اسلام کا مستقبل
مسلم اخباروں اور مسلم جرائد میں آج کل کثرت سے ایسے مضامین چھپتے ہیں، جن کا عنوان اِس قسم کا ہوتا ہے— مستقبل اسلام کا ہے، وغیرہ۔ اِس قسم کی سوچ ایک بے بنیاد سوچ ہے۔ اسلام کے غلبہ کے لیے کسی مستقبل کے انتظار کی ضرورت نہیں۔ اسلام آج بھی پوری طرح غالب اور قائم ہے۔
اسلام کے غلبہ سے مراد اس کا فکری غلبہ (اظہار) ہے، یعنی دلائل وبراہین کے ذریعے اسلام کی حقانیت کا ثابت شدہ رہنا۔ اِس اعتبار سے، اسلام ابدی طورپر ایک غالب دین کی حیثیت رکھتا ہے۔ مذکورہ قسم کی باتیں صرف وہ لوگ کرتے ہیں جو مسلمانوں کے سیاسی غلبہ کو، اسلام کے غلبہ کے ہم معنیٰ سمجھتے ہیں۔ یہ دونوں باتیں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔
اسلام اصلاً ایک آئڈیا لوجی (ideology) کا نام ہے۔ جب دلائل کی تائید اسلام کے حق میں ہو، تو اسلام کو غالب سمجھا جائے گا۔ دلائل کی یہ تائید پہلے بھی اسلام کے حق میں تھی، اور اب سائنسی حقائق کے ظہور کے بعد مزید اضافے کے ساتھ دلائل کی یہ تائید اسلام کو حاصل ہوچکی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اب مسئلہ اسلام کے غلبہ کا نہیں ہے، کیوں کہ اسلام کا فکری غلبہ تو اپنے آپ ہر حال میں قائم ہے۔ اب جو سوال ہے، وہ صرف ایک ہے، اور وہ مسلمانوں کی اپنی ذمے داری کا ہے۔ اب یہ مسلمانوں کا کام ہے کہ وہ ایک طرف، اسلام کو گہرائی کے ساتھ سمجھیں اور دوسری طرف، وقت کے حالات کا پوری طرح اندازہ لگائیں اور پھرجدید ذہن کے مطابق، اسلام کی تعلیمات کو مدلل انداز میں پیش کریں۔ اِس عمل کا نام دعوتِ اسلام ہے۔
فکری غلبہ، اسلام کی اپنی ایک صفت ہے، لیکن اسلام کے پیغام کو تمام انسانوں تک پہنچانا، یہ مسلمانوں کے کرنے کا کام ہے۔ مسلمان اگر اپنی اِس ذمے داری کو انجام نہ دیں، تو اِس قسم کی باتوں کا کوئی فائدہ پہنچنے والا نہیں۔ اسلام کے ’’مستقبل‘‘ کا انحصار حال میں اپنی ذمے داری کو ادا کرنے پر ہے، نہ کہ اس کے بارے میں مذکورہ قسم کا پُر فخر اعلان کرنے پر۔