فہمِ دین کے لیے تدبّر ضروری
دین کو سمجھنے کے لیے صرف یہ کافی نہیں ہے کہ آدمی عربی زبان جانے، یا وہ قرآن اور حدیث کا ترجمہ پڑھ لے۔ اِسی کے ساتھ لازمی طورپر ضروری ہے کہ آدمی پوری سنجیدگی کے ساتھ اُس پر تدبّر کرے۔ سنجیدہ غور وفکر کے بغیر کوئی بھی شخص دین کو حقیقی طورپر سمجھ نہیں سکتا، خواہ وہ تمام دینی علوم اور دُنیوی علوم کا ماہر ہو۔ مثال کے طورپر قرآن میں اہلِ ایمان کو یہ دعا سکھائی گئی ہے: ربّنا آتنا فی الدنیا حسنۃً، وفی الآخرۃ حسنۃً، وقنا عذابَ النّار (البقرۃ: 201)
ظاہر ِ الفاظ کو لے کر اگر آپ اس دعاکا یہ مطلب سمجھ لیں کہ اے رب، ہم کو دنیا کی اچھی چیزیں دے دے اور ہم کو آخرت کی اچھی چیزیں دے دے، تو ایسا سمجھنا غلط ہوگا۔ اِس دعا میں جو بات کہی گئی ہے، وہ خدا کی نسبت سے ہے، نہ کہ انسان کی نسبت سے۔ اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہماری اپنی خواہشوں کے مطابق، خدا ہم کو دونوں جہان کی اچھی چیزیں دے دے، بلکہ اِس دعا کا مطلب یہ ہے کہ خدایا، تیرے نزدیک دنیا کا جو حسنہ ہے، وہ تو ہم کو دے، اور تیرے نزدیک آخرت کا جو حسنہ ہے، وہ ہم کو دے دے۔
اِسی طرح ایمانِ مفصّل کے کلمہ میں مومن جو الفاظ ادا کرتا ہے، اُس میں سے ایک چیز یہ ہے: وبالقدر خیرہ وشرّہ (میں ایمان لایا تقدیر پر، وہ خیر ہویا شر ہو) اِن الفاظ کا معاملہ بھی یہ ہے کہ وہ خدا کی نسبت سے نہیں ہیں، بلکہ وہ انسان کی نسبت سے ہیں، اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا کسی کے لیے خیر مقدر کردیتا ہے اور کسی کے لیے شر۔ گویا کہ بندہ یہ کہہ رہا ہے کہ دنیا کی زندگی میں جو کچھ میرے ساتھ پیش آئے، خواہ وہ میری اپنی سمجھ کے مطابق، خیر ہو یا وہ میری اپنی سمجھ کے مطابق شر ہو، میں ہر حال میں اُس پر راضی ہوں۔
گویا کہ پہلی مثال میں ’حسنہ‘ کی جو بات ہے، اُس کو صرف اُس وقت سمجھا جاسکتا ہے جب کہ اُس کو خدا کی نسبت سے دیکھا جائے۔ اگر اُس کوانسان کی نسبت سے دیکھا جانے لگے تو اُس کا مفہوم بالکل غلط ہوجائے گا۔ اِسی طرح دوسری مثال میں خیر و شرکی جو بات ہے، وہ انسان کی نسبت سے ہے، نہ کہ خدا کی نسبت سے۔ اگر اِس نسبت کو بدل دیا جائے تو اُس کے مفہوم کو صحیح طور پر سمجھا نہیں جاسکتا۔