درمیانی شخص کا رول

زندگی کی حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ وسیط یا درمیانی شخص (middleman) کی اہمیت کوسمجھا جائے اور اس کو تعمیری مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔ یہ ایک عالمی اصول ہے۔ ہرزمانے میں اِس کی مثالیں پائی جاتی ہیں، قدیم تاریخ میں بھی اور جدید تاریخ میں بھی۔

1-قرآن میں اِس معاملے کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ایک مثال حضرت یوسف علیہ السلام کی ہے۔ حضرت یوسف اٹھارھویں صدی قبل مسیح میں فلسطین میں پیداہوئے، پھر وہ مخصوص اسباب کے تحت مصر پہنچے۔ اُس وقت مصر میں ایک بادشاہ کی حکومت تھی۔ اس کا نام یہ تھا— اپوفِس(Apophis)۔ حضرت یوسف کو یہ موقع ملا کہ وہ مصر میں وہ پوزیشن حاصل کرلیں جس کوقرآن میں خزائنِ ارض (یوسف: 55) پر اقتدار کہاگیا ہے۔

حضرت یوسف کو یہ غیر متوقع کامیابی کیسے ملی۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ بعض اسباب کے تحت وہاں ایک شخص سامنے آیا جس نے اُن کے اور بادشاہ کے بیچ، درمیانی شخص (intermediary) کارول ادا کیا۔ اِس طرح حضرت یوسف جیل سے نکل کر اقتدار کے منصب پر پہنچ گئے۔ اِس معاملے کی تفصیل قرآن کی سورہ نمبر 12 میں، اور بائبل کی کتاب پیدائش (Genesis) میں دیکھی جاسکتی ہے۔

2-حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک اسرائیلی پیغمبر تھے۔ وہ پندرھویں صدی قبل مسیح میں مصر میں پیدا ہوئے۔ اُن کی زندگی میں ایک سے زیادہ ایسے واقعات ملتے ہیں، جب کہ کسی درمیانی شخص نے ان کے لیے بوسٹر (booster) کا رول ادا کیا۔ مثلاً حضرت موسیٰ بچپن میں ایک خاتون کے رول (القصص:12) کے ذریعے وقت کے بادشاہ کے محل میں پہنچے۔ اِسی طرح فرعون نے جب حضرت موسیٰ کے قتل کا فیصلہ کیا تو اچانک اس کے دربار کا ایک شخص کھڑا ہوا۔ اس نے درمیانی شخص کا رول اداکرکے فرعون کو حضرت موسیٰ کے خلاف قتل کی کارروائی کرنے سے باز رکھا (المؤمن:28)۔

3-پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی اِس حکمت کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ایک واضح مثال وہ ہے جو غزوۂ خندق کے موقع پر سامنے آئی۔ غزوۂ خندق یا غزوۂ احزاب 5 ہجری میں پیش آیا۔ اُس وقت بے حد سنگین صورت حال تھی۔ مخالفین کی طرف سے بارہ ہزار کا طاقت ور لشکر مدینہ کی سرحد تک پہنچ چکا تھا۔ مسلمان اِس لشکر کا مقابلہ کرنے سے اپنے آپ کوعاجز پارہے تھے۔ اِس واقعے کی تصویر قرآن میں اِس طرح دی گئی ہے:

اُس وقت کو یاد کرو، جب کہ وہ تم پر چڑھ آئے، تمھارے اوپر کی طرف سے اور تمھارے نیچے کی طرف سے۔ اور جب آنکھیں کھُل گئیں اور دل گلوں تک پہنچ گئے، اور تم اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔ اُس وقت ایمان والے امتحان میں ڈالے گئے اور بالکل ہلا دئے گئے‘‘۔ (الأحزاب: 10-11)

تاریخ بتاتی ہے کہ مخالفینِ اسلام کی طرف سے پیش آنے والا یہ سنگین خطرہ،جنگ اور قتال کے بغیر ختم ہوگیا۔ بارہ ہزار کا یہ طاقت ور لشکر تقریباً ایک مہینے کے محاصرے کے بعد خود ہی مدینہ کے خلاف کوئی اقدام کئے بغیر واپس چلا گیا۔ یہ معجزہ(miracle) کیسے پیش آیا۔ اِس کا جواب ہم کو سیرت کی کتابوں سے ملتا ہے۔ سیرت کی کتابوں میں یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔

اِس کا خلاصہ یہ ہے کہ اُس وقت مدینہ میں ایک صاحب تھے جن کا نام نُعیم بن مسعود بن عامر الاشجعی (وفات 650 ء) تھا۔ وہ اگر چہ دل سے مسلمان ہوچکے تھے، لیکن مخالفِ اسلام گروہ کو ابھی تک اِس کا علم نہ تھا۔ اِس بنا پر ان کے قبیلے کے اندر، یا مخالفِ اسلام گروہ کے اندر ان کو بدستور معتمد علیہ (trustworthy) شخص کی حیثیت حاصل تھی۔ اِس بنا پر وہ اُس وقت دو طرفہ رول ادا کرنے کی پوزیشن میں تھے۔

محاصرے کے دوران نُعیم بن مسعود الاشجعی رات کے وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور اپنے بارے میں بتایا کہ میں دل سے اسلام کو مان چکا ہوں، لیکن ابھی دوسرے لوگ اِس سے واقف نہیں۔ اِس بنا پر ابھی تک مجھ کو اُن کا اعتماد حاصل ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں مخالفانہ محاصرے کو ختم کرنے کے سلسلے میں اہم رول ادا کرسکتا ہوں۔ پیغمبر اسلام نے اُس وقت ایسا نہیں کیا کہ وہ نعیم بن مسعود پر شک کریں اور ان کو دشمنوں کا ایجنٹ (agent) بتا کر اپنے اصحاب سے کہیں کہ یہ شخص خطرناک آدمی ہے، تم لوگ اِس سے بچو۔ اِس کے برعکس، پیغمبر اسلام نے اُن کی قدر دانی کی۔ آپ نے فرمایا کہ تم ضرور اپنے منصوبے کے مطابق کوشش کرو۔ کیوں کہ: إنما أنت فینا رجلٌ واحد (سیرت ابنِ ہشام، جلد 3، صفحہ 247) یعنی تم تو ہمارے درمیان ایک ہی ایسے آدمی ہو:

You are only one man among us. So go and awake distrust among the enemy to draw them off us, if you can, war is deceit.

نعیم بن مسعود الاشجعی نے اِس موقع پر مدینہ کے محاصرے کو ختم کرنے کے لیے جو رول ادا کیا، اس کی تفصیل سیرت کی کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ یہ عین وہی رول تھا جس کو درمیانی شخص کا رول (intermediary role) کہاجاتا ہے۔ انھوں نے جنگ کے بغیر ایک جنگی اقدام کا خاتمہ کردیا۔ یہ بارہ ہزار کا لشکر جو اُس وقت مدینہ کے خلاف حملہ کرنے کے لیے آیا تھا، وہ سب بعد کو اسلام کے دائرے میں داخل ہوگیا۔

اِس اعتبار سے دیکھئے تو نعیم بن مسعود کا یہ رول اپنے اندر بہ یک وقت دو عظیم پہلو رکھتا تھا۔ ایک، جنگ اور خون کے بغیر دشمنانہ محاصرے کا خاتمہ اور دوسرے، اُن لوگوں کو ہلاکت سے بچانا جو اُس وقت متوقع اہلِ ایمان (expected believers) کی حیثیت رکھتے تھے۔

4-اِس معاملے کی ایک مثال رجاء بن حَیوہ بن جرول الکِندی (وفات: 730 ء) کی ہے۔وہ بنو امیہ کے دور میں خلیفہ سلیمان بن عبد الملک (وفات: 717 ء) کے مصاحب تھے۔وہ خلیفہ کے معتمد شخص بن گئے تھے۔ اپنی اِسی حیثیت کی بنا پر رجاء بن حیوہ کو یہ موقع ملا کہ وہ ایک نازک صورتِ حال میں ایک اہم رول ادا کرسکیں۔ اِسی اہم رول کا یہ نتیجہ تھا کہ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں پانچویں خلیفۂ راشد عمر بن عبد العزیز (وفات: 720 ء) کا اضافہ ہوا۔ اِس معاملے کی تفصیل تاریخ کی کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔

اِس کا خلاصہ یہ ہے کہ خلیفہ سلیمان بن عبد الملک ایک سفر میں تھے کہ وہ بیمار ہوگئے، ان کے بچنے کی امید نہ رہی۔ اُس وقت رجاء بن حیوہ، خلیفہ کے ساتھ تھے۔ خلیفہ کے براہِ راست وارث موجود تھے، لیکن وہ لائق نہ تھے۔ رجاء بن حیوہ نے سلیمان بن عبد الملک کو راضی کیا کہ وہ ایک وصیت نامہ لکھیں اور اِس وصیت نامے میں عمر بن عبد العزیز کو وہ اپنے جانشین کی حیثیت سے نام زد کردیں۔ یہ اُس وقت ایک خلافِ روایت بات تھی، لیکن رجاء بن حیوہ کے کہنے پر سلیمان بن عبد الملک نے اُس وقت ایک تحریری وصیت تیار کی اور اس پر اپنی شاہی مُہر ثبت کردی۔ سلیمان بن عبد الملک ابھی سفر ہی میں تھے کہ ان کا انتقال ہوگیا۔ چناں چہ ان کی تحریری وصیت کے مطابق، ان کی جگہ عمر بن عبد العزیز کو اموی سلطنت کا خلیفہ مقرر کیا گیا۔

5-برصغیر ہند میں انگریزوں کا سیاسی غلبہ ہوا تو 1857 میں علماء نے انگریزوں کے خلاف باقاعدہ طورپر مسلح جنگ کی۔یہ جنگی اقدام علماء کے نزدیک اسلامی جہاد تھا، لیکن انگریزوں کے نزدیک اِس جنگی اقدام کی حیثیت بغاوت (mutiny) کی تھی۔ چناں چہ انگریزوں نے اِن علماء کو حکومتِ وقت کا باغی قرار دے کر ان کے خلاف سخت دار وگیر شروع کردی۔ چوں کہ مسلم عوام نے عام طورپر علماء کے اِس جنگی اقدام کو غلط نہیں سمجھا تھا، اور اُس سے اظہارِ برأت (disown) نہیں کیا تھا، اِس لیے تمام مسلمان، انگریزوں کی نظر میں غدّار قرار پاگئے۔انگریز حکم راں، مسلمانوں کی وفاداری پرشک کرنے لگے۔ اِس کا بھاری نقصان مسلمانوں کو اٹھانا پڑا۔

یہ ایک بے حد نازک معاملہ تھا۔ اُس وقت برصغیر ہند میں صرف ایک نمایاں مسلمان تھے، جو اِس مسئلے کے حل کے لیے اٹھے۔ یہ سرسید احمد خاں (وفات: 1898) تھے۔ انھوں نے اپنی مسلسل کوشش کے ذریعے مسلمانوں کے بارے میں انگریزوں کے شکوک وشبہات کو دور کیا۔ انھوں نے علی گڑھ میں محمڈن کالج (موجودہ مسلم یونی ورسٹی) قائم کیا، تاکہ مسلمان انگریزی تعلیم حاصل کریں اور انگریزوں کے دورِ حکومت میں اُن کو باعزت مقام حاصل ہوسکے۔ سرسید احمد خاں کا مشن اتنا زیادہ مفید ثابت ہوا کہ آج مسلم یونی ورسٹی کو انڈیا میں مسلمانوں کے وجود و بقا کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

سرسید احمد خاں کو یہ اہم رول ادا کرنے کا موقع کس طرح ملا۔ اُس کا سبب صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ مخصوص حالات کے نتیجے میں سرسید کو انگریزی حکومت اور مسلمانوں کے بیچ میں درمیانی شخص (middleman) کا درجہ حاصل ہوگیا تھا۔ ایک طرف ان کا معاملہ یہ تھا کہ وہ ایک مسلمان تھے۔ استثنائی طورپر ان کی نمایاں قسم کی شرعی داڑھی ان کے باعمل مسلمان ہونے کی کھلی علامت تھی۔ دوسری طرف یہ کہ انگریزوں کے بارے میں اُن کا رویہ نرم اور معتدل تھا۔ سرسید کی اِن دو طرفہ خصوصیات نے ان کو اِس قابل بنا دیا کہ وہ انگریزوں کے شدید رد عمل (backlash) کو روک سکیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ سرسید کے ذریعے سے یہ کام بخوبی طورپر انجام پایا۔

6-اِسی طرح کا ایک نام مولانا ابو الکلام آزاد (وفات: 1958) کا بھی ہے۔ 1947 میں برصغیرہند میں ملک کی تقسیم کا واقعہ پیش آیا۔ ایک طرف انڈیا بنا، اور دوسری طرف پاکستان۔ ملک کی یہ تقسیم مسلمانوں کے مطالبے کے تحت انجام پائی تھی، اِس لیے ہندوؤں نے تقسیم کا سارا الزام مسلمانوں کے اوپر ڈال دیا۔ تقسیم کے بعد بننے والے نئے انڈیا میں مسلمانوں کو عام طورپر شک وشبہہ کی نظر سے دیکھا جانے لگا۔

اِس نازک وقت میں مولانا ابو الکلام آزاد نے نہایت اہم رول ادا کیا۔ مخصوص اسباب کے تحت، مولانا ابوالکلام آزاد کو اُس وقت کے ہندستان میں درمیانی شخص (middleman) کا درجہ حاصل ہوگیا تھا۔ ایک طرف وہ ایک ممتاز مسلم فرد کی حیثیت رکھتے تھے، اور دوسری طرف آزادی کے بعد قائم ہونے والی کانگریسی حکومت میں مولانا ابو الکلام آزاد کو کامل اعتماد کا درجہ حاصل ہوگیا تھا۔ اِس مخصوص پوزیشن کی بنا پر مولانا ابوالکلام آزاد کویہ موقع ملا کہ وہ ہندو اور مسلم کے بیچ درمیانی شخص کا رول ادا کریں۔

1947 کے بعد دہلی اور دوسرے مقامات پر ہندو مسلم فسادات شروع ہوگئے تھے۔ مولاناابوالکلام آزاد نے اُس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو (وفات: 1964) کی مدد سے اِن فسادات کو روکنے میں کامیابی حاصل کی۔ انھوں نے لکھنؤ میں 1948 میں آل انڈیا مسلم کنونشن بلایا۔ اِس کنونشن میں پورے ہندستان سے مسلم نمائندے شریک ہوئے۔ یہ کنونشن نہایت کامیاب رہا۔ اِس موقع پر مولانا ابولکلام آزاد نے جو تقریر کی، اس کو کتابوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اِس کنونشن نے انڈیا کے مسلمانوں کے لیے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ آزادی (1947) کے بعد مولانا ابو الکلام آزاد گیارہ سال تک زندہ رہے۔ انھوں نے مذکورہ قسم کے بہت سے کام کیے۔ درمیانی شخص کا جو مثبت رول ہوتا ہے، اِس پہلو سے مولانا ابو الکلام آزاد بلا شبہہ ایک کامیاب مثال کی حیثیت رکھتے ہیں۔

تاریخ کے ہر دور میں درمیانی شخص (middleman) کا رول بہت اہم رہا ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ ہر زمانے میں درمیانی شخص کو شبہہ کی نظر سے دیکھا گیا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ درمیانی شخص ایک طرف، اپنی قوم سے وابستہ ہوتا ہے اور دوسری طرف، وقت کے حکم راں اُس سے قریب ہوجاتے ہیں۔ اِسی دو طرفہ تعلق کی بنا پر وہ اِس قابل ہوتا ہے کہ وہ درمیانی شخص کا اہم رول ادا کرسکے۔

لیکن قوموں کی نفسیات یہ ہے کہ ہمیشہ اربابِ اقتدار کے بارے میں ان کی رائے منفی ہوتی ہے۔ اربابِ اقتدار کے خلاف اِس منفی ذہن کو اینٹی انکمبینسی فیکٹر (anti-incumbency factor) کہا جاتا ہے۔ اِس مزاج کی بنا پر جمہوری ملکوں میں ایسا ہوتا ہے کہ اربابِ اقتدار کے مقابلے میں ایک اپوزیشن گروپ بن جاتا ہے۔

یہی مزاج درمیانی شخص کا رول ادا کرنے والے افر اد کے مقابلے میں بھی کام کرتا ہے۔ ایسا کسی عقلی فیصلے کی بناپر نہیں ہوتا، بلکہ وہ تمام تر اینٹی انکمبینسی مزاج کے تحت ہوتا ہے۔ اِس قومی مزاج نے پہلے بھی کسی درمیانی شخص کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا۔ اور آج بھی ایسے افراد پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھے جاتے۔ درمیانی شخص کے رول کو ہر آدمی اپنے ذاتی معاملے میں بھر پور طورپر استعمال کرتا ہے، لیکن قومی معاملے میں وہ اس کی اہمیت کو بھول جاتا ہے۔

عام طورپر قوموں کا مزاج یہ ہے کہ جو لوگ اُن کے مفروضہ حریف کے خلاف پُرجوش تقریریں کریں، ان کو قومیں اپنا دوست سمجھ لیتی ہیں، اور جو شخص ان کے مفروضہ حریف کے بارے میں معتدل انداز میں کلام کرے، اس کو دشمن کا ایجنٹ سمجھ کر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ ایسا تاریخ میں بار بار ہوا ہے۔ یہ بلاشبہہ ایک تباہ کن مزاج ہے۔ جو قومیں اِس مزاج کا شکار ہوں، وہ اپنے گرد وپیش موجود مواقع کو استعمال کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ مثبت امکانات کے درمیان منفی انجام کے سوا کچھ اور ان کے حصے میں نہیں آتا۔

تجربہ بتاتا ہے کہ جو لوگ مفروضہ حریف کے خلاف منفی تقریریں کریں، ان کو قوموں کے درمیان خوب مقبولیت حاصل ہوتی ہے۔ ان کے لیے پرجوش تالیاں بجائی جاتی ہیں۔ لیکن نتیجے کے اعتبار سے ایسے لوگ اپنی قوم کی تباہی میں اضافے کے سوا کچھ اور نہیں کر پاتے۔ وہ قوم کی جذباتیت میں اضافہ کرکے اُس کواِس قابل بنا دیتے ہیں کہ وہ مثبت سوچ کے ساتھ اپنی تعمیری منصوبہ بندی نہ کرسکے۔

اِس کے برعکس، جو شخص حریف سے نفرت میں مبتلا نہ ہو، وہ معتدل انداز میں سوچنے کے قابل ہوتا ہے۔ وہ حالات کا حقیقت پسندانہ اندازہ کرکے تعمیری منصوبہ بناتا ہے، اور قوم کو از سرِ نو نئی زندگی دینے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ تاریخ میں دونوں قسم کے کردار پائے جاتے ہیں۔ لیکن نتیجہ بتاتا ہے کہ پہلی قسم کے کردار نے صرف تباہی میں اضافہ کیا، اور دوسری قسم کے کردار نے اپنی قوم کو نئی زندگی دینے میں کامیابی حاصل کی۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom