دعا ایک عبادت
میں نے 1982 میں حج کیا۔ اس سفر میں ایک عرب پروفیسربھی میرے ساتھ تھے۔ہم دونوں جدہ ائر پورٹ پر اترے اور پھر وہاں سے روانہ ہوکر مکہ پہنچے۔ مکہ پہنچ کر میرے عرب ساتھی کو اچانک معلوم ہوا کہ وہ اپنا ہینڈ بیگ جدہ میں ائر پورٹ پر چھوڑ آئے ہیں جس میں اُن کے بیس ہزار ریال تھے۔ اس کے بعد وہ مجھ کو مکہ میں چھوڑ کر دوبارہ جدہ کے لیے روانہ ہوگئے تاکہ وہاں اپنا کھویا ہوا ہینڈ بیگ تلاش کریں۔ ان کے جانے کے بعد میں نے دو رکعت نماز پڑھی۔ میں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھایا تو میری زبان سے یہ الفاظ نکلے— خدایا، تو اس کو ہمارے لیے سبق بنادے، تو اس کو ہمارے لیے نقصان نہ بنا۔
آدمی کو پوری کوشش کرنا چاہیے کہ وہ غلطی یا نقصان سے بچے، لیکن جب نقصان ہوجائے تو دوسری چیز جس سے آدمی کو بچنا چاہیے، وہ ہونے والے واقعہ پر غم اور افسوس ہے۔ جب ایک غلطی ہوجائے تو وہ گویاکمان سے نکلا ہوا ایک تیر ہے جو واپس نہیں آتا۔ ایسی غلطی کے لیے افسوس نہیں کرنا ہے، بلکہ اللہ سے دعا کرنا ہے کہ وہ اس کے بُرے انجام سے آدمی کو بچائے۔
غلطی نہ کرنا اچھا ہے، مگر غلطی کرنا بھی اس وقت اچھا بن جاتا ہے جب کہ غلطی کا احساس آدمی کو اللہ کی طرف متوجہ کردے۔ وہ اپنے رب سے دعائیں کرنے لگے۔ ایسی غلطی آدمی کے لیے عبادت کا سبب بن جاتی ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ دعا ایک عبادت ہے: (الدعاء ہوالعبادۃ)۔
نقصان کے بعد اس پر غم کرنا گویا کھوئے ہوئے میں جینا ہے۔ اور نقصان کے بعد اللہ کی طرف رجوع ہوجانا گویا نقصان کے بعد اس کی بہتر تلافی کا طالب بننا ہے۔ اور بلا شبہہ اللہ یہ اختیاررکھتا ہے کہ وہ آدمی کے نقصان کو دوبارہ عظیم تر فائدے میں تبدیل کردے۔
ہر نقصان کے دو پہلو ہیں۔ ایک، نقصان اوردوسرے، سبق۔ اگر کوئی نقصان ہوجائے، تو آدمی کو چاہیے کہ وہ اُس سے سبق لے۔ اِس طرح نقصان، فائدے میں تبدیل ہوجائے گا۔