دو آیتیں
قرآن کی سورہ نمبر 42 کی ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے: ’’اللہ نے تمھارے لیے وہی دین مقرر کیا ہے جس کا اس نے نوح کو حکم دیا تھا اور جس کی وحی ہم نے تمھاری طرف کی ہے اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم کو اور موسیٰ کو اور عیسیٰ کو دیا تھا کہ دین کو قائم رکھو اور اس میں اختلاف نہ ڈالو‘‘( الشوریٰ: 13)۔
قرآن کی سورہ نمبر 5 میں مختلف پیغمبروں کی امتوں کا حوالہ دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور ایک طریقہ ٹھہرایا۔ (المائدہ: 48)۔
قرآن کی ان دونوں آیتوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے پیغمبروں کے ذریعہ انسان کے لیے جو ہدایت نامہ بھیجا ہے اس کے دو حصے ہیں۔ اس کا ایک حصہ وہ ہے جس کو ’الدین‘ کہا گیا ہے۔ اور اس کا دوسرا حصہ وہ ہے جس کو ’شریعت‘ اور ’منہاج‘ کا نام دیا گیا ہے۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ’الدین‘ سے مراد خدا کی ہدایت کا وہ حصہ ہے جو حضرت نوح سے لے کر پیغمبر اسلام تک سب کو یکساں طورپر دیا گیا ہے۔ یہ خدا کی ہدایت کا ابدی حصہ ہے۔ اس حصۂ ہدایت میں نہ پہلے کبھی کوئی تبدیلی ہوئی اور نہ آئندہ اس میں کوئی تبدیلی ہوسکتی ہے۔ مگر خدائی ہدایت نامے کا دوسرا حصہ جس کو شریعت کہا گیا ہے، وہ جیسا کہ قرآن سے واضح ہے، ہر نبی کی امت کو مختلف صورت میں دیاگیا ہے۔ گویا کہ ’الدین‘ کے برعکس ’شریعت‘ تبدیلی کا موضوع ہے۔
تعلیمات کے درمیان اِس تقسیم کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے دین کا جو ابدی پیغام ہے، وہ ہرزمانے میں یکساں رہا ہے۔ لیکن اِس پیغام کو جب عملی طورپر وقت کی صورتِ حال پر منطبق کیا جائے تو یہ ’شریعت‘ کا معاملہ بن جاتا ہے۔ اور شریعت کے معاملے میں ہمیشہ حالات کا اعتبار کیا جائے گا۔ اِسی حکمت کی بنا پر مختلف شریعتوں کے درمیان فرق رہا ہے۔ چوں کہ حالات بدلتے رہتے ہیں، اس لیے کوئی شریعت اپنی پوری تفصیل کے ساتھ دوامی نہیں ہوسکتی، وہ ہمیشہ اجتہاد کا موضوع بنی رہے گی۔ اِس اجتہاد میں پچھلے نبیوں کا عمل ایک رہ نما نمونے کی حیثیت رکھتا ہے (الأنعام: 90)۔