خوش نما فریب
ہر زبان میں مثلیں (sayings)اور کہاوتیں ہوتی ہیں۔ یہ کہاوتیں انسانی زندگی کا تجربہ ہوتی ہیں۔ ہر مثل لمبے انسانی تجربے کے بعد بنتی ہے۔ اِسی قسم کی ایک انگریزی مثل یہ ہے— یہ اتنا زیادہ اچھا ہے کہ وہ سچ نہیں ہوسکتا:
It is too good to be true.
یہ ایک حقیقت ہے کہ سچ کے مقابلے میں، جھوٹ ہمیشہ خوش نما ہوتا ہے۔ حقیقی نفع کے مقابلے میں، فرضی نفع ہمیشہ زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ مخلصانہ بات کے مقابلے میں، منافقانہ بات ہمیشہ خوب صورت ہوتی ہے۔ نصیحت کے مقابلے میں، خوش کرنے والی بات سننے میں زیادہ اچھی معلوم ہوتی ہے۔ حقیقی تاریخ کے مقابلے میں، فرضی قصہ کہانیاں زیادہ دل چسپ ہوتی ہیں۔ حقیقت پسندانہ کلام کے مقابلے میں، رومانوی کلام ہمیشہ زیادہ دل کش نظر آتا ہے۔ کار آمد بات کے مقابلے میں، بے فائدہ بات آدمی کو زیادہ پرکشش معلوم ہوتی ہے۔
یہی وہ چیز ہے جو آدمی کو دھوکے میں ڈال دیتی ہے۔ ایسی حالت میں آدمی ہر وقت امتحان کی حالت میں ہے۔ ہر وقت اس کو چوکنا بن کر رہنا ہے، تاکہ ایسا نہ ہو کہ وہ جھوٹ کے فریب میں پھنس کر، سچائی سے دور ہوجائے۔ وہ ہوائی باتوں سے مسحور ہو کر، حقیقت پسندی کے راستے سے ہٹ جائے۔ وہ منافقانہ باتوں کے فریب میں آکر، مخلصانہ بات کو قبول نہ کرسکے۔
اِس دنیا میں ہر وقت یہ خطرہ ہے کہ آدمی سونے کے ملمّع کو سونا سمجھ کر لے لے اور پھر وہ سخت نقصان میں پھنس جائے۔ وہ جھوٹے الفاظ کے فریب میں آکر ایسی چھلانگ لگا دے، جو اس کوایسے گڑھے میں گرادے، جس سے نکلنے کی کوئی صورت اس کے لیے نہ ہو۔
اِس دنیا میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ آدمی خوش نما باتوں سے متاثر نہ ہو، وہ ٹھوس حقائق کی روشنی میں اپنی رائے بنائے۔ دانش مند صرف وہ شخص ہے جو اِس معیار پر پورا اترے۔