ایک خط
برادرِ محترم مولانا سیدنور ابراہیم!
السلام علیکم ورحمۃاللہ
آپ کا خط مؤرخہ 2 جون 2008 ملا۔ اِس کو میں نے دوبار پڑھا۔ میں آپ کو مرتد نہیں سمجھتا۔ زیادہ صحیح لفظوں میں، آپ عقلی (rationalist) ہیں، یعنی: معتقد بکفایۃ العقل دُون الوحی۔آپ کے متعلق، میری رائے یہ ہے کہ آپ کے ذہن میں عقل کا ایک تصور بنا ہے اور اس کی بنیاد پر آپ نے ایک رائے قائم کی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر کوئی اورنقطۂ نظر آپ کے سامنے آئے جو عقل کے معیار پر پورا اترتاہو توآپ اپنے موجودہ موقف سے رجوع کرلیں گے، جیسا کہ آپ نے اپنے پچھلے روایتی موقف سے رجوع کرلیا۔میں نے اِس موضوع پر بہت پڑھا ہے۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ جو لوگ عقل کو مطلق معیار کی حیثیت دیتے ہیں، وہ سب کے سب ثانوی درجے کے مفکرین ہیں۔ اول درجے کے فلاسفہ اور مفکرین میں سے کوئی بھی نہیں جو عقل کو مطلق معیار کی حیثیت دیتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ تمام عقلی مفکرین اصلاً مُشکک(sceptic) تھے، نہ کہ مُنکر یا مرتد۔
مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے جدید فلاسفہ اور مفکرین کی کتابیں نہیں پڑھیں۔ آپ نے صرف رَجنیش (Osho) کو پڑھا ہے۔ اور رجنیش (وفات: 1999)کا معاملہ یہ ہے کہ وہ نہ فلسفی تھے اور نہ سائنٹسٹ، وہ صرف ایک خطیب تھے۔ خطابت کا فن ان کو آتا تھا۔ رجنیش سے صرف وہی لوگ متاثر ہوئے ہیں جو خطیبانہ استدلال اور سائنٹفک استدلال کا فرق نہیں جانتے۔ اور غالباً آپ کا کیس اِس معاملے میں استثنا (exception) کا نہیں۔خالص عقلی اعتبار سے اس معاملے میں اصل بات یہ ہے کہ سائنس نے صرف یہ معلوم کیا ہے کہ اکثرواقعات میں کسی سبب کا کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ مگر کوئی سائنس یا کوئی عقلی سسٹم اب تک یہ معلوم نہ کرسکا کہ کوئی سبب مؤثر کیوں ہوتا ہے۔ مثلاً سائنس نے یہ دریافت کیا ہے کہ ہائڈروجن کے دوایٹم اور آکسیجن کے ایک ایٹم کے ملنے سے پانی وجود میں آتا ہے۔ لیکن کوئی بھی سائنس یا کوئی بھی عقلی سسٹم اب تک یہ نہ بتا سکا کہ سبب میں یہ تاثیر کیسے پیدا ہوگئی۔
سائنس نے سبب اور نتیجے کو تو معلوم کیا ہے، لیکن یہ سبب کیوں مؤثر ہوتا ہے، اُس کو سائنس دریافت نہ کر سکی۔ گویا کہ سبب اور نتیجے کے درمیان ایک مِسنگ لنک (missing link) ہے جو ابھی تک غیر معلوم ہے۔ فلسفیوں نے اِس مسنگ لنک کو دریافت کرنے کی کوشش کی، مگر وہ ناکام رہے۔
خالص عقلی اعتبار سے یہ کہنا بالکل درست ہے کہ کسی سبب اور اس کے نتیجے کے درمیان کوئی حقیقی لازمہ نہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ اشیا کا اسباب کے ذریعہ وجود میں آنا جتنا ممکن ہے، اتنا ہی ممکن یہ بھی ہے کہ اشیا کسی ظاہری سبب کے بغیر وجود میں آجائیں۔ یہی اِس معاملے میں صحیح ترین عقلی موقف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی شخص لا ادریّہ(agnostic) تو بن سکتا ہے، لیکن عقلی (rationalist) ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے، وہ اس کے سوا کوئی اور موقف اختیار نہیں کرسکتا۔ اگر آپ اِس معاملے میں سنجیدہ ہوں تو میں عرض کروں گا کہ آپ مندرجہ ذیل دو کتابیں ضرور پڑھ لیں:
1. Human Knowledge, by Bertrand Russel.
2. Appearance and Reality, by Francis Herbert Bradley.
آپ کے خط کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ ظاہری سبب کے بغیر کسی چیز کے وقوع کو نہیں مانتے۔ لیکن اگر آپ رجنیش کے علاوہ،دوسرے بڑے فلاسفہ اور مفکرین کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ خالص عقلی اعتبار سے کسی واقعے کا غیر معجزاتی طورپر وجود میں آنا بھی اتنا ہی عجیب ہے، جتنا کہ ان کا معجزاتی طورپر وجود میں آنا۔ اس لیے اِس معاملے میں صحیح عقلی موقف یہ ہے کہ آدمی اگر ایک ناقابلِ توجیہہ واقعے کو مانتا ہے، تو اُس کو دوسرے ناقابلِ توجیہہ واقعے کو بھی ضرور مان لینا چاہیے۔
آپ نے لکھا ہے کہ اوشو کی کتابوں سے آپ کا ذہن بدل گیا۔ میں نے بھی رجنیش کی کتابیں پڑھی ہیں۔ میں نے پایا کہ رجنیش کے یہاں ’شَبدجنجال‘ کے سوا اور کچھ نہیں۔ عام لوگ چوں کہ خطیبانہ استدلال اور سائنسی استدلال کے فرق کو نہیں جانتے، اس لیے وہ ان کی باتوں سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ مگر جس آدمی کے اندر علمی تجزیہ کرنے کی صلاحیت ہو، وہ اُن سے متاثر نہیں ہوسکتا۔ آپ نے اپنے خط میں رجنیش کے کسی استدلال کا ذکر نہیں کیا ہے، ورنہ میں اس کا تجزیہ کرکے بتاتا کہ ان کا استدلال کتنا بے اصل ہوتا ہے۔
نئی دہلی، 5جون 2008 دعا گو وحید الدین