے میں اصل کام یہ ہے کہ اِس قسم کے مسلمانوں کو کنڈم (condemn) کیاجائے۔ کھلے طورپر یہ بتایا جائے کہ یہ لوگ اپنے متشددانہ عمل کے لیے غلط طورپر اسلام کا نام لے رہے ہیں۔ اِس معاملے میں اصل کام، اسلام اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنا ہے، نہ کہ مسلمانوں کے بارے میں خاموش رہ کر یہ کہاجائے کہ اسلام میں دہشت گردی نہیں۔ موجودہ صورت میں اِس قسم کے بیان کا کوئی فائدہ نہیں۔

اگر کوئی ناخوش گوار صورتِ حال پائی جائے، تو ایسے وقت میں عمل کرنے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک، پُرامن جدوجہد اور دوسرے، مسلّح جدوجہد۔ اسلامی شریعت کے مطابق، مسلح جدوجہد کا حق صرف قائم شدہ حکومت کو ہے، اور وہ بھی اُس وقت ہے، جب کہ کسی طاقت نے اُس پر حملہ کردیا ہو۔ جہاں تک غیر حکومتی عوام کی بات ہے، ان کے لیے ہتھیار اٹھانا کسی بھی حال میں جائز نہیں۔ عوام کے لیے صرف پُر امن جدوجہد ہے، نہ کہ مسلح جدوجہد۔

سوال

ہمارے یہاں تبلیغی جماعت کے بعض حضرات ہر کسی پر یہ فتویٰ لگاتے رہـتے ہیں کہ اُس کے پیچھے نماز نہیں ہوتی۔ براہِ کرم رہ نمائی فرمائیں کہ اِس طرح کے معاملات میں اسلام کا کیا حکم ہے (معاذالدین، بھاگل پور)۔

جواب

موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں یہ ایک عام مزاج ہے کہ وہ مسجد کے امام پر ایک شخصی الزام لگائیں گے اور پھر یہ تحریک چلائیں گے کہ اس کے پیچھے نماز جائز نہیں، اِس لیے اس کو ہٹا کر اس کی جگہ دوسرا امام مقرر کیا جائے۔ اِس قسم کی تحریک بلاشبہہ ایک گناہ کا کام ہے۔ یہ اسلام کے نام پر غیر اسلام کا طریقہ اختیار کرنا ہے۔ حدیث میں اِس قسم کے عمل کو صراحت کے ساتھ منع کیاگیا ہے۔

سنن ابی داؤد میں ایک حدیث ِ رسول اِن الفاظ میں آئی ہے: الصلاۃ المکتوبۃ واجبۃٌ خَلْف کلّ مسلم، بَرًّا کان أو فاجراً وإن عمل الکبائر (باب إمامۃ البَرّ والفاجر)یعنی فرض نماز ہر مسلمان کے پیچھے واجب ہے، خواہ وہ نیک ہو یا بد، خواہ اس سے گناہِ کبیرہ کا ارتکاب ہوا ہو۔

اِس حدیثِ رسول کا خطاب اصلاً امام کی طرف نہیں ہے، بلکہ مقتدی کی طرف ہے۔ اِس کا مطب یہ ہے کہ کوئی مقتدی اگر یہ سمجھتا ہوکہ امام کے اندر فلاں فلاں خرابی پائی جاتی ہے، تو اِس کے باوجود اس کو امام کے پیچھے نماز پڑھنا چاہیے۔ کیوں کہ ہر آدمی خود اپنی نماز پڑھتا ہے، نہ کہ امام کی نماز۔ مسجد میں امام کا تقرر صرف تنظیمِ جماعت کے لیے ہوتا ہے، نہ کہ صحتِ نماز کے لیے۔ جہاں تک صحتِ نماز کا معاملہ ہے، اس کا تعلق ہر آدمی کی اپنی نیت سے ہے۔ اِس معاملے میں بنیادی اصول یہ ہے کہ مسجد میں ہر وہ فعل قابلِ ترک ہے جو مسجد کے عبادتی ماحول کو بگاڑے۔ کوئی بھی ایسا فعل جس سے مسجد کا عبادتی ماحول بگڑے، وہ شریعت کے نزدیک فتنہ ہے، اور فتنہ کسی بھی عذر کی بنا پر جائز نہیں۔

بالفرض اگر کسی امام کے اندر کوئی برائی پائی جاتی ہو، تو مقتدی کی ذمے داری صرف یہ ہے کہ وہ اس کے حق میں دعا کرے۔ اور اگر وہ دعا سے زیادہ کرنا چاہتا ہے، تو وہ صرف یہ کرسکتا ہے کہ تنہائی میں امام سے ملے اورخیر خواہی اور دل سوزی کے ساتھ اس کو سمجھانے کی کوشش کرے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom