ربّانی معیار، اَخلاقی معیار

میں اپنے مطالعے سے یہ سمجھا ہوں، واللّٰہ أعلم بالصّواب، کہ غالباً آخرت کی نجات کے دو معیار ہیں— ایک، ربّانی معیار اور دوسرا، اخلاقی معیار۔ ربّانی معیار پر پورا اُترنے والے لوگ جنت میں اعلیٰ مقام پائیں گے۔ اخلاقی معیار پر پورا اترنے والے لوگ بھی جنت میں جاسکتے ہیں، لیکن وہ عام درجے کی جنت میں جگہ پائیں گے، نہ کہ اعلیٰ درجے کی جنت میں۔

ربّانی معیار اور اخلاقی معیار کو دوسرے لفظوں میں، شرعی معیار اور فطری معیار کہاجاسکتا ہے۔ شرعی معیار پر پورا اترنے والے وہ لوگ ہیں جنھوں نے پیغمبر کے ذریعے اترنے والی سچائی کو دریافت کیا، اور پھر دل کی پوری آمادگی کے ساتھ اُس کو اپنی زندگی میں اختیار کرلیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو معیارِ اوّل پر پورے اترے۔ وہ حسبِ اخلاص، جنت میں اعلیٰ درجات پائیں گے۔

فطری معیار پر پورا اُترنے والے وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنی فطرت، یا اپنے ضمیرکی آواز کو سنا اور اُس پر پوری دیانت داری کے ساتھ قائم ہوگئے۔ انھوں نے اپنی آزادی کا کوئی غلط استعمال نہیں کیا۔ معروف اخلاقیات کے اوپر وہ سنجیدگی کے ساتھ قائم رہے۔ جن کا حال یہ تھا کہ جو سچائی اُن کے علم میں آئی، اُس کا انھوں نے انکار نہیں کیا۔ ایسے لوگ بھی غالباً جنت میں جگہ پائیں گے۔

ایک عالم سے اِسی طرح کا سوال پوچھا گیا تو انھوں نے مختصر انداز میں اس کا جواب اِس طرح دیا: جیسا علم ویسا مواخذہ، یعنی آدمی کی ذمے داری یہ ہے کہ وہ جتنا جانے، اُس پرعمل میں کوتاہی نہ کرے۔ جو بات اس کے علم میں نہیں آئی، اس میں اگر وہ کوتاہی کرتا ہے، تو خدا اس کو بے خبری کے خانے میں ڈال دے گا، نہ کہ باخبری کے خانے میں۔حدیث میں آیا ہے کہ: إنما الأعمال بالنیات (صحیح البخاری)یعنی عمل کا دارومدار نیت پر ہے۔ نیت (intention) ہی خدا کے یہاں اصل اہمیت کی چیز ہے۔ آدمی جب ایک صحیح بات کو جانے اور جانتے بوجھتے اس کے خلاف کرے، تو اِس قسم کی خلاف ورزی بلا شبہہ وہ چیز ہے جس پر انسان کی پکڑ ہوگی۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom